Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پر فرض کئے گئے تھے ۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی ،
اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ فرائض اور تکلیفات پر عمل کرنے کے لئے انسان کے نفس کو بڑی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں انسان اللہ کی خصوصی امداد کا محتاج ہے ۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ ان احکامات پر عمل کرنے کے لئے ان میں اسپرٹ پیدا کی جائے ۔ ان کی روح ان احکامات کی طرف مائل ہوجائے تاکہ وہ مطمئن ہوجائے اور عمل پر راضی ہوجائے ۔ حالانکہ ان احکام پر عمل کرنے میں خود اس کا مفاد مضمر ہے ۔ چناچہ اسی خاطر بہت ہی پیاری آواز میں پکارا گیا ۔” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو “ غور کیجئے ، یہ آواز انہیں ان کی اصل حقیقت یاد دلاتی ہے ۔ پھر روزہ فرض ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے اور یہ تو پہلی امتوں پر بھی فرض ہوتا رہا ہے ۔ کوئی نئی بات تو نہیں ہے ۔ اس کا مقصداہل ایمان کے دلوں کو صاف کرنا ہے۔ انہیں خوف خدا کے لئے تیار کرنا ہے اور ان میں اللہ کی مشیت کا احساس و شعور بیدار کرنا ہے ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں ، جس طرح تم سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کے پیروؤں پر فرض کئے گئے تھے ، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ “ اس آیت میں روزے کی اصلی غرض وغایت ظاہر ہوجاتی ہے ، یعنی تقویٰ جب ایک مومن اللہ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اور اللہ کی رضا کی خاطر روزہ رکھتا ہے تو اس کے دل میں تقویٰ کا شعور اجاگر ہوجاتا ہے۔ یہ تقویٰ ہی ہے جو دلوں کا نگہبان ہے اور جو انسان کو روزے کے احکام کی خلاف ورزی سے بچاتا ہے ۔ اگرچہ وہ ایسی معصیت سے بھی انسان کو بچاتا ہے ، جو کسی حد تک محض وسوسہ ہو ۔ قرآن کریم کے اول مخاطب صحابہ کرام اس کے معنی سے اچھی طرح واقف تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ کے ہاں تقویٰ کس قدر وزنی ہے ۔ اس لئے تقویٰ ہی ان کا نصب العین تھا ۔ وہ برابر اس کی طرف بڑھتے جاتے تھے اور روزہ ذرائع حصول تقویٰ میں سے چونکہ ایک ذریعہ ہے اس لئے یہ فرض کیا گیا ۔ دراصل روزہ وہ راہ ہے جس کی آخری منزل تقویٰ ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ یہاں قرآن مجید ، ایک بلندمقام پر ، بالکل سامنے تقویٰ کا ایک روشن نشان رکھ دیتا ہے اور اہل ایمان کی آنکھیں اس نشانہ پر جم جاتی ہیں اور وہ روزہ کے واسطے اور روزے کی امداد سے وہاں تک پہنچنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں ۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ” تاکہ تم ڈرو۔ “
Top