Tafseer-e-Baghwi - Al-Kahf : 98
قَالَ هٰذَا رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّیْ١ۚ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ رَبِّیْ جَعَلَهٗ دَكَّآءَ١ۚ وَ كَانَ وَعْدُ رَبِّیْ حَقًّاؕ
قَالَ : اس نے کہا ھٰذَا : یہ رَحْمَةٌ : رحمت مِّنْ رَّبِّيْ : میرے رب سے فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آئے گا وَعْدُ : وعدہ رَبِّيْ : میرا رب جَعَلَهٗ : اس کو کردیگا دَكَّآءَ : ہموار وَكَانَ : اور ہے وَعْدُ : وعدہ رَبِّيْ : میرا رب حَقًّا : سچا
بولا کہ یہ میرے پروردگار کی مہربانی ہے جب میرے پروردگار کا وعدہ آپہنچے گا تو اس کو (ڈھا کر) ہموار کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے
(98)” قال “ ذی القرنین نے کہا ” ھذا “ یہ دیوار ” رحمۃ “ نعمت ہے۔ ” من ربی فاذا وعد ربی “ اس سے مراد قیامت کا دن ہے اور بعض نے کہا کہ یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت مراد ہے۔ ” جعلہ دکائ “ اہل کوفہ نے ” دکائ “ مد کے ساتھ پڑھا ہے اور ہمرہ کے ساتھ۔ یعنی زمین پر پھیلا کر اس کو ہموار کردے گا اور دوسرے قراء نے اس کو مد کے بغیر پڑھا ہے۔ اس کو زمین کے ساتھ ہموار کردے گا۔ ” وکان وعد ربی حقا “ یاجوج ماجوج کا خروج قرب قیامت میں ہوگا حضرت ابوہریرہ ؓ کا مرفوع بیان نقل کیا ہے کہ یاجوج و ماجوج روز دیوار کو کاٹتے ہیں اور اتنا کھودتے ہیں کہ سورج کی کرنیں ( دوسری طرف کی) چمکنے کے قریب ہوجاتی ہیں تو ان کا سردار کہتا ہے اب لوٹ چلو، باقی کل کو کھود لیں گے لوگ چلے جاتے ہیں، رات میں اللہ دیوار کو پھر حسب سابق کردیتا ہے۔ دوسرے دن آ کر وہ پھر کھودتے ہیں اور اتنا کھودتے ہیں کہ دوسری طرف کی روشنی نظر آنے کے قریب ہوجاتی ہے تو سردار روک دیتا ہے اور کہتا اب واپس چلو کل کو اس کی تکمیل کرلیں گے، سب واپس چلے جاتے ہیں۔ اللہ رات میں پھر دیوار کو پہلے کی طرح کردیتا ہے، روزانہ ایسا ہی کرتے ہیں، جب مقررہ وقت آجائے گا اور حسب معمول دیوار کو کھود کر اتنا کردیں گے کہ ایک ورق رہ جائے گا، قریب ہوگا کہ پار کی روشنی نظر آجائے اور سردار ان سے کہے گا اب واپس چلو کل کو ان شاء اللہ ہم اس کو کھودیں گے۔ ان شاء اللہ کہنے کا یہ اثر ہوگا کہ واقعی دوسرے دن آکر دیکھیں گے کہ دیوار کو جس طرح ( ورق کے برابر) چھوڑ کر گئے تھے ویسی ہی ہے۔ پس بقیہ دیوار کو بھی کھوددیں گے اور پارک نکل آئیں گے اور جہاں جہاں پانی ہوگا ان مقامات کی تلاش کرکے پہنچیں گے ( سارے تالابوں، چشموں، کنوئوں، جھیلوں اور دریائوں کا پانی پی جائیں گے) لوگ ان کے خوف سے قلعہ بند ہوکر بیٹھ رہیں گے، وہ آسمان کی طرف تیر چلائیں گے اور اللہ ان کے تیروں کو ایسا سرخ کرکے لوٹا دے گا جیسے وہ خون آلود ہوں) اور کسی شکار کے لگ کر واپس لوٹے ہوں) وہ خوش ہوکر کہیں گے ہم زمین والوں پر بھی غالب آگئے اور آسمان والوں پر بھی۔ اس کے بعد اللہ ان کی گدیوں ( گردونوں کے پچھلے حصہ) میں گلٹیاں ( یعنی وہ کیڑے جو اونٹ بکری وغیرہ کی ناک میں پیدا ہوکر باعث ہلاکت ہوتے ہیں اور انسان کی گردن بغل وغیرہ میں داخل ہوکر گلٹیوں اور سرطانی زخموں کی شکل میں برآمد ہوتے ہیں) برآمد کردے گا، سب مرجائیں گے دجال کے نکلنے کے بارے میں چند احادیث امام مسلم نے حضرت نواس بن سمعان ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بار صبح کے وقت دجال کا ذکر کیا ( دوران ذکر میں) حضور ﷺ کی آواز پست بھی ہوجاتی تھی اور بلند بھی جاتی تھی یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ دجال ( یہیں) نخلستان میں موجود ہے۔ پھر ( دوسرے وقت) جب ہم حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ( خوف کا اثر ہمارے اندر پہچان لیا اور) فرمایا تم لوگوں کا کیا حال ہے ؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے دجال کا تذکرہ کیا تھا اور حضور ﷺ کی آواز میں پستی بھی تھی اور بلندی بھی، اس سے ہمارا خیال ہوا کہ کہیں ( اس جگہ) نخلستان میں ہی ہے۔ فرمایا دجال کے علاوہ ایک اور چیز ہے جو تمہارے لیے زیادہ خوفناک ہے، دجال تو میری زندگی میں اگر برآمد ہوگیا تو تمہاری طرف سے میں اس کا مقابلہ کرلوں گا اور میں نہ ہوا تو اس وقت ہر شخص خود اپنی طرف سے اس کا مقابلہ کرے گا اور اللہ میری طرف سے ہر مسلمان کا محافظ ہے۔ دجال ایسا نوجوان ہوگا، اس کی ایک آنکھ پٹ ہوگی، میرے نزدیک وہ عبدالغریٰ بن قطن سے ملتا جلتا ہوگا جو شخص اس کو پائے تو سورة کہف کی ابتدائی آیات اس کے سامنے پڑھے، وہ عراق اور شام کے درمیان برآمد ہوگا اور دائیں بائیں لوٹ اور تباہی مچائے گا، اللہ کے بندو ! تم ( ایمان پر) ثابت قدم رہنا۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کا قیام زمین پر کتنی مدت رہے گا، فرمایا چالیس دن۔ جن میں ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا۔ ایک دن ایک مہینے کے برابر، ایک دن ایک ہفتہ کے برابر اور باقی ایام تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے۔ ہم نے عرض کیا جو دن سال کے برابر ہوگا کیا اسمیں ہمارے لیے صرف ایک دن کی نمازیں کافی ہوں گی ؟ فرمایا نہیں مقدار کا اندازہ کرلینا۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کی سرعت رفتار کی کیا حالت ہوگی ؟ فرمایا جیسے بادل جس کے پیچھے آندھی ہو۔ کچھ لوگوں کی طرف سے اس کا گزر ہوگا، ان کو وہ اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دے گا وہ مان لیں گے۔ دجال آسمان کو حکم دے گا ان پر بارش ہوجائے، فوراً بارش ہوجائے گی، زمین کو حکم دے گا سبزہ پیدا کر، فوراً زمین سرسبز ہوجائے گی، ان کے اونٹ جنگل سے چر کر واپس لوٹیں گے تو ان کے کوہان خوب اونچے، تھن خوب لمبے دودھ سے بھرے ہوئے اور کوکھیں ( چارہ کھانے کی وجہ سے ) پھولی ہوئی ہوں گی۔ اس کے بعددجال کا گزر ایک اور قوم کی طرف ہوگا اور وہ ان کو دعوت دے گا وہ لوگ دجال کی دعوت کو ردّ کردیں گے، جب دجال ان کے پاس سے لوٹے گا تو فوراً وہ سب قحط زدہ ہوجائیں گے، کوئی چیز ان کے مال میں سے باقی نہیں رہے گی، دجال ویرانے کی طرف سے گزرے گا اور حکم دے گا اپنے دفینے برآمد کردے، فوراً ویرانے سے دفینے نکل کر شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے ہوجائیں گے۔ پھر دجال ایک شخص کو طلب کرے گا جو جوانی سے بھرپور ہوگا اور تلوار سے اس کے دو ٹکڑے کرکے علیحدہ علیحدہ دو طرف کو رسائی تیر کے فاصلے پر رکھ دے گا اور ( اس شخص کو) آواز دے گا ( دونوں ٹکڑے جڑ کر) وہ شخص زندہ ہوجائے گا اور ہنستا کھلکھلاتا چلا آئے گا۔ دجال اسی حال میں ہوگا کہ اللہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیج دے گا۔ آپ (علیہ السلام) دمشق کے مشرقی جانب سفید میناروں پاس ( یا منارے پر) دو فرشتوں کے بازوئوں پر اپنے ہاتھ رکھے اتریں گے، سر جھکائیں گے تب اور سر اٹھائیں گے تب پسینے کے قطرے چاندی کے موتیوں کی طرح آپ کے چہرے سے لڑھک کر گریں گے، آپ کے سانس کی خوشبو وہاں تک پہنچے گی جہاں آپ کی نگاہ پہنچے گی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دجال کی تلاش کریں گے اور لد ( ایک بستی کا نام جو فلسطین میں ہے) کے پاس پہنچ کر دجال کو قتل کریں گے۔ اسکے بعد آپ ان لوگوں کے پاس پہنچیں گے جن کو اللہ نے دجال کے شر سے محفوظ رکھا ہوگا، ان کے چہروں سے غبار صاف کریں گے اور جنت میں ان کے درجات جو اللہ نے مقرر فرمائے ہیں اس کو بشارت دیں گے۔ اسی دوران میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس وحی آئے گی کہ میں ( ( سدذوالقرنین سے) اپنے ان بندوں کو نکال کرلے آیا ہوں جن سے لڑنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے ( یعنی سد ٹوٹ گیا اور یاجوج و ماجوج اندر آگئے) آپ میرے بندوں کو کوہ طور پر لے جا کر حصار بند ہوجائیں۔ حضر ت عیسیٰ (علیہ السلام) حکم کی تعمیل کریں گے۔ یاجوج و ماجوج آجائیں گے، ہر ٹیلہ کی آڑ سے نکل کر پھیل پڑیں گے، ان کا اگلا گروہ بحیرۂ طبریہ ( بحیرۂ مردار) پر پہنچ کر تمام پانی پی جائے گا، پچھلا گروہ جب بحیرئہ طبریہ پر پہنچے گا تو وہ کہے گا یہاں کبھی پانی ضرور تھا (یعنی صرف نمی کو دیکھ کر ان کی یہ رائے ہوگی کہ یہاں کبھی پانی ضرور تھا) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے ساتھیوں کو لیے حصار بند رہیں گے ( اور پہاڑ پر اتنی غذائی قلت ہوجائے گی کہ) جتنی سو دینار کی تم لوگوں کی نظر میں آج قیمت تھی، اس سے زیادہ اس زمانہ میں گائے، بیل کی ایک سری کی ان کی نظر میں قدر ہوگی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھی اللہ سے دعا کرتے رہیں گے۔ آخر اللہ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں جراثیمی پھنساں پیدا کردے گا جن کی وجہ سے وہ سب کے سب (یکدم) ایک آدمی کی طرح مرجائیں گے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ساتھیوں کو لے کر پہاڑ سے نیچے اتریں گے لیکن ان کو زمین پر ایک بالشت جگہ بھی ایسی نہیں ملے گی جس میں ( یاجوج و ماجوج کی لاشوں کی) عفونت اور سڑاند پھیلی ہوئی نہ ہو، آپ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھ دعا کریں گے ایسے پرندے بھیج دے گا جو بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے ہوں گے، یہ پرندے تمام لاشوں کو اٹھا کر وہاں پھینک دیں گے۔ جہاں اللہ کی مرضی ہوگی، پھر بحکم خدا ایک عظیم بارش ہوگی جو ہر گھر میں پہنچے گی، ڈیرہ، خیمہ ہو یا مٹی کا بنا ہوا مکان بارش کو کوئی آڑ روک نہ سکے گی، بارش سے ساری زمین دھل کر صاف چکنی ہوجائے گی، پھر اللہ کے حکم سے زمین میں غلہ اور پھلوں کی خوب پیداوار ہوگی اور حاصل ارضی میں بڑی برکت ہوگی اور یہ حالت ہوجائے گی کہ ایک انار ایک گروہ کے کھانے کے لیے کافی ہوگا اور اس کا چھلکا ایک جماعت کے لیے سائبان کا کام دے گا، دودھ میں بھی بڑی برکت ہوگی، ایک اونٹنی کا دودھ ڈھیروں آدمیوں کے لیے کافی ہوگا اور ایک گائے کا دودھ پورے قبیلہ کو ایک بکری کا دودھ قبیلہ کی ایک شاخ کے لیے کفایت کرے گا۔ اسی حالت میں اللہ ایک خوشگوار خوشبو دار ہوا چلا دے گا اور یہ ہوا ہر شخص کے بغل کے نیچے ( یعنی پہلو پر) لگے جو مومن اور مسلم ہوگا اس کی روح ہوا کا جھونکا لگتے ہی پرواز کرجائے گی اور صرف برے لوگ زمین پر رہ جائیں گے جو گدھوں کی طرح اپنی شہوت پوری کریں گے اور آپس میں لڑتے رہیں گے انہی پر قیامت برپا ہوگی۔ مسلم کی دوسری روایت میں اتنا اور آیا کہ طبریہ جھیل پر پہنچ کر پچھلا گروہ کہے گا یہاں کبھی پانی تھا۔ اس کے بعد یاجوج و ماجوج کوہ خمرہ پر پہنچیں گے، کوہ خمرہ بیت المقدس کے ایک پہاڑ کا نام ہے وہاں پہنچ کر کہیں گے ہم نے زمین والوں کو تو قتل کردیا آئو اب آسمان والوں کو قتل کریں، یہ کہہ کر آسمان کی طرف چھوٹے تیر پھینکیں گے، اللہ ان کے تیروں کو خون سے رنگین کرکے لوٹا دے گا۔ ( تیروں کو خون سے رنگا ہوا دیکھ کر وہ خوش ہوجائیں گے) ۔ ترمذی کی روایت میں ہے کہ پرندے ان کی لاشوں کو اٹھا کر گڑھوں اور غاروں میں پھینک دیں گے اور مسلمان ان کے تیروں، کمانوں اور ترکشوں کو سات برس تک ایندھن کے طورپرجلائیں گے۔ بغوی نے یہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ وہب نے بیان کیا پھر یاجوج و ماجوج سمندر پر پہنچ کر اس کا پانی پی جائیں گے اور سارے سمندری چوپائے اور جانور کھا جائیں گے یہاں تک کہ لکڑیاں اور درخت بھی اور جو آدمی ان کے پنجے میں آجائے گا اس کو بھی کھا جائیں گے لیکن مکہ، مدینہ اور بیت المقدس میں نہیں پہنچ سکیں گے۔ بخاری نے حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یاجوج و ماجوج کے بعد کعبہ کا حج اور عمرہ کیا جائے گا۔ ذوالقرنین کے قصہ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ذوالقرنین ظلمات میں گھس گیا، پھر لوٹ کر آیا تو شہر زور میں اس کی وفات ہوگئی۔ بعض کا قول ہے کہ ذوالقرنین کی عمر کچھ اوپر تیس برس کی ہوئی۔
Top