Baseerat-e-Quran - Al-Ankaboot : 14
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا١ؕ فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور بیشک ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح کو اِلٰى قَوْمِهٖ : اس کی قوم کی طرف فَلَبِثَ : تو وہ رہے فِيْهِمْ : ان میں اَلْفَ سَنَةٍ : ہزار سال اِلَّا : مگر (کم) خَمْسِيْنَ : پچاس عَامًا : سال فَاَخَذَهُمُ : پھر انہیں آپکڑا الطُّوْفَانُ : طوفان وَهُمْ : اور وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم تھے
اور البتہ تحقیق ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ پھر وہ ان میں پچاس کم ایک ہزار ( ساڑھے نو سو) سال تک رہے۔ پھر انہیں (قوم نوح کو) ایک طوفان نے آپکڑا اور وہ ظالم (گناہ گار) تھے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 14 تا 18 : لبث (وہ ٹھہرارہا) الف سنۃ ( ایک ہزار سال) خمسین (پچاس) ‘ عام (سال) السفینۃ ( جہاز۔ کشتی) اوثان (بت) ‘ افک (جھوٹ۔ باطل) ‘ ابتغوا (تلاش کرو) امم ( امتیں۔ قومیں) ‘ البلغ (پہنچادینا) ۔ تشریح : آیت نمبر 14 تا 18 : اس سے پہلی آیات میں فرمایا گیا تھا کہ اللہ نے اہل ایمان کو ہر طرح کے حالات سے آزمایا جس میں انہوں نے صبر و تحمل ‘ عزم و ہمت اور استقلال کے ساتھ مشکل حالات کا مقابلہ کیا۔ اللہ نے ان کو نہ صرف دنیا میں امن و سکون اور سلامتی عطا فرمائی بلکہ آخرت میں ھبی ان کو نجات کا وعدہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ ان کا یہ ظلم و ستم اسی طرح جاری رہے گا اور وہ قدرت کی گرفت میں نہ آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کرام ؐ اور انکی امتوں کو ثبوت کے طور پر پیش کرکے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ان کی نافرمانیوں کی سزادیتا ہے تو پھر ان ظالموں کو بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات زندگی کو بیان کیا کہ انہوں نے اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے کس طرح اپنی امتوں کو سمجھانے کے لئے ایک لمبی عمر تک دن رات جدوجہد کی۔ وہ لوگ جنہوں نے ان انبیاء کرام (علیہ السلام) کے دامن سے وابستگی اختیار کی وہی دنیا اور آخرت میں کامیاب و بامراد رہے اور جنہوں نے ان کی نافرمانی کی ان کی دنیا بھی برباد ہوئی اور وہ آخرت میں بھی نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جنہوں نے ساڑھے نو سو سال تک نافرمانوں کو ہر طرح سمجھایا۔ دن رات جدوجہد کی اور ہر طرح کی تکلیفیں برداشت کیں مگر ان کی قوم نے ان کا مذاق اڑایا۔ طرح طرح سے آیتیں اور تکلیفیں پہنچائیں اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر جمے رہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ قوم ان کی اطاعت و فرماں برداری کرے ‘ غرور وتکبر اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر اللہ کے بندے بن کر رہیں ‘ غریبوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا چھوڑدیں ‘ اور جو بھی طاقت ور ہے وہ اپنے کمزوروں پر ظلم و ستم چھوڑ کر ان کو ستانے سے باز رہے۔ اور وہ بت جن کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنا کر ان کو اپنا معبود بنارکھا ہے ان کی عبادت و بندگی نہ کریں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی صدیوں کی اس تبلیغ سے بہت تھوڑے سے لوگوں نے ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کی اور باقی ساری قوم اپنی جہالت و نادانی پر قائم رہی۔ ایک دن بار گاہ الٰہی میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے عرض کردیا۔ الہی میں نے ان کو ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ میری بات سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں اب آپ فیصلہ فرمادیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پوری قوم کو اور اس کے تمام مال و اسباب کو پانی میں اس طرح غرق کردیا کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھنے والے بھی اس عذاب سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرمائی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی وہ بڑی کشتی جس میں اہل ایمان سوار تھے وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی کہ وہ اللہ نے کس طرح اس زبردست طوفان میں اس کشتی اور اس میں بیٹھنے والوں کو نجات عطا فرمائی اور خود حضرت نوح (علیہ السلام) کی زندگی بھی ایک نشانی ہے کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال تک مسلسل اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے جدوجہد کی مگر وہ اس سے اکتائے نہیں بلکہ پوری قوم کو سمجھاتے رہے۔ سوائے کچھ سعادت مندوں کے پوری قوم نے آپ کے لائے ہوئے پیغام کو اہمیت نہیں دی جس سے آخر کار وپری قوم کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا اور وہ پانی سے طوفان میں غرق کردی گئی۔ اسی طرح حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے ایک طویل عمر تک اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھائیں۔ انہوں نے بھی اپنی قوم کو یہی سمجھایا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کریں کیونکہ وہی سب کا مشکل کشا ہے۔ ہر ایک کی بگڑی بنانے والا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بت جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو یہ اللہ پر ایک بہت بڑا جھوٹ ہے یہ بت ذرہ برابر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں۔ یہ اپنے نفع نقصان کے بھی مالک نہیں ہیں یہ تمہارے رازق نہیں ہیں بلکہ ہر طرح کا رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے وہی سب کا رازق ہے اور سب کی مشکلات کو دور کرنے والا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے جو بھی تمہیں رزق دیا ہے اس پر اس اللہ کا شکر ادا کرو اور اس کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کرو۔ فرمیا تم سب کو ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ان تمام باتوں پر بہت کم لوگوں نے توجہ کی لیکن جن لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا ان کو ہی نجات عطا کی گئی۔ ان آیات میں فرمایا گیا ہے کہ اسی طرح سارے نبیوں کو جھٹلایا گیا ہے اور ان کی نافرمانی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ سے فرمایا ہے کہ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو نبی اور رسول بنا کر بھیج دیا ہے اب اگر ان کو بھی گذشتہ انبیاء کی طرح جھٹلایا گیا تو پھر قیامت تک کوئی دوسرا ان کی اصلاح کے لئے نہیں آئے گا۔ نجات ان ہی لوگوں کے لئے ہے جو نبی کریم ﷺ کے دامن اطاعت و محبت سے وابستگی اختیار کریں گے۔ نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے پیغام کو کھول کر واضح انداز سے پہنچادیتا ہے نجات صرف ان ہی لوگوں کی ہوتی ہے جو ان کی مکمل اطاعت و محبت سے کام لیتے ہیں۔
Top