Dure-Mansoor - An-Nisaa : 22
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَنْكِحُوْا : نکاح کرو مَا نَكَحَ : جس سے نکاح کیا اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا قَدْ سَلَفَ : جو گزر چکا اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَاحِشَةً : بےحیائی وَّمَقْتًا : اور غضب کی بات وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ (طریقہ)
اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہیں مگر جو پہلے گذر چکا۔ بیشک یہ بےحیائی کا اور غصہ کا کام ہے اور برا راستہ ہے
(1) الفریابی وابن المنذر وابن ابی حاتم و طبرانی اور بیہقی نے اپنی سنن میں عدی بن ثابت انصاری ؓ سے روایت کیا کہ ابو قیس بن سلت ؓ وفات پاگئے جو انصار کے نیک لوگوں میں سے تھے قیس کے بیٹے نے ان کی بیوی کو نکاح کا پیغام دیا تو اس نے کہا میں تجھ کو اپنا بیٹا شمار کرتی ہوں اور تو اپنی قوم کے نیک لوگوں میں سے ہے۔ لیکن میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوں گی اور آپ سے رائے لوں گی وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ ابو قیس وفات پاگئے تو آپ نے اس کے لئے خیر کے کلمات ارشاد فرمائے اس کے بیٹے قیس نے مجھے نکاح کا پیغام دیا ہے حالانکہ وہ اپنی قوم کا نیک آدمی ہے۔ اور میں اس کو اپنا بیٹا شمار کرتی ہوں پس آپ کی کیا رائے ہے ؟ آپ نے فرمایا لوٹ جا اپنے گھر کی طرف تو یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” ولا تنکحوا ما نکح اباؤکم من النساء “ بیہقی نے کہا یہ حدیث مرسل ہے۔ (2) ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے لفظ آیت ” ولا تنکحوا ما نکح اباؤکم من النساء “ کے بارے میں روایت کیا کہ (یہ آیت) نازل ہوئی ابو قیس بن سلت کے بارے میں اس نے عبیدہ بن حمزہ سے نکاح کیا جو اس کے والد کی سلت کی بیوی تھی اور یہ آیت اسود بن خلف کے بارے میں نازل ہوئی اس نے بنت ابی طلحہ بن عبد العزی بن عثمان بن عبدار سے نکاح کیا جبکہ وہ پہلے اس کے باپ کے خلف کے نکاح میں تھی۔ اور فاختہ بنت اسود بن المطلب بن اسد کے بارے میں نازل ہوئی جو امیہ بن خلف کے نکاح میں تھی اور اس سے صفوان بن امیہ نے نکاح کیا اور منظور بن رباب کے بارے میں نازل ہوئی اس نے ملیکہ بن خارجہ سے نکاح کیا جبکہ وہ اس کے باپ رباب بن سیار کے نکاح میں تھی۔ نکاح کے وارث بننے کا غلط طریقہ (3) بیہقی نے اپنی سنن میں مقاتل بن حبان (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی آدمی فوت ہوجاتا تھا تو میت کا قریبی رشتہ دار اس کی بیوی کے پاس آتا اور اس پر اپنا کپڑا ڈال دیتا اور اس کے نکاح کا وارث بن جاتا۔ جب ابو قیس بن سلت فوت ہوا تو اس کے بیٹے اپنے باپ کی بیوی کے پاس آئے اور اس سے شادی کرلی لیکن اس کے ساتھ دخول نہیں کیا وہ نبی ﷺ کے پاس آئی اور سب واقعہ ذکر کیا تو اللہ تعالیٰ نے قیس کے بارے میں نازل فرمایا لفظ آیت ” ولا تنکحوا ما نکح اباؤکم من النساء الا ما قد سلف “ تحریم سے پہلے یہاں تک کہ ماں اور بیٹوں کا حرام ہونے کا حرام ہونے کا بھی ذکر کیا (اور) فرمایا ” وان تجمعوا بین الاختین الا ما قد سلف “ تحریم سے قبل (پھر فرمایا) لفظ آیت ” ان اللہ کان غفورا رحیما “ یعنی تحریم سے قبل جو گزر چکا (وہ معاف ہے) ۔ (4) ابن سعد نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ جب آدمی فوت ہوجاتا تھا تو اس کا بیٹا اس کی بیوی کا حقدار ہوتا تھا اگر وہ چاہتا تو اس سے نکاح کرلیتا تھا اگر وہ اس کی ماں نہ ہوتی یا جس سے چاہتا اس سے نکاح کردیتا تھا جب ابو قیس بن سلت ؓ وفات پاگئے تو اس کا بیٹا محض کھڑا ہوگیا اور اس کی بیوی کے نکاح کا وارث بن گیا (پھر) اس نے نہ تو اس عورت پر خرچ کیا اور نہ ورثہ میں سے کوئی چیز دی۔ وہ عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور آپ کو یہ ساری بات سنائی آپ نے فرمایا لوٹ جا شاید اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں کچھ نازل فرمائیں گے تو یہ آیتیں نازل ہوئیں لفظ آیت ” ولا تنکحوا ما نکح اباؤکم من النساء “ اور ” لا یحل لکم ان ترثوا النساء کرھا “۔ (5) ابن جریر وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ زمانہ، جاہلیت میں لوگ تمام عورتوں کو حرام قرار دیتے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا مگر باپ کی عورت کو (اور) دو بہنوں کو اکٹھے نکاح میں رکھنے کو حلال سمجھتے تھے۔ (اس پر) اللہ تعالیٰ نے (یہ آیتیں) اتاریں ” ولا تنکحوا ما نکح اباؤکم من النساء “ (اور) ” وان تجمعوا بین الاختین “۔ (6) ابن جریر وابن المنذر وابن حاتم و بیہقی نے اپنی سنن میں علی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” ولا تنکحوا ما نکح اباؤکم من النساء “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہر وہ عورت جس سے تیرے باپ نے نکاح کیا ہو یا تیرے بیٹے نے، چاہے اس سے جماع کیا ہو یا نہ کیا ہو تو وہ تیرے اوپر حرام ہے۔ (7) عبد الرزاق وابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطا بن ابی رباح سے کہا کہ ایک آدمی کسی عورت سے نکاح کرتا ہے پھر اس کو دیکھتا بھی نہیں یہاں تک کہ اس کو طلاق دے دیتا ہے تو کیا یہ عورت اس کے بیٹے کے لئے حلال ہوگی ؟ فرمایا نہیں یہ روایت مرسل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ولا تنکحوا ما نکح اباؤکم من النساء “ میں نے عطا سے پوچھا ” الا ما قد سلف “ کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے فرمایا زمانہ جاہلیت میں بیٹے اپنے باپ کی عورتوں سے نکاح کرلیتے تھے۔ (8) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے لفظ آیت ” ولا تنکحوا ما نکح اباؤکم من النساء “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے اس نے عقد نکاح کیا ہو اور ابھی دخول نہ کیا ہو۔ (9) ابن ابی حاتم نے ابوبکر بن ابو مریم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے مشیخہ سے روایت کیا کہ کوئی آدمی اپنے دادا کی بیوی جو اس کے پاس کی ماں ہے نکاح نہ کرے اس لئے کہ وہ آباء میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” ولا تنکحوا ما نکح اباؤکم من النساء “۔ (10) ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الا ما قد سلف “ یعنی مگر جو کچھ جاہلیت میں تھا۔ (11) عبد الرزاق نے قتادہ (رح) سے ” الا ما قد سلف “ کے بارے میں روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں اپنے باپ کی عورت سے نکاح کرلیتا تھا۔ (12) ابن ابی حاتم نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو اس طرح پڑھتے تھے لفظ آیت ” ولا تنکحوا ما نکح اباؤکم من النساء الا ما قد سلف “ مگر جو گزر چکا یعنی جو ہوچکا۔ (13) ابن ابی حاتم نے عطا بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انہ کان فاحشۃ ومقتا “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتے ہیں (اور فرمایا) ” وساء سبیلا “ یعنی یہ راستہ برا ہے جو اس پر عمل کرتا ہے۔ (14) عبد الرزاق ابن ابی شیبہ واحمد اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے اپنی سنن میں براء ؓ سے روایت کیا کہ میں اپنے خالو سے ملا، ان کے پاس ایک جھنڈا تھا میں نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے ؟ انہوں نے کہا مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے آدمی کے پاس بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی (یعنی اپنی ماں) سے نکاح کرلیا ہے رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو حکم فرمایا ہے کہ میں اس کی گردن ماردوں اور اس کا مال لے لوں۔
Top