Fi-Zilal-al-Quran - Yaseen : 80
اِ۟لَّذِیْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنْتُمْ مِّنْهُ تُوْقِدُوْنَ
الَّذِيْ : جس نے جَعَلَ : پیدا کیا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الشَّجَرِ : درخت الْاَخْضَرِ : سبز نَارًا : آگ فَاِذَآ : پس اب اَنْتُمْ : تم مِّنْهُ : اس سے تُوْقِدُوْنَ : سلگاتے ہو
وہی جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو۔
الذی جعل۔۔۔۔ توقدون (36: 80 ) ” وہ جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو “۔ یعنی یہ سادی ابتدائی مشاہدہ ہی اللہ کی قدرت مذکورہ کی تصدیق کر دے گا۔ یہ مشاہدہ تم لوگ روز کرتے ہو لیکن اس کی حقیقت نہیں پاتے ہو۔ یہ سرسبز درخت جو پانی کے رس سے بھرا ہوا ہے جب اس کا ایک حصہ دوسرے سے رگڑا جاتا ہے تو اس سے آگ پیدا ہوتی ہے اور یہ درخت بھی پھر اس آگ کا ایندھن بن جاتا ہے۔ باوجود اپنی سرسبزی اور تروتازگی کے۔ اور وہ گہری تحقیق کہ درخت کے اندر جو طبیعی حرارت کا خزانہ ہوتا ہے ، جو وہ سورج کی تاب کاری سے جذب کرتا ہے اور وہ اسے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہوتا ہے حالانکہ وہ پانی کے رس سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اور ان درختوں کے رگڑ سے پھر وہ آگ پیدا ہوتی ہے جس طرح جلنے کے عمل سے آگ پیدا ہوتی ہے تو اس حقیقی علم و معرفت سے یہ حقیقت اور کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہرے بھرے درخت سے آگ کس طرح نمودار ہوتی ہے۔ خالق کائنات ہی نے درختوں کے اندر یہ کمالات ودیعت فرمائے جس نے ہر چیز کو اسکی تخلیق دی اور پھر اسے حکم دیا کہ وہ ان مقاصد کو پورا کرے جن کے لئے پیدا کیا گیا۔ ہاں یہ ہماری بےراہ روی ہے کہ ہم اس مخلوق کو اسی زاویہ نظر سے نہیں کھلتے اور نہ وہ ہماری راہنمائی اس خالق اور صانع کی طرف کرتے ہیں۔ اگر ہم کھلے دلوں اور گہری نظروں کے ساتھ دیکھیں تو یہ اسرار و رموز ہماری دسترس میں ہیں اور ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ ہم انہیں سمجھیں ، اللہ کی بندگی کریں اور ہر وقت اللہ کی حمد و ثنا کرتے رہیں۔ اس کے بعد دلائل قدرت الہیہ بیان کیے جاتے ہیں اور یہ بتایا جاتا ہے کہ تخلیق کا یہ عمل کس قدر سادہ ہے اور اسی طرح اللہ کے لوگوں کا دوبارہ پیدا کرنا کس قدر آسان ہے۔
Top