Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے مسلمانو ! جس طرح ان لوگوں پر جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ، روزہ [ فرض کردیا گیا تھا ، اسی طرح تم پر بھی فرض کردیا گیا ہے تاکہ تم میں پرہیزگاری پیدا ہو
روزہ کی فرضیت کا اعلان : 312: ” صیام “ جمع ہے صوم کی ۔ روزہ اصطلاح شریعت میں اسے کہتے ہیں کہ انسان طلوع فجر سے غروب آفتاب تک اپنے کو کھانے پینے اور عمل زوجیت سے روکے رکھے۔ ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں۔ رمضان کے علاوہ روزہ رکھنا نفلی عبادت ہے۔ ایک مہینے میں تین روزے رکھنا بڑی فضیلت رکھتا ہے ۔ انہی روزوں کو ایام بیض کے روزے کہا جاتا ہے یعنی 14 ، 15 ، 16 چاند کی تاریخوں میں روزہ رکھنا۔ بعض احادیث میں سوموار اور بعض میں جمعرات اور جمعہ کے دن کا روزہ بھی بتایا گیا ہے۔ روزہ کی حالت میں غیبت ، فحش کلامی ، فسق و فجور اور بدزبانی وغیرہ جیسے تمام گناہوں سے بچنے کی سخت تاکید آئی ہے۔ جھوت اور غیبت سے تو روزہ کا اجر ضائع ہوجانا ثابت ہے۔ جدید و قدیم سب طبیب اس بات پر متفق ہیں کہ روزہ جسمانی بیماریوں کے دور کرنے کا بہترین علاج ہے اور جسم انسانی کے لئے ایک بہترین مصلح ہے۔ پھر اس سے سپاہیانہ ہمت اور ضبط نفسی کی روح جو ساری امت میں تازہ ہوجاتی ہے اس کے لحاظ سے بھی مہینہ بھر کی یہ سالانہ مشق ایک بہترین نسخہ ہے۔ روزہ کسی نہ کسی صورت میں تو دنیا کی ہر قوم اور مذہب میں پایا جاتا ہے۔ ” مِنْ قَبْلِكُمْ “ سے قرآن کریم کی مراد اہل کتاب ہی ہیں۔ چناچہ روزہ شریعت موسوی کا ایک اہم اور معروف جزو ہے۔ مذاہب عالم سے اتنی گہری واقفیت کے صاف صاف ان میں روزہ کے جزو مذہب ہونے کی خبر دے دی۔ اس ترقی پزیر زمانہ سے صدیوں پہلے عرب جیسے دور افتادہ اور دنیا کے ہر ملک سے بےتعلق جزیرہ نما میں ایک امی کیلئے کسی طرح ممکن نہیں بجزوحی الٰہی کے توسط کے اور یہ بھی ایک بڑی دلیل ہے نبی کریم ﷺ کے نبی ہونے کی اور آج دنیا کی تاریخ اس بات کو حق تسلیم کرتی ہے۔ جیسا کے اوپر ذکر کیا گیا ہے دنیا کی ہر قوم میں روزہ رکھنے کا دستور تھا بلکہ اب بھی ہے۔ عاشورہ کے دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو فرعون کے پنجہ قہر و استبداد سے نجات ملی تو یہودیوں نے اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا۔ عیسائیوں میں روزے رکھنے کا قانون تھا مگر انہوں نے کفارہ کی آڑ پکڑی اور تمام اعمال صالح سے الگ ہوگئے۔ روزوں کے مقدس کتاب میں حسب ذیل آیات ملاحظہ کے قابل ہیں : ” چالیس دن اور چالیس رات فاقہ کر کے آخر کار اسے بھوک لگی۔ “ (متی 4 : 2) اور ایک جگہ اس طرح ہے کہ : ” اور جب تم روزہ رکھو تو ریا کاروں کی طرح اپنی صورت اد اس نہ بنائو کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ انہیں روزہ دار جانیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ بلکہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور منہ دھو تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزہ دار جانے۔ اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔ “ (متی 6 : 17 تا 18) انجیل میں ہے کہ : ” اور انہوں نے اس سے کہا کہ یوحنا کے شاگرد اکثر روزہ رکھتے اور دعائیں مانگا کرتے ہیں اور اس طرح فریسیوں کے بھی مگر تیرے شاگرد کھاتے پیتے ہیں۔ یسوع نے ان سے کہا کیا تم بارایتوں سے جب تک دولہا ان کے ساتھ رہے روزہ رکھوا سکتے ہو ؟ مگر وہ دن آئیں گے اور جب دولہا ان سے جدا کیا جائے گا تب ان دونوں میں وہ روزہ رکھیں گے۔ “ (لوقا 5 : 33 تا 34 تا 35) روزہ تعمیل ارشاد خداوندی میں تزکیہ نفس ، تربیت جسم دونوں کا ایک بہترین دستور العمل ہے۔ اشخاص کے افرادی اور امت کے اجتماعی ہر دو نقطہ نظر سے پھر اسلامی روزے کی اصل غرض بھی قرآن کریم نے واضح فرما دی کہ وہ صرف اور صرف تقویٰ کی عادت ڈالنا ہے اور افراد امت کو متقی بنانا ہے ۔ تقویٰ نفس کی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے جس طرح مضر عادتوں سے احتیاط رکھنے سے جسمانی صحت درست ہوجاتی ہے اور مادی لذتوں سے لطف و انبساط کی صلاحیت زیادہ پیدا ہوجاتی ہے۔ بھوک خوب کھل کر لگنے لگتی ہے جسم کی مکمل تضمیر اور تطہیر ہوجاتی ہے۔ خون صالح پیدا ہونے لگتا ہے۔ اس طرح اس عالم میں تقویٰ اختیار کرلینے سے عالم آخرت کی لذتوں اور نعمتوں سے لطف اٹھانے کی صلاحیت و استعداد انسان میں پوری طرح ہو کر رہتی ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں اسلامی روزہ کی افضلیت تمام دوسری قوموں کے گرے پڑے روزوں میں علانیہ ثابت ہوتی ہے۔ اور پھر مشرک قوموں کے ناقص اور ادھورے اور برائے نام روزوں کا تو ذکر ہی کیا خود مسیحی اور یہودی روزوں کی حقیقت بس اتنی ہے کہ یا تو وہ کسی بلا کو دفع کرنے کے لئے رکھے جاتے ہیں یا کسی فوری اور مخصوص روحانی کیفیت کو حاصل کرنے کے لئے۔ یہود کی قاموس اعظم جیوش انسائیکلوپیڈیا میں ہے ” قدیم زمانہ میں روزہ یا تو بطور علامت ماتم کے رکھا جاتا تھا اور یا جب کوئی خطرہ درپیش ہوتا تھا اور یا پھر جب سالک اپنے میں قبول الہام کی استعداد پیدا کرنا چاہتا تھا۔ “ (ج 5 ص 347)
Top