Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 49
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ بَلِ اللّٰهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُزَكُّوْنَ : پاک۔ مقدس کہتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ کو بَلِ : بلکہ اللّٰهُ : اللہ يُزَكِّيْ : مقدس بناتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان پر ظلم نہ ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے تئیں پاکیزہ کہتے ہیں ؟ نہیں بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے پاکیزہ کرتا ہے اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا
(49 ۔ 50) ۔ ابن ابی حاتم وغیرہ نے اللہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ یہود ایک دفعہ کچھ اپنے چھوٹے بچوں کو آنحضرت ﷺ کے پاس لائے اور پوچھا کیا لڑکے گنہگار ہیں۔ آپ نے فرمایا نہیں پھر یہود نے کہا ہم بھی ان لڑکوں کی مانند ہیں۔ جو گناہ ہم دن کو کرتے تھے ہیں وہ تورات کو اور جو رات کرتے ہیں وہ دن کو معاف ہوجاتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 1 اور فرمایا غیب کا علم اللہ کو ہے کہ مرنے کے بعد کس کا کیا انجام ہونے والا ہے۔ یہ لوگ جو زبردستی اپنے آپ کو بےگناہ بچوں کی طرح سے عذاب آخرت سے بری بتاتے ہیں یہ اللہ کی شان میں ان کا ایک صریح جھوٹ ہے عقبٰی میں ایک ذرہ بھر بھی ظلم نہ ہوگا۔ کہ نیکیوں کی جزا بدوں کو یا بدوں کی سزا نیکوں کو مل جائے۔ بلکہ وہاں تو جیسا کوئی کرے گا ویسا پائے گا اور گناہ تو درکنار ان لوگوں نے اللہ کی شان میں یہ ایک جھوٹ بات کہی ہے کہ باوجود طرح طرح کے گناہوں کے ان سے عقبیٰ میں مواخذہ نہ ہوگا۔ یہی ایک یسا بڑا گناہ ہے کہ وہ ان کی گرفت کے لئے کافی ہے فتیل اس پتلے سے چھلکے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی پر تاگے کی طرح باریک ہوتا ہے تزکیہ کے معنی اپنے نفس کی بڑائی کرنا۔ صحیح حدیثوں میں شیخی کے طور پر اپنے آپ کو جو آدمی اچھا کہنے لگتا ہے اس کی اور خوشامد کے طور پر دوسرے کی جو زبر دستی تعریف کرتا ہے اس کی ممانعت آئی ہے 2۔
Top