Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
مومنو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔
(2:183) کتب علیکم۔ ای فرض علیکم۔ جیسا کہ اوپر آیت 180-178 میں آیا ہے۔ الصیام۔ مفعول مالم یسم فاعلہ۔ صام یعزم۔ صام وصیام۔ مصدر (باب نصر) الصوم کے اصل معنی کسی کام سے رک جانے یا باز رہنے کے ہیں۔ خواہ اس کا تعلق کھانے پینے۔ چلنے پھرنے یا گفتگو کرنے سے ہو۔ گفتگو سے رکنے کے معنی میں قرآن مجید میں آیا ہے۔ انی نذرت للرحمن صوما (19:25) کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت معنی ہے۔ یعنی کلام سے خاموش رہنے کی جیسا کہ بعد میں اسی آیت میں اس کی تفسیر یوں کی گئی ہے فلن اکلم الیوم انسیا۔ تو آج میں ہرگز کسی آدمی سے بات نہ کروں گی۔ چلنے پھرنے سے رک جانے کے معنی میں شاعر کا قول ہے خیل صیام واخری غیر صائمۃ کچھ گھوڑے اپنے تھان پر کھڑے ہیں اور دوسرے میدان جنگ میں ہیں۔ آیت ہذا میں اصطلاح شریعت میں کسی مکلف کا روزہ رکھنے کی نیت سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے عمداً قے کرنے اور جماع سے رکے رہنے کو صیام کہتے ہیں اور یہاں صیام کے معنی رمضان کے روزے ہیں۔ کما۔ میں کاف تشبیہ کا ہے اور ما موصولہ۔ اگلہ جملہ اس کا صلہ ہے۔ یہاں تشبیہ روزوں کے فرض ہونے میں ہے۔ روزوں کے دنوں کی تعداد یا ان کی کیفیت میں نہیں ہے۔ لعلکم۔ لعل حرف مشبہ بفعل ہے اور کم ضمیر جمع مذکر حاضر، اس کا اسم ۔ شاید تم۔ تتقون مضارع جمع مذکر حاضر اتقاء (افتعال) مصدر تم بچتے رہو۔ تم ڈرتے رہو (ارتکاب گناہ سے) تم پرہیزگار ہوجاؤ۔
Top