Al-Quran-al-Kareem - Yaseen : 49
مَا یَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَ هُمْ یَخِصِّمُوْنَ
مَا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار نہیں کر رہے ہیں اِلَّا : مگر صَيْحَةً : چنگھاڑ وَّاحِدَةً : ایک تَاْخُذُهُمْ : وہ انہیں آپکڑے گی وَهُمْ : اور وہ يَخِصِّمُوْنَ : باہم جھگڑ رہے ہوں گے
وہ انتظار نہیں کر رہے مگر ایک ہی چیخ کا، جو انھیں پکڑلے گی جب کہ وہ جھگڑ رہے ہوں گے۔
مَا يَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً : ان کے جواب میں یہ نہیں کہا گیا کہ قیامت فلاں وقت آئے گی، بلکہ ان کے سامنے قیامت کے چند ہولناک مناظر کا نقشہ پیش کردیا گیا ہے۔ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً : ایک ہی چیخ سے مراد اسرافیل ؑ کا پہلی دفعہ صور میں پھونکنا ہے، جس سے تمام مخلوق مرجائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ لوگ جس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں اس کے لیے ہمیں کسی لمبی چوڑی تیاری کی ضرورت نہیں، صرف ایک مرتبہ صور میں پھونک دیا جائے گا، جس کی چیخ کی آواز سے سب لوگ بےہوش ہو کر مرجائیں گے۔ تَاْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُوْنَ : ”يَخِصِّمُوْنَ“ اصل میں ”یَخْتَصِمُوْنَ“ (افتعال) ہے۔ تاء کو صاد کے ساتھ بدل کر صاد میں ادغام کردیا اور صاد کی موافقت کے لیے خاء کو بھی کسرہ دے دیا۔ ادغام سے ان کے جھگڑنے کی شدت بیان کرنا مقصود ہے۔ یعنی وہ قیامت آہستہ آہستہ نہیں آئے گی، جسے دیکھ کر وہ کچھ سنبھل جائیں، بلکہ سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے اور پورے زور و شور سے ایک دوسرے سے جھگڑا اور بحث کر رہے ہوں گے کہ اچانک ایک چیخ سے قیامت برپا ہوجائے گی۔ ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : (تَقُوْمُ السَّاعَۃُ وَالرَّجُلُ یَحْلُبُ اللِّقْحَۃَ فَمَا یَصِلُ الْإِنَاءُ إِلٰی فِیْہِ حَتّٰی تَقُوْمَ وَ الرَّجُلَانِ یَتَبَایَعَان الثَّوْبَ فَمَا یَتَبَایَعَانِہِ حَتّٰی تَقُوْمَ وَالرَّجُلُ یَلِطُ فِيْ حَوْضِہِ فَمَا یَصْدُرُ حَتّٰی تَقُوْمَ) [ مسلم، الفتن، باب قرب الساعۃ : 2954 ] ”قیامت (اتنی اچانک) قائم ہوگی کہ آدمی اونٹنی کا دودھ دوہ رہا ہوگا، پھر برتن اس کے منہ تک نہیں پہنچے گا یہاں تک کہ وہ قائم ہوجائے گی اور دو آدمی کپڑے کی خریدو فروخت کر رہے ہوں گے، تو ابھی سوداکر نہیں پائیں گے کہ وہ قائم ہوجائے گی اور آدمی اپنے حوض کی لپائی کر رہا ہوگا، ابھی واپس نہیں ہوگا کہ وہ قائم ہوجائے گی۔“
Top