Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 21
وَ كَیْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَ قَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّ اَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا
وَكَيْفَ : اور کیسے تَاْخُذُوْنَهٗ : تم اسے لوگے وَقَدْ : اور البتہ اَفْضٰى : پہنچ چکا بَعْضُكُمْ : تم میں ایک اِلٰى بَعْضٍ : دوسرے تک وَّاَخَذْنَ : اور انہوں نے لیا مِنْكُمْ : تم سے مِّيْثَاقًا : عہد غَلِيْظًا : پختہ
اور آخر تم اسے کس طرح واپس لے لوگے جبکہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوچکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ۔
(آیت) ” وکیف تاخذونہ وقد افضی بعضکم الی بعض واخذن منکم میثاقا غلیظا (12) ” اور آخر تم اسے کس طرح واپس لے لوگے جبکہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوچکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ۔ “ یہاں افضی فعل کے مفعول کو متعین نہیں کیا گیا لفظ کو عام چھوڑ دیا گیا ‘ اس سے اس کے ہر قسم کے مدلول کا اظہار ہو سکتا ہے تمام مفاہیم پر اس کا اطلاق ہو سکتا ہے تمام اشارات ذہن میں گردش کرتے ہیں ‘ جسمانی لطف اندوزی بھی ‘ جذبات ومیلانات بھی ‘ احسانات اور تصورات بھی ‘ راز ونیاز بھی اور وہ تمام دلچسپیاں بھی جو میاں بیوی کے درمیان ہو سکتی ہیں ۔ انسانی زندگی کے شب وروز کی ہر شکل و صورت اس لفظ افضی کے مفہوم میں آتی ہے ۔ غرض وہ تمام باتیں پردہ خیال پر آجاتی ہیں جن کا تعلق میاں بیوی کے اس اہم ادارے کی گزشتہ زمان ومکان کے ساتھ وابستہ رہی ہیں ۔ دل کی ہر دھڑکن افضاء ہے ‘ ہر مشتاقانہ نظر افضاء ہے جسم کا ہر لمس افضاء ہے ‘ غم اور امید میں شرکت افضاء ہے ۔ حال ومستقبل کی ہر مشترکہ سوچ افضاء ہے ۔ ہر پچھلی سوچ افضاء ہے اور سب سے اعلی یہ کہ دونوں کی مشراولاد بھی افضاء ہے ۔ تصورات و احساسات کا یہ ڈھیر ہے ‘ جذبات ومیلانات کی یادوں کی اس تازگی کو صرف چند الفاظ میں اسکرین پر لایا گیا ۔ (آیت) ” وقد افضی بعضکم الی بعض ” اور تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوچکے ہو۔ “ ان یادوں کے ہوتے ہوئے اب مرد کے لئے بعض حقیر چیزوں کا مطالبہ کرنا نہایت ہی حقیر نظر آتا ہے اور اب شرم کے مارے وہ اس مفاداتی مطالبے سے باز آجاتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ ماضی قریب کی عملی زندگی کے خوشگوار تصورات کو اسکرین پر دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ اب اسے وقت فراق میں یہ یادیں اذیت دیتی ہیں اور وہ یہ احساس کرتا ہے کہ یہ تمام واقعات بادل نخواستہ ہیں ۔ ان یادوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسری بات ‘ ایک دوسرا فیکٹر بھی یاد دلایا جاتا ہے ۔ گویا اسکرین پر ایک دوسری جھلک آتی ہے ۔ ایک دوسرا رنگ نمودار ہوتا ہے ۔ (آیت) ” واخذن منکم میثاقا غلیظا ‘” اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں “۔ میثاق نکاح اللہ کے نام سے اور خطبے کے ساتھ نبی کی سنت کے مطابق ۔ یہ عہد نکاح ایک عظیم عہد جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک مومن کے نزدیک وہ بہت بڑی بات ہے ۔ یہ نکاح اہل ایمان کے مابین ہے اور اہل ایمان اسے ایک عظیم عقد بلکہ میثاق سمجھتے ہیں ۔ اس کا احترام ان پر الازم ہے ۔ آخر میں ایک فعل شفیع کے بارے میں قطعی حرمت آتی ہے ۔ یہ فعل جاہلیت میں مروج تھا ۔ بیٹے باپ کی منکوحہ سے نکاح کرلیا کرتے تھے اور بعض اوقاقت اس حق نکاح کی وجہ سے عورتیں معطل ہوکر رہ جاتی تھیں کہ بچہ بڑا ہو اور اپنے والد کی بیوی سے نکاح کرے اور اگر بڑا ہوتا تو وہ منکوحہ والد کو مال میراث تصور کرتا ، اسلام نے اس فعل کو سخت ترین الفاظ میں حرام قرار دیا ۔
Top