Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 249
وَ الْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ
وَالْخَامِسَةُ : اور پانچویں اَنَّ : یہ کہ لَعْنَتَ اللّٰهِ : اللہ کی لعنت عَلَيْهِ : اس پر اِنْ كَانَ : اگر ہے وہ مِنَ : سے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹ بولنے والے
پھر جب باہر نکلا طالوت فوجیں لے کر کہا بیشک اللہ تمہاری آزمائش کرتا ہے ایک نہر سے سو جس نے پانی پیا اس نہر کا تو وہ میرا نہیں اور جس نے اس کو نہ چکھا تو وہ بیشک میرا ہے مگر جو کوئی بھرے ایک چلو اپنے ہاتھ سے، پھر پی لیا سب نے اس کا پانی مگر تھوڑوں نے ان میں سے پھر جب پار ہوا طالوت اور ایمان والے ساتھ اس کو تو کہنے لگے طاقت نہیں ہم کو آج طالوت اور اس کے لشکروں سے لڑنے کی کہنے لگے وہ لوگ جن کو خیال تھا کہ ان کو اللہ سے ملنا ہے، بارہا تھوڑی جماعت غالب ہوئی بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کرنیوالوں کے ساتھ ہے
(3) قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِيْكُمْ بِنَهَرٍ اس امتحان کی حکمت اور توجیہ احقر کے ذوق میں یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایسے مواقع پر جوش و خروش میں بھیڑ بھڑکا بہت ہوجایا کرتا ہے لیکن وقت پر جمنے والے کم ہوتے ہیں اور اس وقت ایسوں کا اکھڑ جانا باقی لوگوں کے پاؤں بھی اکھاڑ دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں کا علیحدہ کرنا منظور تھا اس کا یہ امتحان مقرر کیا گیا جو کہ نہایت ہی مناسب ہے کیونکہ قتال میں ضرورت استقلال وجفاکشی کی ہوتی ہے سو شدت پیاس کے وقت بےمنت پانی ملنے پر ضبط کرنا دلیل استقلال کی اور اندھے باؤ لوں کی طرح جا گرنا دلیل بےاستقلالی کی ہے، آگے خرق عادت ہے کہ زیادہ پانی پینے والے غیبی طور پر بھی زیادہ بیکار اور ازکار رفتہ ہوگئے جیسا روح المعانی میں بسند ابن ابی حاتم حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے اور اس قصے میں جو احوال و اقوال مذکور ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں تین قسم کے لوگ تھے، ناقص الایمان جو امتحان میں پورے نہ اترے اور کامل جو امتحان میں پورے اترے مگر اپنی قلت کی فکر ہوئی اور اکمل جن کو یہ بھی فکر نہیں ہوئی۔
Top