Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 14
مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ وَ طَعْنًا فِی الدِّیْنِ١ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اسْمَعْ وَ انْظُرْنَا لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَقْوَمَ١ۙ وَ لٰكِنْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا
مِنَ : سے (بعض) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ھَادُوْا : یہودی ہیں يُحَرِّفُوْنَ : تحریف کرتے ہیں (بدل دیتے ہیں) الْكَلِمَ : کلمات عَنْ : سے مَّوَاضِعِهٖ : اس کی جگہ وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَعَصَيْنَا : اور ہم نے نافرمانی کی وَاسْمَعْ : اور سنو غَيْرَ : نہ مُسْمَعٍ : سنوایا جائے وَّرَاعِنَا : اور راعنا لَيًّۢا : موڑ کر بِاَلْسِنَتِهِمْ : اپنی زبانوں کو وَطَعْنًا : طعنہ کی نیت سے فِي الدِّيْنِ : دین میں وَلَوْ : اور اگر اَنَّھُمْ : وہ قَالُوْا : کہتے سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی وَاسْمَعْ : اور سنیے وَانْظُرْنَا : اور ہم پر نظر کیجئے لَكَانَ : تو ہوتا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے وَاَقْوَمَ : اور زیادہ درست وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّعَنَھُمُ : ان پر لعنت کی اللّٰهُ : اللہ بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَلَا يُؤْمِنُوْنَ : پس ایمان نہیں لاتے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑے
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے پھر ان کو طوفان (کے عذاب) نے آپکڑا اور وہ ظالم تھے
قصہء اول نوح (علیہ السلام) باقوم قال اللہ تعالیٰ ولقد ارسلنا نوحا الی قومہ۔۔۔ الی۔۔۔ وجعلنھا ایۃ للعلمین۔ (ربط) گزشتہ آیات میں ابتلا اور آزمائش کا ذکر تھا اب اسی سلسلہ میں انبیا سابقین کے ابتلا کے واقعات ذکر کرتے ہیں۔ سب سے پہلے نوح (علیہ السلام) کے ابتلا کا قصہ ذکر کرتے ہیں جو تقریبا ایک ہزار سال تک ممتد رہا اتنا طویل ابتلا اور اتنا طویل صبر سوائے نوح (علیہ السلام) کے کسی نبی کو پیش نہیں آیا۔ اور باوجود اس قدر طویل و عریض اور شدید ومدیدابتلا کے دعوت وتبلیغ میں سست نہیں پڑے جب کافروں کی سرکشی حد سے گزر گئی تو بحکم خداوندی مع اپنے اصحاب کے ایک کشتی پر سوار ہوگئے۔ بعد میں طوفان آیا سب ہلاک ہوگئے اور نوح (علیہ السلام) اور ان کے صحابہ غرقابی سے بچ گئے اور نوح (علیہ السلام) کا کشتی پر سوار ہونا یہ بھی ایک قسم کی ہجرت تھی اور ہجرت بھی ایک قسم کا ابتلا ہے اس قصہ کے ذکر سے آنحضرت ﷺ کی اور مہاجرین کی تسلی مقصود ہے کہ آپ ﷺ کافروں کی ایذا رسانی سے دلگیر نہ ہوں۔ چناچہ فرماتے ہیں اور البتہ تحقیق ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا سو وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار سال تک ٹھہرے اور ان کو توحید کی طرف بلاتے رہے اور کفر اور شرک سے منع کرتے رہے مگر وہ کسی طرح راہ پر نہ آئے پس جب اس طویل و عریض فہمائش کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو طوفان نے ان کو آپکڑا اور وہ بڑے ہی ظالم تھے کہ کفروشرک کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور نوح (علیہ السلام) نے جب ان کو سمجھایا تو ان کو مجنون کہا اور جھڑکا اور مارا پس ہم نے نوح کو اور یاران کشتی کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے طوفان سے نجات دی اس لئے کہ یاران کشتی اس ظاہری سفینہ پر سوار ہونے سے پہلے سفینہ نجات یعنی ایمان اور عمل صالح کی کشتی پر سوار ہوچکے تھے اور ہم نے اس واقعہ کو اہل عالم کے لئے نشان عبرت بنایا کہ دیکھ لیں اور سمجھ لیں کہ حق کی مخالفت کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اور عبرت پکڑیں یعنی دنیا فانی پر ایسے فریفتہ نہ ہوں کہ کسی ہادی کی نصیحت نہ سنیں بالآخر موت میں مبتلا ہو کر سب کو چھوڑ جائیں۔ فائدہ : عبد اللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے کہ نوح (علیہ السلام) کو چالیس سال کی مدت میں نبوت ملی اور ساڑھے نو سو برس ان کو خدا کی طرف بلاتے رہے پھر طوفان کے بعد ساٹھ برس زندہ رہے (اخرجہ ابن ابی شیبۃ والحاکم وصححہ) روح المعانی ص 123 ج 20۔ اس حساب سے نوح (علیہ السلام) کی عمر ایک ہزار پچاس سال کی ہوئی۔ انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ جب نوح (علیہ السلام) کے پاس ملک الموت آئے تو یہ کہا کہ پیغمبروں میں سب سے دراز عمر آپ نے پائی آپ نے دنیا کو کیسا پایا تو کہا جیسے ایک شخص اس مکان میں داخل ہوا جس کے دور دروازے تھے ایک دروازہ سے داخل ہوا اور تھوڑی دیر ٹھہر کر دوسرے دروازہ سے نکل گیا۔ اخرجہ ابن ابی الدنیا فی کتاب ذم الدنیا عن انس ؓ روح المعانی ص 123 ج 20۔ اور حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ سورة ہود میں مفصل گزر چکاہے
Top