Asrar-ut-Tanzil - Al-Ankaboot : 14
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا١ؕ فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور بیشک ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح کو اِلٰى قَوْمِهٖ : اس کی قوم کی طرف فَلَبِثَ : تو وہ رہے فِيْهِمْ : ان میں اَلْفَ سَنَةٍ : ہزار سال اِلَّا : مگر (کم) خَمْسِيْنَ : پچاس عَامًا : سال فَاَخَذَهُمُ : پھر انہیں آپکڑا الطُّوْفَانُ : طوفان وَهُمْ : اور وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم تھے
اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف (پیغمبر بنا کر) بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ایک ہزار برس رہے (ان کو تبلیغ کرتے رہے مگر وہ نہ مانے) پس ان کو طوفان نے آپکڑا اور وہ بڑے ظالم تھے
آیات 14 تا 22 اسرارو معارف یہ کوئی نئی بات نہیں کہ آپ ﷺ کی دعوت پر کفار مسلمانوں کا راستہ روکنے کے حربے استعمال کرنے لگے یا انہیں ایذا دینے کے درپے ہیں یا آج کے زمانے میں ایسا ہورہا ہے بلکہ یہ سب کچھ زمانہ قدیم سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے لیکن کفار کی سب تدبیروں کے باوجود فتح ہمیشہ دین دار لوگوں کو نصیب ہوئی جیسے نوح (علیہ السلام) کا واقعہ کہ ہم نے انہیں ان کی قوم میں مبعوث فرمایا کہ ان کی قوم ان کے حسب نسب اور عالی کردار سے خوب واقف تھی۔ انہوں نے نو سو پچاس برس مسلسل تبلیغ کی اور نیکی کی دعوت دی اور اتنا طویل عرصی کفار کے ایذا اور ان کے طعنے برداشت کیے مگر انہوں نے مان کر جواب نہ دیا تو اللہ کا عذاب آیا اور تمام کفار کو طوفان نے گھیر کر غرق کردیا کہ وہ بہت بڑے ظالم تھے اپنی ساری طاقت دولت اور تدبیریں لے کر غرق ہوگئے ان کے کام نہ آسکیں اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان سے بھی اور طوفان سے بھی محفوظ کردیا بلکہ جتنے لوگ بھی ایمان لاکر ان کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے سب سلامت رہے اور سب عالم کے لیے ایک معجزہ قرار پائے۔ ایسے ہی ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھ لیجیے کہ جب وہ مبعوث ہوئے اور قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور کاروبار حیات میں اللہ کی اطاعت اختیار کرو تمہاری دنیا کی اور آخرت کی بہتری اسی میں ہے خوب سمجھ لو۔ بھلا تم اللہ کی عبادت سے محروم ہو کر بت خانے سجائے بیٹھے ہو اور بتوں کے بارے جھوٹے قصے اور باطل عقیدے تراش رکھے ہیں۔ ان بتوں کو دیکھو جن کی تم عبادت کرتے ہو یہ تو تمہیں ایک دانہ گندم بھی نہیں دے سکتے۔ تمہیں دنیا ہی کی بھلائی مطلوب ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے پاس نصیب ہوسکتی ہے۔ تم اس کی عبادت کرو اور اس کا شکر ادا کرنے کا راستہ اپناؤ تاکہ دنیا میں بھی فائدہ حاصل کرو اور پھر آخرت میں تو اسی کی بارگاہ میں جانا ہی ہے۔ دنیا کا فائدہ بھی دین میں ہے کفر میں ہرگز نہیں : یہاں ثابت ہے کہ اگر کسی کو دنیا کا فائدہ ہی مطلوب ہو تو وہ بھی دین پر عمل کر کے ہی حاصل کرسکتا ہے اس لیے ہر کام کو صحیح طریقے سے کر کے فائدہ حاصل ہوسکتا ہے اور صحیح طریقہ دین ہے کاش عقل کے اندھوں کو یہ نظر آجاتا کہ کفار کا معاشرہ جن امور میں کامیابی حاصل کرتا عملا وہ اسلامی قواعد کے مطابق کرتا ہے آخرت کا اجر تو عقیدہ نہ ہونے کے باعث نہ پاسکیں گے مگر دنیا میں فائدہ حاصل کرلیتے ہیں۔ ان سب دلائل کے باوجود اگر یہ آپ کی دعوت قبول نہیں کرتے تو آپ رنجیدہ نہ ہوں پہلے انبیاء کے ساتھ پہلی امتوں نے بھی ایسا سلوک کیا ہے۔ اور اللہ کے رسول کا کام کسی سے منوانا نہیں بلکہ اللہ کا پیغام پہنچانا ہے۔ یہ انکار تو کرتے ہیں مگر کی ایہ نہیں جانتے کہ اللہ نے کس طرح مخلوق کو پیدا فرمایا اور یہ تخلیق باری کا عمل ہر آن کس تسلسل سے جاری ہے بھلا اسے کیا مشکل وہی دوبارہ سب کچھ پھر پیدا کردے گا۔ ان سے کہیے ذرا زمین پر پھر کر یعنی تحقیق کر کے دیکھو اس کی صنعت کے عجائبات اور چیزوں کی تخلیق کا عمل دیکھ کر اس کی قدرت کاملہ کی عظمت کا اعتراف کرو کہ تم جان سکو وہ قادر ہے آخرت میں پھر پیدا کردے گا وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ سائنس کی تحقیق اور کتاب اللہ : یہ عجیب بات یہاں ثابت ہے کہ قرآن نے ڈیڑھ ہزار برس پہلے کفار کو دعوت دی تھی کہ تخلیق کے عمل کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کرو اور جب اس کی سمجھ آئے تو اندازہ کرو کہ یہ سب باریک ترین نظام بنانے والا کتنا عظیم اور لاشریک خالق ہے مگر یہ بدبخت صدیوں بعد اس تحقیق کی ابتدا کرسکے اور اس سے بھی ابھی تک ماسوائے چند خوش نصیبوں کے کافر معاشرہ عظمت باری کا قائل نہ ہوسکا بلکہ بکار اور کمزور ایمان والے مسلمان مرعوب ہو کر اللہ کی عظمت کی بجائے کفار کی عظمت سے مرعوب ہونے لگے۔ حلان کہ یہ تحقیقات کر کے کفار کو دکھانا مسلمان کا کام تھا ورنہ تو یہ کام کافر بھی کرسکتا ہے اللہ قادو ہے جسے چاہے عذاب دے یعنی یہ حق اللہ کا ہے کہ کسی کام کو جرم قرار دے اور اس کے کرنے والے کو عذاب دے یا جس پر چاہے رحم فرمائے کہ سب کو اسی کی باراہ میں لوٹ کر جانا ہے۔ اے کفار تم سارا زورلگا لو تم اللہ کے نظام اور اس کی قدرت کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتے ہ زمین پر اور نہ آسمانوں میں نہ ایٹم کی دریافت سے اور نہ فضا میں راکٹ چلا کر بلکہ اس کی گرفت سے بچانے والا تمہیں کوئی نہ مل سکے گا نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں جسکا اظہار بڑی بڑی کافرطاقتوں کو زلزلوں بفانی اور بارش کے طوفانوں میں مبتلا ہو کر ہوتا رہتا ہے۔
Top