Dure-Mansoor - An-Nisaa : 49
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ بَلِ اللّٰهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُزَكُّوْنَ : پاک۔ مقدس کہتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ کو بَلِ : بلکہ اللّٰهُ : اللہ يُزَكِّيْ : مقدس بناتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان پر ظلم نہ ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنی جانوں کو پاکیزہ بتاتے ہیں، بلکہ اللہ جس کو چاہے پاکیزہ بناتا ہے اور لوگوں پر کھجور کی گٹھلی کے تاگے کے برابر بھی ظلم نہ ہوگا
(1) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہود نے کہا ہمارے بیٹے جو فوت ہوچکے ہیں وہ ہم کو قریب کرنے والے ہوں گے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور عنقریب وہ ہماری سفارش کریں گے اور ہم کو پاک کریں گے تو اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو فرمایا لفظ آیت ” الم تر الی الذین یزکون انفسہم “ (الآیہ) ۔ (2) ابن ابی حاتم نے عکرمہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہود اپنے بچوں کو آگے رکھنے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنے اور اپنی قربانیوں کے قریب رکھنے اور یہ خیال کرتے تھے کہ اب ان کی کوئی خطا (باقی) نہیں ہے اور نہ کوئی گناہ (باقی ہے) اور انہوں نے جھوٹ بولا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں گناہ والے کو پاک نہیں کروں گا دوسرے کے بدلے میں جس پر کوئی گناہ نہ ہو پھر اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو نازل فرمایا لفظ آیت ” الم تر الی الذین یزکون انفسہم “۔ (3) عبد بن حمیدوابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” الم تر الی الذین یزکون انفسہم “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہود اپنے بچوں کو آگے کھڑا کردیتے تھے اور ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے تھے اور وہ یہ گمان کرتے تھے کہ اب ان کا کوئی گناہ باقی نہیں رہا اور یہی تزکیہ ہے یعنی گناہوں سے پاک ہونا ہے۔ (4) ابن جریر نے ابو مالک (رح) سے لفظ آیت ” الم تر الی الذین یزکون انفسہم “ کے بارے میں روایت کیا کہ (یہ آیت) یہود کے بارے میں نازل ہوئی وہ اپنے بچوں کو امام بناتے اور پھر کہتے کہ ان کے گناہ نہیں۔ (5) ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ اہل کتاب (اپنے) بچوں کو آگے کردیتے تھے (نماز میں) جو ابھی بالغ نہیں ہوئے تھے ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور کہتے تھے ان کے کوئی گناہ نہیں تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” الم تر الی الذین یزکون انفسہم “۔ (6) عبد الرزاق وابن جریر وابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الم تر الی الذین یزکون انفسہم “ سے مراد یہودی و نصاری ہیں (وہ کہتے ہیں) ” نحن ابناء اللہ واحباؤہ “ (ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں) ” وقالوا لن یدخل الجنۃ الا من کان ھودا او نصری “ (جنت میں یہود و نصاری کے علاوہ کوئی داخل نہ ہوگا) ۔ (7) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (یہ آیت) ” الم تر الی الذین یزکون انفسہم “ یہود کے بارے میں نازل ہوئی انہوں نے کہا ہم اپنے بیٹوں کو چھوٹی عمر میں تو رات سکھاتے ہیں تو ان کے کوئی گناہ نہیں ہوتے جبکہ ہمارے گناہ ہمارے بیٹون کے گناہ کی طرح ہیں جو ہم دن کے وقت عمل کرتے ہیں وہ رات کے وقت ان کو ہم سے مٹا دیا جاتا ہے۔ (8) ابن جریر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی البتہ دھوکہ کرتا تھا اپنے دین کے ساتھ پھر رجوع کرتا تو اس کے ساتھ دین میں سے کوئی چیز نہ ہوتی وہ کسی آدمی سے ملاقات کرتا تھا کہ وہ اس کے نفع اور نقصان کا مالک نہ ہوتا تھا اور وہ کہتا تھا اللہ کی قسم بلاشبہ تو اس شان کا حامل ہے شاید کہ وہ لوٹے جبکہ وہ اسے اس کی ضرورت میں کچھ فائدہ نہ دے حال یہ ہے کہ اس نے اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرلیا پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” الم تر الی الذین یزکون انفسہم “۔ (9) عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے مجاہد کے طریق سے ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” ولا یظلمون فتیلا “ کے بارے میں روایت کیا کہ فتیل وہ چیز ہے جو دو انگلیوں کے درمیان سے نکلے۔ (10) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا فقیل وہ ہے کہ تو اپنی دو انگلیوں کو رگڑے تو جو چیز ان دونوں میں سے نکلے وہ فتیل ہے۔ (11) سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن المنذر ابن عباس ؓ سے روایت کیا نقرہ میں ہوتا ہے جس میں کھجور اگتی ہے اور فتیل جو گٹھلی کے شگاف میں ہوتا ہے اور قطمیر وہ چھلکا جو گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے۔ (12) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جو اس شق میں ہوتا ہے جو گٹھلی کے پیٹ میں ہے۔ (13) الطستی وابن الانباری نے الوقف والا بتداء میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے کہا مجھ کو اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ولا یظلمون فتیلا “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا کہ وہ کمی نہیں کرتے خیر سے اور شر سے مثل فتیل کے اور فتیل گٹھلی کے شق میں ہوتی ہے۔ عرض کیا کیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں۔ فرمایا ہاں کیا تو نے نابغہ بنی ذبیان کا قول نہیں سنا : یجمع الجیش ذالالوف وتغرفوا ثم لا یرزء الا عادی فتیلا ترجمہ : لشکر جمع کرتا ہے لاکھوں کا اور جنگ کرتا ہے دشمنوں کا ذرہ برابر بھی نقصان نہیں دیتا اور یہ بھی فرمایا اعاذل بعض لو مک لا تلحی فان اللیوم لا یغنی فتیلا ترجمہ : میں تیری بعض ملامتوں سے جدا ہوجاتا ہوں جو قابل ملامت کاموں پر نہیں ہوتی کیونکہ ملامت فتیلہ برابر فائدہ نہیں دیتی۔ (14) ابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ فتیل وہ گڑھا ہے جو گٹھلی کے وسط میں ہوتا ہے اس کی پشت پر اور اسے فتیل کہتے ہیں اور قطمیر وہ ہے جو گٹھلی کا لفافہ یا انڈے کی جھلی یا سرکنڈے کی جھلی۔ (15) عبد بن حمید نے عطیہ جدلی (رح) سے روایت کیا کہ تین چیزیں گٹھلی میں ہیں قطمیر وہ گٹھلی کا چھلکا ہے اور نقیر گٹھلی کا وسط گڑھے کو کہتے ہیں اور فتیل وہ ہے جو گٹھلی کے درمیان شق میں ہوتا ہے۔ (16) ابن جریر نے وابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ یہود نے کہا ہمارے لئے کوئی گناہ نہیں مگر ہماری اولاد کا گناہ جس دن ان کی پیدائش ہوتی ہے اگر ان کے گناہ ہوں گے تو ہمارے بھی گناہ ہوں گے اور ہم ان کی طرح ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” انظر کیف یفترون علی اللہ الکذب وکفی بہ اثما مبینا “۔
Top