Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 49
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ بَلِ اللّٰهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُزَكُّوْنَ : پاک۔ مقدس کہتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ کو بَلِ : بلکہ اللّٰهُ : اللہ يُزَكِّيْ : مقدس بناتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان پر ظلم نہ ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
” تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو بہت اپنی پاکیزگی نفس کا دم بھرتے ہیں ؟ حالانکہ پاکیزگی تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور (انہیں جو پاکیزگی نہیں ملتی تو درحقیقت ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا ۔
(آیت) ” نمبر 49 تا 50۔ یہودیوں کا یہ قدیمی دعوی ہے کہ وہ اللہ کے مختار اور برگزیدہ لوگ ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس امانت کے اٹھانے اور فرائض رسالت اور دعوت کے لئے چنا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی خاطر فرعون اور ان کے ساتھیوں کو ہلاک کیا تھا ۔ بنی اسرائیل کو ارض مقدس کا وارث بنایا تھا ‘ لیکن اس کے بعد آنے والے ادوار میں انہوں نے سرے سے اسلامی نظام ہی کو ترک کردیا ۔ اور انہوں نے اس کرہ ارض پر عظیم نافرمانیوں اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب شروع کردیا ۔ ان گناہوں سے زمین بھی کانپنے لگی ۔ ان کے لئے ان کے احبار ‘ علماء نے ان چیزوں کو حلال کردیا جسے اللہ نے حرام کیا تھا ‘ اور ان پر ان چیزوں کو حرام کردیا جو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا تھیں ۔ انہوں نے ان غلط کاموں میں ان احبار کی پیروی شروع کردی تھی اور ان احبار نے اس طرح جو خدائی کا دعوی کیا تھا ‘ اس کا انہوں نے انکار نہ کیا حالانکہ حلال و حرام کا تعین تو اللہ کا کام تھا ۔ ان احبار نے اللہ کی شریعت میں تبدیلیاں کردیں تاکہ بادشاہوں اور شرفاء کو خوش کریں اور جمہور عوام کے رجحانات اور میلانات کی پیروی وچاپلوسی کریں ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے گویا ان کو اپنا رب بنا لیا تھا ۔ پھر انہوں نے سود کھانا شروع کردیا ۔ ان کا تعلق اپنے دین اور اپنے رب کے ساتھ کمزور ہوگیا ‘ ان جرائم اور ان کے ساتھ بیشمار دوسرے جرائم کے باوجود وہ بدستور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ اللہ کی برگزیدہ قوم ہیں ‘ اور یہ کہ ان کو آگ فقط چند دن تک چھوئے گی اور یہ کہ اللہ کے نزدیک صرف یہودی ہی نجات کے مستحق ہیں ۔ گویا دین صرف رشتہ داری تک محدود ہوگیا ہے یا دین میں بھی ذاتی تعلقات اور دوستیاں کام کرتی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ بہت ہی بلند ہے ۔ اس لئے کہ اللہ کو اپنے بندوں میں سے کسی کے ساتھ نہ قرابت داری ہے اور نہ نسبت ہے۔ اللہ کے بندوں کا تعلق صرف درست عقائد کی وجہ سے قائم رہ سکتا ہے ۔ عمل صالح کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے اور اسلامی نظام حیات پر ثابت قدمی سے رہ سکتا ہے ۔ جس شخص نے اس تعلق میں خلل ڈالا ‘ اس پر اللہ کا غضب نازل ہوا ۔ اور اللہ کا غضب اس وقت بہت ہی جوش میں آتا ہے جب اللہ ایک گمراہ قوم کو ہدایت بخشے مگر وہ قوم ہدایت کے مقابلے میں انحراف کی راہ اختیار کرلے ۔ ان یہودیوں کے حالات آج کے نام نہاد مسلمانوں سے مختلف نہیں ہیں ۔ ‘ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ امت محمدیہ میں سے ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ لازما ان کی مدد کرے گا اور یہودیوں کو ان کی سرزمین سے نکالے گا ‘ جبکہ وہ مکمل طور پر اسلام سے نکل گئے ہیں ‘ حالانکہ اسلام ان کا دین اور نظام زندگی ہے ۔ لیکن انہوں نے اسے اپنی زندگیوں سے نکال دیا ہے اور وہ اللہ کی کتاب کے مطابق کوئی فیصلہ نہیں کرتے ۔ نہ اپنے مقدمات میں نہ اپنے اقتصادی مسائل میں ۔ نہ اپنے اجتماعی معاملات میں اور نہ اپنے آداب و عادات میں ۔ ان کا اسلام صرف مسلمانوں جیسے نام رکھنے تک محدود رہ گیا ہے ۔ اور یہ کہ وہ مسلمانوں کے ملک میں پیدا ہوئے ہیں جس میں وہ کبھی زندہ رہ رہے تھے اور کبھی انہوں نے اس میں دین اسلام قائم کیا تھا اور اسلامی نظام کے مطابق تمام فیصلے کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ رسول خدا ﷺ کے سامنے تعجب کا اظہار فرما رہے ہیں کہ یہ یہودی بھی عجیب ہیں کہ وہ اپنے آپ کو بہت ہی پاک قوم سمجھتے ہیں ۔ لیکن آج کے مسلمانوں کا معاملہ تو اس تعجب انگیز صورت حالات سے بھی زیادہ تعجب انگیز ہے کیوں کہ ان کی اخلاقی حالت اس زمانے کے یہودیوں سے بھی زیادہ پست ہوچکی ہے ۔ یہ لوگوں کا کام نہیں ہے کہ وہ میاں مٹھو بن کر اپنی پاک دامنی کا ڈھنڈورا پیٹیں اور یہ شہادت کود اپنے حق میں دیں کہ وہ نیک ہیں ‘ اللہ کے قریبی ہیں اور شعب مختار ہیں ۔ بلکہ یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ فیصلہ دے کہ اللہ کے نزدیک پاک اور برگزیدہ کون ہے ۔ اس لئے کہ وہ دلوں اور عملوں کو خوب جانتا ہے اور لوگوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ۔ اگر وہ اللہ کی طرف صحیح معنوں میں متوجہ ہوجائیں نیک عمل کریں اور یہ تیر تکے چلانا چھوڑ دیں ۔ اگر وہ ادعاء چھوڑ دیں اور عمل کرتے ہیں نہایت ہی ادب اور حیاء کے ساتھ اور بغیر پاکی دامن کے پروپیگنڈے کے اور بغیر فخر و غرور کے تو اللہ کے ہاں ان کے کسی عمل کا غبن نہ ہوگا ‘ کوئی عمل بھول چوک کی وجہ سے حساب سے ساقط نہ ہوگا اور نہ ان کا کوئی حق مارا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ خود یہودیوں کے خلاف شہادت دیتے ہیں کہ وہ جو دعوے کر رہے ہیں کہ وہ برگزیدہ لوگ ہیں اور ان سے اللہ بہرحال راضی ہے تو یہ لوگ اللہ پر بہت بڑا افتراء باندھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اس دعوائے باطل کی مذمت کرتے ہوئے اس طرح اسے لوگوں کی نظروں میں ساقط گردانتے ہیں ۔ (آیت) ” انظر کیف یفترون علی اللہ الکذب وکفی بہ اثما مبینا (4 : 50) ” دیکھو تو سہی ‘ یہ اللہ پر بھی جھوٹے افتراء گھڑنے سے نہیں چوکتے اور ان کے صریحا گناہ گار ہونے کے لئے یہی ایک گناہ کافی ہے ۔ ذرا سوچئے تو سہی ‘ ہم لوگ جو اسلام کا دعوی کرتے ہیں ‘ اس لئے کہ ہمارے نام مسلمانوں جیسے ہیں اور ہم ایسی سرزمینوں میں بستے ہیں جہاں کبھی مسلمان بسا کرتے تھے تو یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے ۔ ہم لوگ اسلام کو اپنی زندگی کے کسی بھی شعبے میں نافذ نہیں کرتے لیکن اسلام کا دعوی کرتے ہیں ۔ اپنی سیرت اور صورت میں ہم اسلام کی شکل کو مسخ کررہے ہیں اور اپنی عملی زندگی سے اسلام کے خلاف شہادت دے رہے ہیں اور پھر بھی ہم دعوی کرتے ہیں کہ ہم برگزیدہ لوگ ہیں اور نبی کریم ﷺ کے امتی ہیں اگرچہ ہم نے اپنی عملی زندگی سے اسلام کو مکمل طور پر بےدخل کردیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری صورت حال بھی اس صورت حالات سے مختلف نہیں ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ حضرت محمد ﷺ کو تعجب کے ساتھ متوجہ فرماتے ہیں اور ایسے دعوے کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھتے ہیں اور ایک عظیم گناہ کا ارتکاب کر رہے ہیں نعوذ باللہ ۔ یاد رکھئے کہ اللہ کا دین ایک نظام حیات ہے ۔ اور اللہ کی اطاعت کے معنی یہ ہیں کہ پوری زندگی میں اس نظام کی حکمرانی قائم کی جائے ۔ اللہ کا قرب اس وقت نصیب ہوگا جب اللہ کی اطاعت کی جائے ۔ ذرا غور کیجئے کہ ہم اللہ ‘ اس کے دین اور اس کے نظام زندگی سے کس قدر دور ہیں ۔ پھر یہ بھی غور کیجئے کہ ہمارا اور یہودیوں کا حال بالکل ایک جیسا ہے جن کے حال پر اللہ اور رسول تعجب کرتے ہیں ۔ ان کے بےبنیاد دعوے کو اللہ پر افتراء سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اس لئے یہودیوں کے خلاف ضابطہ ہمارے خلاف ضابطہ ہوگا ۔ ان کا حال اور ہمارا حال ایک جیسا ہوگا ۔ اور یاد رکھئے کہ اللہ کی کسی کے ساتھ کوئی رشتہ داری نہیں ہے اور نہ کسی کے ساتھ دوستی ہے ۔ سلسلہ کلام بدستور انہی لوگوں کے بارے میں جاری ہے جو لوگ اپنے آپ کو برگزیدہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ حق کے مقابلے میں باطل پر ایمان لاتے ہیں ۔ ایسے احکام کو تسلیم کرتے ہیں جو از روئے شریعت مستند نہیں ہیں اور ان احکام کے لئے کوئی ایسا ضابطہ نہیں ہے جو ان کو ظلم اور زیادتی سے باز رکھ سکے ۔ یہ ہے ایمان بالجبت والطاغوت جبکہ وہ شرک اور مشرکین کے حق میں یہ گواہی بھی دے رہے ہیں کہ یہ لوگ مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں حالانکہ اہل ایمان اللہ کی کتاب اللہ کی شریعت اور اس کے نظام حیات پر یقین رکھتے ہیں ۔ ان کے حال پر اس تعجب خیزی اور ان کی ذلالتوں کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر شدید تنقید فرماتے ہیں اور ان کو ذلیل و خوار دیتے ہیں ۔ ان کے مزاج کے خفیہ گوشے کھولتے ہیں کہ وہ سخت حاسد اور بخیل ہیں ۔ ان کے طرف سے دین ابراہیمی سے منحرف ہو کر موجودہ موقف اپنانے کے اسباب بتائے جاتے ہیں ‘ حالانکہ وہ دین ابراہیمی پر بےحد فخر کرتے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر اپنے شجرہ نسب ختم ہونے پر بھی وہ نہایت ہی فخر کرتے تھے ۔ یہ تنقید اسی حتمی فیصلے پر اختتام پذیر ہوتی ہے کہ ان کے لئے جہنم کی دہکتی ہوئی آگ کافی ہے ۔
Top