Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 161
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَ بِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَثِیْرًاۙ
فَبِظُلْمٍ : سو ظلم کے سبب مِّنَ : سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : جو یہودی ہوئے (یہودی) حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر طَيِّبٰتٍ : پاک چیزیں اُحِلَّتْ : حلال تھیں لَهُمْ : ان کے لیے وَبِصَدِّهِمْ : اور ان کے روکنے کی وجہ سے عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَثِيْرًا : بہت
غرض ان یہودیوں کے اسی ظالمانہ رویے کی بناء پر اور اس بناء پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں
(آیت) ” فبظلم من الذین ھادوا حرمنا علیھم طیبت احلت لھم وبصدھم عن سبیل اللہ کثیرا ‘(160) واخذھم الربوا وقد نھو عنہ واکلھم اموال الناس بالباطل واعتدنا للکفرین منھم عذابا الیما (161) (4 : 160۔ 161) (۔ غرض ان یہودیوں کے اسی ظالمانہ رویے کی بناء پر اور اس بناء پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ‘ اور سود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں ‘ ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کیلئے حلال تھیں ‘ اور وہ لوگ جو ان میں سے کافر ہیں ان کیلئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ ) چناچہ اس آیت کے ذریعے ان کے سابقہ منکرات میں کچھ مزید منکرات کا اضافہ کردیا گیا ۔ اور یہ بتا دیا گیا کہ اللہ کی راہ میں سے لوگوں کو روکنے کے سوا ان کا اور کوئی کام ہی نہیں ہے ۔ گویا وہ رات دن ایسی کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ نیز یہ رات دن سودی کاروبار میں لگے رہتے ہیں اور یہ کام وہ محض کم علمی کی وجہ سے نہیں کر رہے یا یہ کہ انہیں اس سلسلے میں متنبہ نہیں کیا گیا ‘ بلکہ انہیں صاف الفاظ میں اس سے روکا گیا تھا لیکن انہوں نے پھر بھی اس پر اصرار کیا اور لوگوں کا مال ناجائز طریقے سے کھاتے رہے ۔ یہ ربا کے ذریعے بھی کھاتے رہے اور دوسرے ذرائع سے بھی ۔ ان منکرات اور اس سے پہلی سورتوں میں مذکورہ جرائم کی وجہ سے اللہ نے ان پر بعض حلال چیزوں کو حرام کردیا جوان کیلئے حلال تھیں اور یہ کہ اللہ نے کافروں کیلئے سخت دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ یہودیوں کے خلاف اس مہم میں یہودیوں کے چہرے سے نقاب اتار کر پھینک دیا گیا ‘ اور اس ان کے تاریخ سے بعض واقعات بھی پیش کئے گئے تاکہ معلوم ہو کہ ان کی تاریخ کیا ہے ۔ ان کی بہانہ سازیوں اور ان کی ہٹ دھرمی کا پردہ چاک کیا کیا اور یہ بتایا گیا کہ وہ کسی طرح مان کردینے والے نہیں ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنے قائد ‘ اپنے نجات دہندہ اور اپنے عظیم نبی کے ساتھ یہی رویہ اختیار کئے رکھا ان کی عادت یہ رہی ہے کہ وہ ہمیشہ صالحین اور انبیاء کے ساتھ برے سلوک اور ان کے خلاف بدگوئی کرنے میں بہت ہی جری وسریع رہے ہیں ۔ وہ انبیاء کو بھی قتل کرتے رہے ہیں اور پھر ندامت کے بجائے اس قتل پر فخر کرتے رہے ہیں ۔ ان جملوں کے نتیجے میں ‘ یہودیوں کے مکروفریب کا جال تار تار ہوگیا جو انہوں نے اسلامی صفوں کے خلاف بچا رکھا تھا ۔ ان کی سازشیں ناکام ہوگئیں اور مسلمانوں کے ساتھ انکی خفیہ دوستیاں کٹ گئیں ۔ یوں اہل اسلام نے یہودیوں کے اصل مزاج کو اچھی طرح جان لیا۔ اسلام کے خلاف ان کی سازشوں اور ان میں استعمال ہونے والے وسائل وذرائع کو پہچان لیا ۔ اس بات کا انہیں علم ہوگیا کہ وہ کس طرح ہر سچائی کے مقابلے میں جتھہ بندی کرلیتے ہیں چاہے یہ سچائی خود ان کے اندر انکی اپنی صفوں سے اٹھے یا ان سے باہر دوسری اقوام کے اندر پائی جائے ۔ اس لئے کہ وہ ہمیشہ سچ اور اہل حق کے دشمن رہے ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہدایت اور ہادیوں کی بیخ کنی کرتے رہے ہیں ۔ ہر دور میں اور ہر زمانے میں وہ یہ کام کرتے رہے ہیں ۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ تو ان کا یہ رویہ بہرحال تھا ہی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں ‘ اس لئے ہر دور میں ہر اسلامی تحریک اور اسلامی سوسائٹی کا یہ فرض ہے کہ وہ یہودیوں سے چوکنا رہے اس لئے کہ ان کی جبلت ہی ایسی ہے کہ وہ ذاتی طور پر سچائی کے دشمن ہیں ۔ ان کے دل کے اندر حق کی دشمنی بھری ہوئی ہے ۔ ان کے کلیجے سخت ہوگئے ہیں ۔ وہ اپنے سر صرف اس شخص کیلئے جھکاتے ہیں جو ان پر ڈنڈے برسائے اور وہ سچائی کو تب تسلیم کرتے ہیں جب ان کے سروں پر تلوار لٹک رہی ہو ۔ اس قسم کے لوگوں کا یہ تعارف صرف اس جماعت اسلامی کیلئے نہ تھا جو مدینہ طیبہ میں کام کر رہی تھی اس لئے کہ قرآن اس امت کے لئے گائیڈ ہے جب تک کہ یہ امت موجود رہے گی ۔ اگر قرآن سے یہ امت اپنے دشمنوں کے بارے میں ہدایات لینا چاہے تو اس میں اسے ہدایات مل جائیں گی ، اس سے جب بھی یہ امت کوئی نصیحت لینا چاہے یہ کتاب اسے نصیحت دیتی ہے ۔ اس کتاب نے امت کو یہودیوں کے بارے میں ہدایت دی ۔ نصیحت کی اور فہم دیا تو اس کے نتیجے میں یہودیوں کی گردنیں مسلمانوں کے مقابلے میں جھک گئیں ۔ جب اس امت نے قرآن مجید کو چھوڑا تو یہ امت یہودیوں کی غلام بن گئی ، ہم دیکھتے ہیں کہ یہ امت پوری طرح جمع ہوتی ہے اور یہودیوں کی ایک مختصر جمعیت اس پر غالب آجاتی ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ اپنی کتاب اور گائیڈ بک سے غافل ہے ۔ وہ قرآن کی ہدایات سے دور بھاگ رہی ہے ۔ اس نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے ۔ اور یہ امت فلاں اور فلاں کے اقوال کی اطاعت کر رہی ہے ۔ یہ امت اسی طرح یہودی سازش کا شکار رہے گی اور اسی طرح وہ یہودیوں کے عتاب میں رہے گی جب تک وہ قرآن کی طرف نہیں لوٹتی ۔ یہ بیان اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک یہودیوں میں سے نکل کر آنے والے بعض اچھے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کردی جاتی اور ان کی جرات راندانہ کہ تعریف کی جاتی ہے کہ چھلانگ لگا کر نکل آئے اور سچائی کو قبول کرلیا ۔ قرآن کریم ان لوگوں کے علم و ایمان کی تصدیق کرتا ہے جن کی وجہ سے وہ اہل اسلام میں داخل ہوئے اور رسول اللہ ﷺ پر نازل شدہ دین کو قبول کیا ۔ یہ علم وہ تھا جو رسول اللہ ﷺ پر اترا اور جو آپ سے قبل انبیاء پر اترا تھا ۔ وہ اس علم میں زیادہ رسوخ رکھتے تھے جس کی وجہ سے ایمان لے آئے۔
Top