Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 25
وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ : اور خوشخبری دو جو لوگ آمَنُوْا : ایمان لائے وَ عَمِلُوْاالصَّالِحَاتِ : اور انہوں نے عمل کئے نیک اَنَّ لَهُمْ : کہ ان کے لئے جَنَّاتٍ : باغات تَجْرِیْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے سے الْاَنْهَارُ : نہریں كُلَّمَا : جب بھی رُزِقُوْا : کھانے کو دیا جائے گا مِنْهَا : اس سے مِنْ ۔ ثَمَرَةٍ : سے۔ کوئی پھل رِزْقًا : رزق قَالُوْا : وہ کہیں گے هٰذَا الَّذِیْ : یہ وہ جو کہ رُزِقْنَا : ہمیں کھانے کو دیا گیا مِنْ : سے قَبْلُ : پہلے وَأُتُوْا : حالانکہ انہیں دیا گیا ہے بِهٖ : اس سے مُتَشَابِهًا : ملتا جلتا وَلَهُمْ : اور ان کے لئے فِیْهَا : اس میں اَزْوَاجٌ : بیویاں مُطَهَّرَةٌ : پاکیزہ وَهُمْ : اور وہ فِیْهَا : اس میں خَالِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو خوشخبری سنادو کہ ان کے لئے (نعمت کے) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، جب انہیں ان میں سے کسی قسم کا میوہ کھانے کو دیا جائیگا تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہم کو پہلے دیا گیا تھا اور ان کو ایک دوسرے کے ہمشکل میوے دیئے جائیں گے اور وہاں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ بہشتوں میں ہمیشہ رہیں گے
خاصیت آیت 25۔ (آیت) وَبَشِّرِ الَّذِیْن آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ کُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْہَا مِن ثَمَرَۃٍ رِّزْقاً قَالُواْ ہَـذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُواْ بِہِ مُتَشَابِہاً وَلَہُمْ فِیْہَا أَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (25) اگر کوئی درخت پھل نہ اٹھاتا ہو تو اس کے لیے یہ آیت بہت مفید ہے ، طریقہ یہ ہے کہ جمعرات کے دن روزہ رکھے اور وہ روزہ کا سنی یا کسی اور کچے سبزہ سے افطار کرے اور نماز مغرب سے فارغ ہو کر ان آیات کو کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھے لکھتے وقت کوئی بات نہ کرے، پھر اس کاغذ کو اس درخت کی کسی ٹہنی سے باندھ دے ۔ واپس آتے ہوئے یہ کرے کہ اگر اسی درخت پر کوئی پھل ہو تو اس توڑ کر کھالے اگر اس پر نہ ہو تو اس کے ساتھ والے درخت سے ایک پھل توڑ کر کھالے اور اوپر سے پانی کے تین گھونٹ پی کر واپس آجائے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس درخت کو خوب پھل لگے گا۔ 25۔ (آیت)” وبشرالذین امنوا “ یعنی خبر دیجئے بشارت ہر وہ سچی خبر جس سے چہرے کا چمڑا بدل جاتا ہو، اس کا استعمال خیر وشر دونوں میں ہوتا ہے البتہ خیر میں استعمال زیاد ہے ، (آیت)” وعلوا الصالحات “ یعنی اچھے کام سے مراد وہ مؤمن جو اہل طاعات میں سے ہیں ، حضرت عثمان بن عفان ؓ فرماتے ہیں (آیت)” وعملوا الصالحات “ یعنی وہ جنہوں نے اعمال میں اخلاص اختیار کیا جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت)” فلیعمل عملا صالحا “ یعنی ریاء سے خالی ۔ عمل صالح وہ ہے جس میں چار چیزیں ہوں ، حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں کہ عمل صالح وہ ہے جس میں چار چیزیں ہوں۔ (1) علم ۔ (2) نیت ۔ (3) صبر ۔ (4) اخلاص ۔ تفسیر جنۃ ۔ (آیت)” ان لھم جنات “ جنت کی جمع ہے (1) جنت اس باغ کو کہتے ہیں جس میں پھل دار درخت ہوں اس باغ کو جنت اس لیے کہا جاتا ہے کہ گھنے درختوں کے باعث وہ زمین مستور ہوتی ہے ۔ (2) حضرت فراء فرماتے ہیں جنت وہ باغ ہے جس میں کھجور ہو اور فردوس وہ باغ جس میں انگور ہوں ۔ (آیت)” تجری میں تحتھا “ یعنی اس کے درختوں کے اور رہائش گاہوں کے نیچے سے ” الانھار “ یعنی پانی نہروں میں (یہ معنی اس لیے کیا گیا) کیونکہ نہر تو نہیں بہتی اور کہا گیا ہے (آیت)” من تحتھا “ کا معنی ہے ان (آیت)” اھل جنۃ “ کے حکم سے (یعنی ان کی ماتحتی میں) یہ معنی بوجہ اس قول خداوندی کے کیا گیا جو اللہ تعالیٰ نے فرعون سے نقل کرتے ہوئے فرمایا (آیت)” وھذہ الانھار تجری من تحتی “ کہ یہ نہریں میرے تحت کے نیچے سے بہتی ہیں یعنی میرے امر سے بہتی ہیں ۔ ” انھار “ جمع نہر کی ہے نہر کو نہر کا نام اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس کی وسعت اور واضح ہونے کے وجہ سے نام دیا گیا ہے اسی سے نہار (دن) ہے ، حدیث شریف میں ہے کہ وہ نہریں بغیر کھدائی کے جاری ہیں ، ” کلما “ جب بھی ۔ (رزقوا) طعام دیئے جائیں گے ۔ (منھا) یعنی جنت سے (من ثمرہ) یعنی پھل اور لفظ من بطور صلہ واقع ہے ، (رزقا) طعام (آیت)” قالوا ھذا الذی رزقنا من قبل “ اور قبل کو رفع دی گئی ہے غایت پر (یعنی بعد ان اسماء سے ہے جن سے زمان کی غایب یعنی انتہا بیان کی جاتی ہے) اس قسم کے اسماء زمان ومکان کی انتہاء بیان کرنے کے لیے آتے ہیں اور مبنی علی الضم ہوتے ہیں یعنی ان پر پیش آتی ہے ، اس سے پہلے دنیا میں اور کہا گیا ہے جنت میں پھل رنگ میں ملتے جلتے ہوں گے اور ذائقہ میں مختلف ہوں گے ، پس جب وہ یکے بعد دیگرے پھل دیئے جائیں گے تو وہ گمان کریں گے ، یہ وہی پہلے والے پھل ہیں۔ ” واتوابہ “ (یعنی دیئے جائیں گے) رزق (متشابھا) حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت مجاہد (رح) اور حضرت ربیعرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ رنگوں میں ملتے جلتے ہوں گے اور ذائقوں میں مختلف ، حضرت حسن (رح) اور حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں متشابہ ہوں گے یعنی بعض بعض سے بہترین ہونے میں ملتے جلتے ہوں گے ، یعنی سب کے سب بہتر ہوں گے ان میں کوئی بھی گھٹیاپھل نہ ہوگا ، حضرت محمد بن کعب ؓ فرماتے ہیں جنت کا پھل دنیا کے پھل سے (بظاہر) ملتا جلتا ہوگا لیکن وہ بہت زیادہ لذیذ ہوگا اور کہا گیا کہ نام میں ملتا جلتا ہوگا ، ذائقہ (لذت) میں مختلف ہوگا ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں دنیا میں کوئی ایسی چیز (نعمت خدا ندوی) نہیں پھر وہ جنت میں بھی ہوگی مگر صرف نام کا اشتراک ہوگا ۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا (کہ اہل جنت کھائیں گے پئیں گے پیشاب نہیں کریں گے اور نہ پاخانہ کریں گے نہ بلغم نکالیں گے تھوکیں گے نہیں ، حمد اور تسبیح کا الہام اس طرح ان کو کیا جائے گا جس طرح تمہیں سانس ۔ ان کے طعام (کا ہاضمہ) ڈکار ہوگا اور ان کا پسینہ کستوری کی طرح ہوگا ، قول خداوندی ” ولھم فیھا “ جنت میں (ازواج) عورتیں اور باندیاں یعنی گول اور خوبصورت آنکھوں والی حوروں سے (مطہرہ) پاخانہ ، پیشاب حیض ونفاس ، تھوک ، ناک کی آلائش ، منی اولاد کا ہونا ہر قسم کی قابل نفرت آلائش وغلاظت (سے پاک) ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں جنت میں جماع ہوگا جتنا تو چاہے اولاد نہ ہوگی ۔ حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں کہ ازواج مطہرہ وہ وہی تمہاری بوڑھیاں ہوں گی دنیا میں جن کی آنکھوں سے پانی بہتا تھا اور چھوٹی اور حقیر آنکھ والیاں تھیں جو دنیا کی قابل نفرت چیزوں سے پاک کی جائیں گی اور کہا گیا ہے کہ برے اخلاق سے پاک کی گئی (آیت)” وھم فیھا خالدون “ ہمیشہ رہنے والے اس میں مریں گے نہیں اس سے نکلیں گے نہیں ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا (بےشک پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہوں گا ان کی صورتیں چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گی ، پھر ان کے بعد جو ان کے (مرتبہ میں) قریب ہوں گے انکی صورتیں آسمان میں چمکنے والے ستارہ کی مانند ہوں گی وہ پیشاب نہیں کریں گے ، پاخانہ نہیں کریں گے تھوکیں گے نہیں ، ناک نہیں جھاڑیں گے، ان کی کنکھیاں سونے کی ہوں گی ، ان کا پسینہ کستوری ہوگا ، ان کی انگیٹھیاں خوشبودار لکڑی کی ہوں گی ، ان کی بیویاں حورعین ہوں گی ، ایک ہی آدمی کے خلق پر ہوں گے ، (یعنی ان کے مابین اختلاف نہ ہوگا) اپنے والد محترم حضرت آدم (علیہ السلام) کی صورت پر ہوں گے بلندی کی طرف ساتھ ہاتھ۔ (جنتیوں کی قسمیں اور ان کی صورتوں کا بیان) حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ پہلا گروہ جو قیامت کے روز جنت میں داخل ہوگا ان کی صورتیں چودھویں رات کے چاند کے مثل ہوں گی ، دوسرا گروہ آسمان میں خوبصورت ستارے کی مانند ہوگا ، ان میں ہر ایک آدمی کے لیے دو بیویاں ہوں گی ، ہر بیوی پر ستر جوڑے ہوں گے ان کے جوڑوں خونوں اور گوشت کے اندر سے ان کی پنڈلیوں کا مغز نظر آئے گا ، فرمایا حضرت انس بن مالک ؓ نے فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا اگر جنت والوں سے کوئی عورت زمین پر مطلع ہو (یعنی جھانک کر دیکھے) تو زمین و آسمان کے مابین کی فضا چمک اٹھے اور یہ پورا ماحول خوشبو سے بھر جائے ، اس کے سر کا دوپٹہ دنیا ومافیھا سے بہتر ہے ۔ اسامہ بن زید ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا (خبردار ہے کوئی جنت کے لیے پنڈلیوں سے چادر سمیٹنے والا (یعنی تیار ہونے والا) اور جنت وہ چیز ہے جس کا خیال بھی کسی دل پر نہیں گزرا اور وہ (جنت) رب کعبہ کی قسم جگمگاتے نور کا نام ہے ۔ لہلہاتے پھولوں کا نام ہے ، بلند وبالا محلات بہتی نہروں ، پکے پھلوں ، حسین و جمیل بیویوں ، بیشمار جوڑوں سے عبارت ہے، ہمیشہ کا ٹھکانہ سلامتی والے گھر میں سرسبز فروٹ سرور اور نعمت خوبصورت اور بلند وبالا جگہ میں) سب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے کہا یا رسول اللہ ! ﷺ ہم اس جنت کے لیے تیار ہیں فرمایا : حضور ﷺ نے فرمایا سب کہو ان شاء اللہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے کہا ان شاء اللہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا گیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جنت والوں کے بدن پر بال نہ ہوں ، بےریش ہوں گے ، قدرتی سرمگیں آنکھوں والے ہوں گے ، ان کی جوانی فنا پذیر نہیں ، ان کا لباس پرانا نہ ہوگا ۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا (بےشک جنت میں ایک بازار ہے جس میں خریدو فروخت نہیں ہے سوائے اس کے مردوں ، عورتوں کی صورتوں ہوں گی جب کوئی آدمی کسی صورت کو پسند کرے گا اس میں داخل ہوگا تو وہاں حورعین کا مجمع ہوگا جو پکار پکار کر کہہ رہی ہوں گی ایسی (سریلی) آواز کے ساتھ کہ اس جیسی آواز مخلوق نے نہ سنی ہوگی (ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں کبھی ہلاک نہیں ہوں گی ہم وہ نرم ونازک ہیں جو کبھی ہم راضی ہیں کہ کبھی ناراض نہ ہوں گی پس خوشخبری ہے اس لیے جو ہمارے لیے ہوا اور ہم اس کی ہوگئیں) اور اسے روایت کیا ابو عیسیٰ نے ہناد اور احمد بن منیع سے انہوں نے روایت کیا ابو معاویہ سے مرفوعا روایت کیا اور فرمایا یہ حدیث غریب ہے ۔ (جنت کا جمعہ بازار) انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (بےشک جنت میں بازار ہے) اہل جنت اس میں ہر جمعہ آئیں گے تو شمال کی ہوا چلے گی اور وہ ہوا جنت کی گرد ان کے چہروں اور کپڑوں پر اڑائے گی جس سے ان کا حسن و جمال بڑھ جائے گا وہ گھر لوٹیں گے تو ان کا حسن و جمال بڑھ چکا ہوگا تو ان کے گھر والے کہیں گے بیشک تم ہمارے بعد حسن و جمال کے اعتبار سے بڑھ چکے ہو ، جواب میں جنتی اپنے گھر والوں کو کہیں گے اللہ کی قسم تم ہمارے بعد حسن و جمال کے لحاظ سے بڑھ چکے ہو ۔
Top