Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 174
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْغَمَامَ : بادل وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى : من اور سلوا كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ ۔ طَيِّبَاتِ : سے۔ پاک مَا رَزَقْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیں وَ مَاظَلَمُوْنَا : اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا وَلَٰكِنْ : لیکن کَانُوْا : تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
جو لوگ (خدا کی) کتاب سے ان (آیتوں اور ہدایتوں) کو جو اس نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے اور ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) حاصل کرتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں محض آگ بھرتے ہیں ایسے لوگوں سے خدا قیامت کے دن کلام نہ کرے گا اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے
(تفسیر) 174: ان الذین یکتمون ما انزل اللہ من الکتاب “ یہودیوں کے علماء اور سرداروں کے بارے میں نازل ہوئی وہ اپنے ماتحت (عوام) سے ہدایات لیتے اور کھانے کی اشیاء اور اس امید میں تھے کہ نبی مبعوث ان میں سے ہوں گے ۔ جب حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) تشریف لائے ان کو اپنے کھانے دانے اور زوال ریاست کی فکر لاحق ہوئی ، چناچہ انہوں نے صفت رسول اللہ ﷺ کو (جوان کی کتاب میں تھی) تبدیل کردیا ، پھر اس (تورات) میں تبدیل شدہ صفت کو عوام کے لیے نکالا جب ماتحت (عوام) نے تبدیل شدہ صفت محمدی کو دیکھا کہ یہ تو حضور ﷺ کی صفات واقعیہ کے برعکس ہے ۔ پس انہوں نے حضور ﷺ کی اتباع نہ کی ، پس اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت)” ان الذین یکتمون ما انزل اللہ من الکتاب “ یعنی صفت رسول اللہ ﷺ اور آپ کی نبوت کو ” ویشترون بہ “ اس چھپائی ہوئی صفت کے بدلے ” ثمنا قلیلا “ معمولی بدل یعنی وہ کھانا دانہ جو ان کو ان کے ماتحتوں (عوام) کی طرف سے ان کو پہنچتا تھا ۔ ” اولئک ما یکلون فی بطونھم الا النار “ صرف وہ کچھ کھاتے ہیں جو انکو آگ کی طرف پہنچائے گا اور وہ رشوت اور حرام جب یہ کھانا وغیرہ ان کو آگ کی طرف پہنچانے والا ہے تو گویا کہ انہوں نے آگ کھائی ہے اور بعض نے کہا کہ اس کا معنی ہے کہ وہ کھانا انجام کار ان کے پیٹ میں آگ بن جائے گا ۔ (آیت)” ولا یکلمھم اللہ یوم القیامہ “ ان کے ساتھ رحمت والا کلام اللہ تعالیٰ نہیں فرمائے گا اور نہ وہ کلام جو ان کو خوش لگے ، صرف ان سے سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ والی کلام کرے گا ، کہا گیا ہے کہ اس فرمان الہی کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہوگا جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص فلاں سے بات بھی نہیں کرتا ، یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب وہ اس سے ناراض ہو، (آیت)” ولا یزکیھم “ ان کو گناہوں کی میل کچیل سے پاک نہیں فرمائے گا ۔ (آیت)” ولھم عذاب الیم “ ۔
Top