Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے، جیسے ان لوگوں پر لکھا گیا جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ….) روزہ ان پانچ فرائض میں داخل ہے جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ [ بخاری، الإیمان، باب دعاؤکم إیمانکم : 8 ] الصِّيَامُ یہ مصدر ہے، یہ ”صَوْمٌ“ کی جمع نہیں، بلکہ ”صَوْمٌ“ بھی مصدر ہے، اصل میں یہ کسی بھی کام سے رک جانے کو کہتے ہیں، کھانا پینا ہو یا کلام ہو یا چلنا پھرنا، اسی لیے گھوڑا چلنے سے یا چارا کھانے سے رکا ہوا ہو تو اسے ”فَرَسٌ صَاءِمٌ“ کہتے ہیں، رکی ہوئی ہوا کو بھی ”صَوْمٌ“ کہتے ہیں۔ (راغب) شریعت میں روزہ کی نیت سے صبح صادق سے سورج غروب ہونے تک کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنے کا نام صوم ہے۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ) یہ روزے کی حکمت بیان فرمائی ہے کہ اسلامی روزے کا مقصد نفس کو عذاب دینا نہیں بلکہ دل میں تقویٰ یعنی بچنے کی عادت پیدا کرنا ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے صبح سے شام تک ان حلال چیزوں سے بچے گا تو وہ ان چیزوں سے جو ہمیشہ کے لیے حرام ہیں، ان سے روزہ کی حالت میں بدرجۂ اولیٰ بچے گا۔ اس طرح روزہ گناہوں سے بچنے کا اور بچنے کی عادت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ) ”روزہ (گناہوں اور آگ سے) ڈھال ہے۔“ [ بخاری، الصیام، باب فضل الصوم : 1894 ] اور فرمایا : ”جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔“ [ بخاری، الصیام، باب من لم یدع قول الزور : 1903، عن أبی ہریرۃ ؓ ] روزہ رکھ کر نماز نہ پڑھنے والے، جھوٹ بولنے والے، دھوکا دینے والے، سارا دن ٹیوی پر کان اور آنکھ کے زنا میں مصروف رہنے والے، غرض کسی بھی نافرمانی کا ارتکاب کرنے والے سوچ لیں کہ انھیں روزہ رکھنے سے کیا ملا ؟ پہلے لوگوں سے مراد یہود و نصاریٰ اور پہلی امتیں ہیں۔ روزے کی یہ فرضیت 2 ہجری میں نازل ہوئی اور روزے نے موجودہ شکل بتدریج اختیار کی۔ عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ قریش (عاشورا) دس محرم کا روزہ رکھتے تھے اور نبی ﷺ بھی رکھتے تھے، جب مدینہ میں آئے تو اس دن کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان (کے روزوں کا حکم) نازل ہوا تو رمضان (کے روزے) فرض ہوگئے اور عاشورا ترک ہوگیا، پھر جو چاہتا اسے رکھتا اور جو چاہتا نہ رکھتا۔ [ بخاری، التفسیر، باب (یأیہا الذین آمنوا کتب۔۔) : 4504 ] (وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ) صحیح سند کے ساتھ اس کی دو تفسیریں آئی ہیں۔ سلمہ بن اکوع ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری : (وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ) تو جو چاہتا کہ روزہ نہ رکھے اور فدیہ دے دے تو ایسا کرلیتا، یہاں تک کہ وہ آیت اتری جو اس کے بعد ہے، تو اس آیت نے اسے منسوخ کردیا۔ [ بخاری، کتاب التفسیر، باب : (فمن شہد منکم الشہر) : 4507 ] ابن عمر ؓ نے بھی یہی فرمایا۔ [ بخاری، الصوم، باب : (و علی الذین یطیقونہ۔۔) : 1949 ] یعنی چونکہ شروع میں لوگوں کو روزے کی عادت نہ تھی، اس لیے انھیں یہ رعایت دی گئی کہ جو چاہے روزہ رکھ لے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے، بعد میں دوسری آیت سے یہ رعایت منسوخ ہوگئی۔ اکثر علماء نے یہی تفسیر کی ہے۔ دوسری تفسیر صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس ؓ سے آئی ہے، انھوں نے ”يُطِيْقُوْنَهٗ“ کی جگہ ”یُطَوَّقُوْنَہُ“ پڑھا، جس کا معنی ہے : ”یَتَجَشَّمُوْنَہٗ“ یعنی اس سے تکلیف اٹھاتے ہیں۔ (ابن عاشور ؓ نے ”التحریر والتنویر“ میں فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس ؓ نے ”یُطَوَّقُوْنَہٗ“ کو بطور قراءت نہیں بلکہ ”يُطِيْقُوْنَهٗ“ کی تفسیر کے طور پر پڑھا ہے) ابن عباس ؓ فرماتے ہیں، یہ منسوخ نہیں بلکہ اس سے مراد وہ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت ہیں جو روزہ نہیں رکھ سکتے، وہ ہر دن (یعنی ہر روزے) کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ [ بخاری، التفسیر، باب : (أیامًا معدودات۔۔) : 4505 ] بخاری ہی میں مذکور ہے کہ انس ؓ نے بوڑھے ہونے کے بعد ایک یا دو سال ہر دن ایک مسکین کو گوشت کے ساتھ روٹی کھلا دی اور روزہ نہ رکھا۔ [ بخاری التفسیر، باب : (أیاما معدودات۔۔) ، قبل ح : 4505 ] يُطِيْقُوْنَهٗ اس کا معنی ”جو اس (روزے) کی طاقت رکھتے ہوں“ بھی ہوسکتا ہے اور ابن عباس ؓ نے جو معنی کیا ہے کہ ”طاقت نہ رکھتے ہوں“ وہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں باب افعال ازالۂ ماخذ کے لیے ہوگا، جیسے کہا جاتا ہے : ”شَکَا اِلَیَّ فَأَشْکَیْتُہُ“ اس نے میرے پاس شکایت کی تو میں نے اس کی شکایت دور کردی۔ دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت روزے کی طاقت رکھنے والے کے حق میں منسوخ ہے اور طاقت نہ رکھنے والے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے حق میں منسوخ نہیں اور جس بیمار کے تندرست ہونے کی امید نہ ہو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ (فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا) یعنی ایک سے زیادہ مسکینوں کو کھلا دے۔ [ طبری عن ابن عباس ؓ بسند صحیح ] ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہر دن کی جگہ نصف صاع فدیہ دے دے۔ [ ابن ابی حاتم بسند حسن، التفسیر الصحیح ] ایک روزے کی جگہ ایک کلو اناج فدیہ دے دے یا ایک مسکین کو بلا کر کھانا کھلا دے۔
Top