Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن سکو
آیات 183- 188 اسرارو معارف رمضان اور احکام رمضان : تیسرا حکم نیکی اور بر کے باپ میں ” صوم “ کا ہے ، اسے ارشاد فرمانے کا ایک خاص انداز ہے کہ قبل ازیں نوع انسانی کو دعوت عبادت دی۔ مگر اس میں یہ انداز نہیں بلکہ ایک عمومی رنگ ہے کہ اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو۔ مگر یہاں ارشاد ہے ، ’ تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسے تم سے پہلے گزرنے والوں پر فرض کیا گیا تھا ‘۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ پہلے مخاطب نوع انسانی ہے اور دوسرا خطاب خاص مومنین کو ہے اور ان کی روحانی تربیت اور حصول رحمت کے لئے ایک خاص اہتمام ہے۔ دراصل انسان روح اور جسم سے مرکب ہے جس طرح جسم مادہ کی ایک ٹھوس اور کثیف شکل ہے اسی طرح روح انتہائی لطیف شے ہے اور یہ قدرت باری ہے کہ فرشتے اور حاملین عرش سے بھی لطیف تر۔ روح کو ایک کثیف جسم سے پیوست کردیا گیا ہے اور یہ جسم روح کو بخشا ہی اس لئے گیا ہے کہ عبادت الٰہی کرسکے۔ جسم ہو ، اس کی ضروریات ہوں اور پھر ان کی تکمیل کے سامان موجود ہوں لیکن یہ اس میں اپنی پسند پہ احکام الٰہی کو ترجیح دے اور احکام باری کو اختیار کرے۔ اس کی یہ ادنیٰ قربانی اس کے لئے حصول قرب کا سبب بنے ، ویسے تو مجرد روح اللہ کی عبادت میں مصروف رہ سکتی تھی مگر اس کی عبادت فرشتے کی عبادت کی مثل ہوتی جو ہمیشہ اطاعت تو کرتا ہے مگر چونکہ کوئی عارضہ اپنے ساتھ ایسا نہیں رکھتا جو اسے اطاعت سے روک سکے اس لئے وہ اپنے مقام سے آگے نہیں بڑھتا بلکہ جس مقام پر رکھا گیا ہے ہمیشہ اسی پہ رہتا ہے مگر انسان جب عملی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو ایک خاص حیثیت عملی اور علمی رکھتا ہے۔ اشیائے عالم اور ان کے اوصاف سے واقف ہوتا ہے پھر اس کے وجود کو ان کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان سے آرام اور لذت حاصل کرتا ہے۔ اب اگر وہ ان سے استفادہ کرنے کا وہ طریقہ اپناتا ہے جو اللہ نے مقرر فرمایا ہے تو اسے حقیقی انسانیت اور اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے لیکن اگر صرف لذت طلبی اور تکمیل خواہشات میں کھو جاتا ہے تو پھر انسانیت کے مقام رفیع سے گر جاتا ہے۔ اور جانوروں نے بدتر شمار ہوتا ہے اور یہ بات کہ انسان محض خواہشات کی تکمیل ہی نہ کرے بلکہ اپنے ہر کام میں اللہ کی اطاعت کو مقدم رکھے تب نصیب ہوتی ہے جب روح قوی ہو اور بدن کے قویٰ پہ روحانیت غالب ہو۔ یہ تب ہوسکتا ہے کہ روح کا تعلق اللہ سے قائم ہو اور سب سے اعلیٰ صورت انبیاء کے تعلق کی ہوتی ہے جو سب سے مضبوط ہوتا ہے اتنا مضبوط کہ وہ کبھی اللہ کے حکم کے خلاف نہیں کرپاتے اور معصوم ہوتے ہیں باقی مخلوق ان کی وساطت سے اللہ سے رابطہ قائم کرتی ہے جس نے کلمہ پڑھ لیا گویا اس کا تعلق اللہ سے قائم ہوا اور وہ اھنوا کی فہرست میں داخل ہو کر خصوصی خطابات اور عنایات کا سزاوار ہوا۔ اب جہاں بدن کی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک طریقہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ تکمیل ضرورت بھی ہوتی رہے۔ اور اللہ کی اطاعت بھی۔ وہاں کچھ عبادات بھی مقرر فرمائیں ، جو مالی بھی ہیں ، بدنی بھی ہیں اور جانی بھی۔ عبادات ہی روح کی اصل غذاء اور اس کی زندگی کا سامان ہیں تو جن لوگوں کا تعلق اللہ سے قائم ہوا ان کے لئے مزید روحانی قوت اور قرب الٰہی کے حصول کے اسباب مہیا فرمائے جن میں سے ایک بہت بڑا ذریعہ ” صوم “ ہے اسی لئے ارشاد ہے کہ روزہ تم پر فرض کیا گیا ہے۔ یعنی ضروری قرار دیا گیا ہے اور یہ ایسی ضروری عبادت ہے کہ تم سے پہلے امت مسلمہ پر فرض رہی ہے خواہ کیفیت میں یا دنوں میں فرق بھی ہو مگر روزہ ان پر بھی فرض رہا۔ اس لئے تم پر بھی فرض ہوا کہ تم اللہ سے ایک مضبوط تعلق قائم کرسکو جسے ” تقویٰ “ کہا گیا ہے یعنی اس کی غرض اصلی لعلکم تتقون۔ صوم کے لفظی معنی رکنے کے ہیں اور اصطلاح شریعت میں طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رکنے کا نام ہے۔ اگر طلوع فجر کے بعد یا غروب آفتاب سے پہلے کچھ کھا پی لیا خواہ کتنی ہی تھوڑی دیر باقی تھی روزہ نہ رہے گا۔ جہاں تک اس کے فضائل کا تعلق ہے تو وہ بیشمار ہیں بلکہ یہ دین کے عمود اور شعائر میں سے ہے اور باقی سارا سال تو انسان حرام اور ناجائز سے پرہیز رکھتا ہے مگر اس مبارک ماہ میں اللہ کے حکم سے تمام حلال غذا بھی وقت معین تک چھوڑ کر کمال ا اطاعت کا اظہار کرتا ہے اور زمین پر بستے ہوئے ، مادی وجود رکھتے ہوئے فرشتوں سے مشابہت پیدا کرتا ہے جس کو وصول رحمت میں ایک خاص دخل حاصل ہے۔ نتیجتاً اسے وصف تقویٰ نصیب ہوتا ہے یعنی ایک ایسا تعلق اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے کہ جو ہاتھ کو اٹھنے اور قدم کو چلنے سے تھام لے ، اسے حدود اللہ سے تجاوز نہ کرنے دے۔ ایاما معدودات۔ یعنی گنتی کے چند روز ہیں کچھ بہت زیادہ نہیں بلکہ کھانے پینے کے لئے گیارہ ماہ اور روزے کے لئے صرف ایک ماہ ہے پھر اس میں بھی بیمار کو اور مسافر کو اجازت ہے دوران سفر یا مرض روزہ نہ رکھیں مگر ایسا نہ ہو کہ سعادت سے محروم ہوجائیں جب مریض تندرست ہو یا مسافر مقیم ہو تو جس قدرروزے نہ رکھ سکا تھا ان کی گنتی پوری کرے۔ بیمار سے مراد وہ بیمار ہے جسے روز رکھنے سے ناقابل برداشت تکلیف ہو یا مرض کے بڑھ جانے کا قوی امکان ہو اور مسافر سے مراد وہ شخص ہے جو کم از کم گھر سے ایسے سفر پہ نکلے جو تین منزل ہو یعنی پیدل چلنے والا تین روز میں طے کرلے ، جسے فقہاء نے میلوں میں حساب کرکے اڑتالیس میل قرار دیا ہے کہ ارشادات نبوی ﷺ اور تعامل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فقہاء نے یہی اخذ کیا ہے۔ اسی طرح مسافر اگر کسی جگہ رکے تو وہ مقیم قرار نہ دیا جائے گا جب تک ایک جگہ کا قیام پندرہ روز کا نہ ہو۔ اگر پندرہ روز ٹھہرنے کا ارادہ کرے تو مقیم ہوجائے گا لیکن ایک دو روز کے لئے رکا اور کسی مجبوری کی وجہ سے وقت بڑھتا رہا۔ حالانکہ وہ چلنے کو تیار ہی رہا تو خواہ اس سے زیادہ روز بھی گز رجائیں مسافر ہی رہے گا یا پندرہ روز متفرق شہروں میں ٹھہرا تو بھی مسافر رہے گا اور اگر مریض صحت مند ہونے کے بعد یا مسافر مقیم ہونے کے اتنے دنوں کی مہلت پائے تو روزوں کی قضا اس پر واجب ۔ لیکن اگر اس سے پہلے ہی فوت ہوگیا تو اس پر قضا نہ ہوگی نہ فدیہ نیز عدۃ من ایام اخر میں ترتیب کی قید نہیں بلکہ گنتی پوری کرنے کا حکم ہے اگر متفرق بھی رکھے تو جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ روزہ نہ رکھ سکنے کی صورت میں فدیہ : وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ ، یعنی ایسے لوگ جو مریض یا مسافر نہیں ، مگر روزہ رکھنا نہیں چاہتے اور اس کے بدلے صدقہ وغیرہ دینے کو تیار ہیں تو فرمایا ، ان کے لئے فدیہ ہے ، ایک فقیر کا کھانا ، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر دوسری آیات نے اسے منسوخ قرار دیا اور بغیر مریض اور مسافر کے سب کو روزہ رکھنا ضروری قرار دیا کہ ھن شھد منکم الشھر فلیصمہ ، جو بھی رمضان المبارک کو پائے وہ ضرور روزہ رکھے ہاں ، مریض ، مسافر یا بوڑھے جو روزہ رکھنے کی ہمت رکھتے ہیں وہ معذور ہیں۔ ایسے بوڑھے یا ایسے مریض جن کے صحت مند ہونے کی امید نہ ہو ، فدیہ دیں۔ فدیہ کی مقدار نصف صاع گندم یعنی پونے دو سیر ہے جس کی قیمت بازار کے مطابق ایک فقیر کو دے نہ ایک روزہ کا فدیہ دو میں تقسیم کرے اور نہ کئی روزوں کا فدیہ ایک ہی تاریخ میں ایک ہی آدمی کو دے۔ ہاں ! اگر کسی کو اس کی طاقت بھی نہ ہو تو استغفار کرے اور نیت رکھے کہ جب بھی فراخی نصیب ہوگی ضرور ادا کروں گا۔ ان سب مراعات کے ساتھ کہ نیکی بہرحال نیکی ہے اگرچہ فدیہ دینا بھی نیکی ہے مگر وان تصومواخیرلکم ، تمہارے لئے بہت بہتر یہ ہے کہ تم روزہ رکھو ، اگر تمہیں علم ہے ، اگر جانتے ہو تو جو کیفیت روزہ رکھ کر حاصل ہوتی ہے وہ فدیہ دے کر کہاں نصیب۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ روزہ رکھو اور اسے معمولی نہ جانو بلکہ مہینوں میں یہ مہینہ ہی ایک خاص فضیلت رکھتا ہے۔ شھررمضان الذی……………لعلکم تشکرون۔ فضیلت ماہ رمضان : یہی مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا جو اللہ کا ذاتی کلام ہے اور اتنی عظمت کا حامل کہ ساری نوع انسانی کے لئے ہدایت ہے اور روشن دلیلوں سے مزین ، حق اور باطل میں فرق بتانے والا ہے تمام انعامات میں خواہ وہ مادی ہوں یا روحانی اور جن کا شمار انسان سے نہ ممکن اعلیٰ انعام یہ ہے کہ انسان کو مخلوق کو بےبس وبے کس کو خالق بےنیاز رحمت سے پکارے اور اسے اپنے کلام کا شرف بخشے ۔ سبحان اللہ ! یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں نزول کلام ہوا۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ جس قدر کتابیں اور صحائف اللہ کی طرف سے انبیاء پر نازل ہوئے اور خود قرآن مجید اسی ماہ کی مبارک رات کو لوح محفوظ سے سماء دنیا پر نازل ہوا اور پھر مسلسل تیئس برس میں حضور اکرم ﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہوتا رہا۔ یہ مہینہ ہی بہت برکات کا حامل ہے ۔ تم میں سے جو اس کو پالے وہ روزے رکھے۔ یہاں پا لینے سے مراد بحالت صلاحیت ہے یعنی مومن ہو ، عاقل ہو ، بالغ ہو ، اگر کافر نصف رمضان میں مسلمان ہوا یا نابالغ بالغ ہوا تو اس کے بعد روزے فرض ہوں گے گزشتہ کا قضاء نہ ہوگی۔ ہاں ! مجنون اگر مسلمان تھا تو صلاحیت رمضان رکھتا تھا۔ جب ہوش آیا تو سارے قضا کرے گا۔ اسی طرح مریض ، مسافر یا حیض ونفاس والی عورت کہ جب روزہ کی صلاحیت پائیں گے تو سب روزے قضا کریں گے جس قدر بھی پہلے چھوڑ چکے ہوں۔ ” پالینا “ سے مراد خود رمضان کا چاند دیکھ لینا یا معتبر شہادت سے پتہ چل جانا اور یا پھر شعبان کے تیس دن پورے ہوجانا ہے اس کے بعد رمضان شروع ہوجائے گا اگر 29 شعبان کو ابر وغیرہ ہو چاند نظر نہ آئے اور شرعی شہادت بھی میسر نہ ہو تو روزہ نہ رکھا جائے گا۔ حدیث شریف میں اس کی ممانعت ہے کہ یو الشک کا روزہ نہ رکھے۔ چھ ماہ کے دن اور رات کے بارے : یہاں عجیب بات تو ان ممالک کی ہے جہاں دن رات مہینوں پر محیط ہوتے ہیں یعنی چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات۔ تو وہاں عادتاً رمضان المبارک کا پا لینا صادق نہیں آتا۔ نیز جب فقہائے حنفیہ نے ان ہی کے دن رات سے نماز کا حکم دیا ہے کہ چھ ماہ کے دن میں پانچ نمازیں اپنے دن کے اعتبار سے ادا کرے گا یا مثلاً مغرب کے فوراً بعد صبح صادق طلوع ہوگئی تو عشاء فرض ہی نہ ہوگی۔ حضرت تھانوی (رح) نے اسی رائے کو اختیار فرمایا ہے اور بعض محققین نے اس کو اس بات پر قیاس کیا ہے کہ جب دجال ظاہر ہوگا تو دن سات سال کے برابر ہوجائے گا پھر دو سال اس سے کم۔ تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ نمازوں کا کیا ہوگا ؟ فرمایا ، اندازہ کرکے دن رات کی پانچ نمازیں پڑھی جائیں گی۔ یعنی سال کے دن میں نمازیں سال ہی کی پڑھی جائیں گی لہٰذا ان لوگوں کو بھی اندازہ کرکے نماز ادا کرنی چاہیے۔ یہاں ایک بات ہے کہ ظہور دجال کے وقت عادتاً دن سال کا نہ ہوگا بلکہ اس کی نظر بندی وغیرہ کی وجہ سے محسوس ایسا ہوگا تو اس میں تو سال کی نمازیں فرض ہوئیں۔ یہاں ان ممالک میں عادتاً دن چھ ماہ کا ہوتا ہے۔ یعنی دوسری دنیا میں چھ مہینے گزرے ہیں اور وہاں ایک۔ اس بات کا مقتضیٰ تو یہی ہے کہ دن میں ان پر پانچ نمازیں ہوں اور روزے وہاں فرض ہی نہیں ہوتے کہ رمضان ہی کو نہیں پاسکتے بہرحال احتیاط اس میں ہے کہ جس طرح دنیا کے ساتھ تعلقات کے لئے وہ گھڑیوں وغیرہ سے اوقات کی تعیین کرتے ہیں۔ عبادت کے لئے بھی کرلیں کہ عبادت روح کے لئے بمنزلہ غذا کے ہے اگر مادی غذاء بقائے جسم کے لئے ضروری ہے تو عبادات روح کی زندگی کے لئے لازمی ۔ جب مادی غذاء کے لئے اوقات مقرر کرتے ہیں تو روحانی غذا کے لئے کیوں نہ کریں۔ جو بھی اس مبارک ماہ کو پائے ضرور روزے رکھے۔ ہاں ! مریض اور مسافر کی سہولت بحال رکھی گئی کہ وہ قضا کرسکتے ہیں کہ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہیں گرفتار بلا کرنا نہیں چاہتا اور یہ تو اس لئے ہے کہ تم یہ گنتی پوری کرو۔ عید کی روح : تو اللہ کی عظمت بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ، وجود بخشا ، قوتیں دیں عقل و شعور عطا فرمایا ، نعمتیں دیں اور اگر چاہے تو سب سلب کرنے پر بھی قادر ہے مگر حکم دیا کہ چندے ان چیزوں سے بااختیار رک جائو کہ تمہارے اس فعل کو انعام خاص کا ذریعہ بنادوں۔ سبحان اللہ ! یہ اسی کو سزاوار ہے کہ اس کی ذات عظیم ہے۔ اس کی عظمت بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو ، اس کا احسان اور مانو کہ تم پر کس قدر رحمت اور برکات نازل فرما رہا ہے۔ واذاسالک عبادی………………لعلکم یرشدون۔ قبولیت دعا : روزہ ایک طرف اگر کمال اطاعت ہے تو اس کا دوسرا اجابت دعا بھی ہے صائم اپنے تمام ایسے امور ، جن کو توجہ ہٹانے میں ایک حد تک دخل حاصل ہے چھوڑ دیتا ہے مثلاً کھانا پینا ، جماع وغیرہ۔ تو اس کی توجہ کلی طور پر اللہ کی طرف ہوتی ہے اور اسی حالت کو قرب الٰہی اور اجابت دعاء کے لئے موزوں قرار دیا ہے کہ اللہ تو ہر حال میں قریب ہے انسان اپنی ضروریات میں الجھ کر اپنی توجہ ان کی طرف کرلیتا ہے۔ جب ان کو اللہ کے حکم سے چھوڑا تو اسے ایک خاص طرح کا قرب الٰہی نصیب ہوا۔ ارشاد ہے کہ جب میرے بندے آپ ﷺ سے میرے متعلق پوچھیں تو فرمادیں کہ میں بہت قریب ہوں۔ اس عبادی یعنی میرے بندے فرمانے میں یہی حکمت ہے کہ جب وہ میری اطاعت میں مصروف ہوں اور میری طرف متوجہ ہوں تو انہیں میرا قرب حاصل ہوتا ہے اور میں مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں یہ سب کچھ تب ہی ہوتا ہے جب وہ میری اطاعت پر کمر بستہ ہوں جس کے لئے اولاً میری عظمت کا اظہار ہے میری ذات وصفات پر ایمان لائیں اور اپنی پوری کوشش میرے حکم کی بجا آوری پہ صرف کردیں تاکہ انہیں میرا قرب حاصل ہو اور میں ان کی دعائیں قبول کروں اور یہی وہ راستہ ہے جو مقصد حیات ہے اور جو حقیقتاً صحیح راستہ ہے اور یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ صائم کی دعا قبول ہوتی ہے جیسا کہ حضور اکرم کا ارشاد گرامی ہے ، اللصائم عند فطرہ دعوۃ مستجابہ اوکما قال۔ نیز انی قریب سے اخذ ہوتا ہے کہ دعا آہستہ اور خفیہ کرنی چاہیے۔ احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم……………وانتم تعلمون۔ رمضان المبارک کے احکام ارشاد فرماتے ہوئے درمیان میں اپنے ایک خاص انعام کا ذکر فرمایا کہ جسے روزہ کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے یعنی اجابت دعا اور پھر احکام رمضان ارشاد ہوتے ہیں۔ حیات صحابہ رضوان اللہ علیہم ایک عمومی معیار ہے : یہ سجھ لینا چاہیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ کریم نے معیاری انسان قرار دے کر احکام شرعی کو نافذ فرمایا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات اولیاء اللہ کی کثرت کرامات دیکھ کر لوگ سوچتے ہیں کہ چیزیں اس کثرت سے صحابہ سے کیوں منقول نہیں ؟ حالانکہ نہیں وہ درجہ حاصل تھا جو صرف انہی کا حصہ ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی زندگی عمومی معیار قرار پائی اور جو حکم انہیں مشکل نظر آیا اللہ نے سہل فرمادیا۔ اسی طرح انہوں نے پوری امت پر احسان فرمایا۔ اب یہی حکم لے لیجئے کہ شروع میں رمضان المبارک کا حکم یہ تھا کہ افطار کے بعد جب تک بیدار رہے درست ، جب سو گئے تو روزہ شروع ہوگیا اور کھانے پینے اور جماع وغیرہ سے روک دیا گیا۔ بعض صحابہ ؓ اپنی بیبیوں سے شب باشی کے مرتکب ہوئے مگر انہوں نے ہماری طرف بات کو چھپایا نہیں بلکہ علی الصباح بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھ سے یہ حرکت سرزد ہوئی ، اسی طرح بعض کو یہ مشکل پیش آئی کہ جیسے حضرت قیس بن صرفہ ؓ انصاری دن بھر مزدوری کرکے شام کو گھر آئے تو کھانے کو کچھ نہ تھا۔ بیوی نے عرض کی کہ کہیں سے کوئی انتظام کرکے لاتی ہوں۔ مگر اس کے واپس آنے سے پہلے آنکھ لگ گئی اور روزہ بند۔ اب بیدار ہوئے مگر کچھ کھانے کی اجازت نہیں۔ دوسرے روز دوپہر کو نقاہت کی وجہ سے بےہوش ہوگئے چناچہ اللہ نے رات بھر کھانے پینے اور مباشرت کی اجازت دے دی اور روزہ بند کرنے کا وقت مقرر فرمادیا۔ اب خواہ کوئی سو کر اٹھے یا جس طرح بھی ، بلکہ سو کر اٹھے تو سحری کھانا سنت قرار پایا۔ یہاں یہی ارشاد ہوتا ہے کہ اب رمضان المبارک کی شب بیبیوں سے مباشرت تمہارے لئے حلال کردی گئی کہ تمہارے لئے مشکل تھا اور بعض حضرات سے اس کی خلاف ورزی ہوئی مگر ایک بات سن لو کہ محض شہوت رانی نہ ہو۔ میاں اور بیوی : بلکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے مقرر فرما دیا ہے۔ ماکتب اللہ لکم ، یعنی یہ معاہدہ نکاح ایک مقدس عہد جسے کے ذریعے مرد اور عورت مل کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں۔ نسل انسانی کی بقاء کا مقدس کام کرتے ہیں۔ اب اس لئے ان کی آپس میں محبت ، تعاون اور ایک دوسرے کی خیر خواہی ایک دوسرے پر ضروری ہے تاکہ وہ دنیاکو اچھے انسان دیں معاشرے کو صالح افراد دیں۔ ایک ایسی نسل پیدا کریں اور اس کی اس طرح پرورش کریں اور اللہ کے پسندیدہ بندے ثابت ہوں۔ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس۔ یہ لباس ہی زینت کا سبب بھی ہے اور گرمی سردی سے بچانے کا سبب بھی۔ یہ جسمانی عیوب بھی چھپاتا ہے اور انسان کا پردہ بھی رکھتا ہے اسی طرح تم باہم دگر ایک دوسرے کا بھرم رکھو ، عزت مال اور جان کی حفاظت کرو ، ایک دوسرے کو آرام پہنچانے کی کوشش کرو ، اللہ نے تمہاری مشکل آسان فرمادی۔ نیز جو اب تک تم خطا کرچکے معاف فرما دیا ہے اب تم کھائو پیو بھی اس وقت کہ صبح کی سفیددھاری ، سیاہ دھاری سے علیحدہ نظر آئے اور روزے کو رات تک پورا کرو۔ سنت کا مقام : یہاں جو حکم منسوخ ہوا وہ قرآن سے ثابت نہیں بلکہ حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق اس پر عمل ہوتا تھا لیکن یہاں اسے حکم الٰہی قرار دیا گیا ہے کہ سنت سے ثابت حکم الٰہی میں سے ہے۔ لہٰذا اب سحری وافطاری کا واضح وقت مقرر فرمادیا کہ حتیٰ تبین یعنی جب تک تم پر صبح صادق کی سفید دھاری افق پر سیاہ دھاری سے یقینی طور پر واضح نہ ہوجائے کھانے پینے کی اجازت ہے وہم کی بنیاد پر پہلے روزہ بند کرلینا درست نہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے کہ حضرت بلال ؓ کی اذان تمہیں کھانے پینے سے نہ روکے کہ وہ رات سے اذان کہہ دیتے ہیں۔ ابن کلثوم ؓ کی اذان پر روزہ رکھو کہ وہ صبح صادق پہ اذان دیتے ہیں۔ مگر یہ سب ان لوگوں کے لئے ہے جن کو افق سامنے ہو اور سمجھ سکے ورنہ احتیاط کریں اور کسی سے پوچھ لیں یا اذان سن لیں۔ اگر کسی نے شبہ کی حالت میں یہ جان کر کھایا ابھی وقت ہے مگر بعد میں ثابت ہوا کہ وقت گزر چکا تھا تو گناہ اگرچہ نہ ہوگا مگر قضا لازم اور دوسری طرف رات تک روزہ پورا کرو۔ یعنی غروب آفتاب پر روزہ افطار ہوجائے گا پیشتر اس کے کہ رات چھا جائے الی الیل یعنی رات تک۔ اسے رات میں داخل نہ کرو۔ شیعہ حضرات جنہوں نے ایک متوازی اسلام بنانے کی کوشش کی ہے یہاں بھی تاخیر سے افطار کیا ہے کہ خوب رات چھا جائے تو افطار کرتے ہیں حالانکہ جب مشرق سے تاریکی اٹھے۔ اور سورج غروب ہو تو بیشتر اس کے کہ تاریکی پھیل جائے افطار کرنا چاہیے اگر کسی نے غلطی سے بادل وغیرہ کی وجہ سے ایک آدھ منٹ پہلے افطار کرلیا اور بعد میں ثابت ہوا کہ درست نہ تھا تو قضا لازم۔ مگر عمداً افطار میں پہل یا سحری میں تاخیر ہوئی تو کفارہ لازم ہوگا۔ اس لئے موذن حضرات کو خاص احتیاط لازمی ہے کہ ان کی اذان پر اکثر لوگ افطار کرتے ہیں۔ اب اس کے ساتھ اعتکاف کا حکم بھی واضح ہوا کہ یہ حلت مباشرت اعتکاف پر لاگو نہ ہوگی۔ اعتکاف خاص شرائط کے ساتھ مساجد میں ٹھہرنے کا نام ہے اور آخری عشرہ رمضان میں مسنون۔ مرد حضرات صرف مساجد میں اعتکاف کے لئے ٹھہر سکتے ہیں نیز ایسی مسجد جہاں نماز پنجگانہ باجماعت ہوتی ہو کہ جو مسجد کی تعمیر کا مقصد ہے اور کھانے پینے کے بارے میں تو حکم وہی ہے مگر مباشرت منع۔ فضول بات کرنا یا بغیر عذر مسجد سے باہر جانا درست نہیں۔ نیز اس کے دوسرے احکام اعتکاف کے لئے مفصل مذکور ہیں دیکھ لئے جائیں۔ تلک حدود اللہ فلا تقربوھا۔ (یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان کے قریب ہی مت پھٹکو) اسی لئے روزہ میں مبالغہ نہ کرنا چاہیے یا بیوی سے بوس وکنار درست نہیں مکروہ ہے اور اوقات سحر وافطار میں ایک آدھ منٹ کی احتیاط بہتر ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھائو ، اور نہ حاکموں تک ایسی بات لے جائو کہ اس کے نتیجہ میں تم دوسروں کا مال کھاسکو۔ یہ اگلا حکم ہے جو ایک طرح سے روزے کا ماحصل بھی ہے کہ جب تم نے اللہ کے حکم سے جائز اور پاک مال ، جو تمہارے پاس موجود تھا نہ کھایا اور صبح سے شام تک روزہ رکھا جب افطار کیا وہی کھانا تمہارے لئے ثواب ہوا۔ حصول رزق کے معروف ذرائع اختیار کرنا ضروری ہیں : یہ تمہیں کب زیب دیتا ہے کہ دوسروں کا مال ناجائز طریقے سے حاصل کرکے کھائو ، یہ فعل تو عنداللہ بہت برا ہے۔ دراصل مال کی اچھائی یا برائی کا معیار کسب مال کے ذرائع یا طریقوں پر ہے جن پر ساری دنیا کی قوموں کا اتفاق ہے کہ یہ درست نہیں۔ جیسے چوری ، ڈاکہ یا فریب دہی وغیرہ سے اور کچھ ایسے بعض کے نزدیک جائز اور بعض کے نزدیک ناجائز ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر قوم کے لوگ جو کچھ سوچتے ہیں اس میں ان کے قومی مزاج اور قومی مفاد کو دخل حاصل ہوتا ہے۔ اسی لئے تو باوجود بین الاقوامی کانفرنسوں کے کوئی ایسا ضابطہ نہیں بنایا جاسکا جو ساری دنیا کے لئے قابل قبول ہو ، نتیجتاً جنگ وجدل ہوتی ہے اور ہورہی ہے۔ اسلام جو اللہ کا قانون ہے۔ ساری انسانیت کے لئے ہے اور خالق کائنات کی طرف سے ہے جس نے نہ صرف مخلوق پیدا کی ہے بلکہ خود ان کی ضروریات بھی تقسیم کی ہیں ، ان کی تکمیل کے اسباب مہیا فرمائے ہیں اور ان اسباب سے استفادہ کا طریقہ ارشاد فرمایا ہے اور یہی طریقہ امن عامہ اور سب کے حقوق کا محافظ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ ایک معقول اور فطری ضرورتوں کے مطابق جامع ضابطہ ہے مثلاً اشتراک کی اشیاء کو وقف عام رکھا ہے جس میں تمام انسان مساوی حقوق رکھتے ہیں جیسے ہوا ، پانی ، خودروگھاس ، غیر مملوک جنگلات وغیرہ۔ جن چیزوں کے اشتراک سے انسانی معاشرت میں خلل کا اندیشہ ہے ان میں انفرادی ملکیت کا قانون جاری فرمایا ہے پھر انتقال ملکیت کا ضابطہ علیحدہ اور پوری طرح یہ لحاظ رکھا گیا ہے کہ جو شخص بھی اپنی محنت ان چیزوں کے حصول پر خرچ کرے وہ ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے اور نہ ہی دوسروں کے حقوق غصب کرکے انہیں نقصان پہنچا سکے۔ اسی لئے ان جملہ امور میں فریقین کی رضامندی ضروری قرار دی گئی ہے خواہ انتقال ملکیت یا بعد الموت انتقال وراثت ، مزدوری ہو یا بیع و شرا۔ اور جن چیزوں کو منع فرمایا ہے جو طریقے باطل ٹھہرے ہیں ان میں کہیں دھوکہ فریب ہے تو کہیں کسی کا حق غصب ہوتا ہے جیسے کسی نامعلوم چیز یا نامعلوم عمل کا معاوضہ اور کہیں حقوق عامہ پہ زد ہے ، جیسے جوا ، سود وغیرہ کہ ایسے امور باہمی رضامندی سے بھی جائز نہیں ہوسکتے پھر اکلوا اموالکم ، فرمایا کہ کسی کے مال میں ناجائز تصرف دراصل اپنے ہی مال کو ضائع کرنا ہے کہ جب یہ طریقہ چل نکلے گا تو اس کے اپنے مال کا انجام بھی ایسا ہی ہوگا مثلاً کسی نے دودھ میں پانی ملایا اور زائد پیسے حاصل کرلئے تو جب وہ گھی ، آٹا لینے جائے گا تو وہ ملاوٹ کرکے دگنے پیسے اس سے نکال لیں گے اب وہ مصالحہ لینے گیا اس نے اس سے یہی سلوک کیا۔ تو گویا سب لوگ ایک دوسرے سے زیادتی کے مرتکب ہو کر زمین پر فساد برپا کرنے کا سبب بن جائیں گے۔ کوئی بھی کسی پر ، کسی کے پر ناجائز طریقے سے نگاہ نہ رکھے اور نہ ہی جان بوجھ کر جھوٹے مقدمے بنائے کہ اس طرح دوسروں کا حق غصب کرے۔ نیز اسلام نے جہاں کسب مال کا طریقہ مقرر فرمایا ہے وہ مال خرچ کرنے کا سلیقہ بھی سکھادیا ہے کہ اس کے ضائع کرنے سے دوسروں کی اولاد اور ورثاء کے حقوق ضائع ہوتے ہیں اور مومن کی نگاہ صرف مال کے حصول پر نہ ہو بلکہ بنیادی بات اطاعت الٰہی ہے جو تعمیر آخرت اور ابدی زندگی کے لئے ضروری ہے۔ سو دنیا میں مال کا خرچ کرنا نہ صرف دنیا میں مفید ہو بلکہ دونوں عالم کی تعمیر کرنے والا ہو۔ نیز غذاء کو مزاج انسانی میں بڑا دخل ہے اگر حلال غذا ہوگی تو مزاج صالح ہوگا اور اعمال اچھے صادر ہوں گے۔ اگر حرام کھائے گا تو کبھی اچھائی نہ کرسکے گا اور نہ درست سوچ رکھے گا۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ حرام کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی اور اس کی عبادت رائیگاں جاتی ہے اللہ تمام مسلمانوں کو اس بلا سے محفوظ رکھے ! آمین۔
Top