Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
ایمان والو ! تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم پرہیزگار ہوجائو۔
ترکیب : یا حرف ندا الذین آمنوا صلہ و موصول منادی کتب فعل مجہول الصیام مفعول مالم یسم فاعلہ کما موضع نصب میں ہے صفت ہے کتب کی ای کتبنا کما کتب ایاما موصوف۔ معدودات صفت یا یہ منصوب ہے صوموا مقدر سے یا الصیام سے فمن شرطیہ کان کا اسم ضمیر ہے جو من کی طرف پھرتی ہے اور مریضا اس کی خبر معطوف علیہ او علی سفر معطوف موضع نصب میں اے او مسافرا فعدۃ مبتداء والخبر محذوف ای علیہ من ایام اخر صفت ہے عدۃ کی۔ پس یہ مجموعہ جو اب شرط ہے علی الذین یطیقونہ جملہ خبر فدیۃ مبدل منہ طعام مسکین بدل مجموعہ مبتداء جملہ معطوف برجملہ سابقہ۔ تفسیر : قصاص اور وصیت حیات دنیاوی کا سبب تھا اور کلام الٰہی میں جس طرح حیات دنیا کی اصلاح فرمائی گئی اسی طرح حیات ابدی کی بھی ضرور رعایت ہونی چاہیے۔ اس لیے یہاں اس چیز کا حکم دیا کہ جو حیات ابدی کا عمدہ ذریعہ ہے یعنی روزہ کس لیے کہ انسان جب صبح سے شام تک نفس کے تینوں خواہشوں کھانے ‘ پینے ‘ جماع سے رکے گا اور اسی کو صوم شرعی کہتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ اپنے دل کو ذکر الٰہی ٗ تلاوت اور نماز اور مراقبہ اور اعتکاف میں لگا دے گا تو بیشک اس کی روح کو قوت ہوگی اور اس جسم کو چھوڑنے کے بعد یہی حیات ابدی اور عالم قدس میں زندہ رہنے کا سبب ہوگا اور نیز احکام مذکورہ بالا کی تعمیل جسمانی خواہشوں کے خلاف ہے اور جب تک انسان اپنی نفسانی خواہشوں سے مقابلہ کرنے کا خوگر نہیں ہوتا تو اصول حسنات اور صبر پر بھی قادر نہیں ہوتا بلکہ دنیاوی ترقی کے لیے بھی مصائب برداشت نہیں کرسکتا اس لیے روزہ کا حکم دیا تاکہ روح قوی ہوجائے جسم کی خواہش اور تیزی توڑنے کے لیے آسمانی ہدایت میں قدیم سے ریاضت کا حکم ہے۔ اسی لیے فرماتا ہے کہ اے مسلمانو ! تم پر روزے فرض ہوئے جس طرح کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض ہوئے تھے تاکہ تم نفس کشی کے عادی ہو کر متقی ہوجائو اور یہ روزہ تم پر ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ چند روز اور اس پر بھی تمہارے لیے یہ آسانی ہے کہ اگر کوئی بیمار یا مسافر ہو اور روزہ کی طاقت نہ رکھے تو اس کے بدلہ میں اور دنوں میں گن کر روزہ رکھ لے اور اس پر بھی تمہارے لیے یہ رخصت ہے کہ جو لوگ تم میں سے بڑی مشقت کے ساتھ روزہ رکھ سکتے ہوں جیسا کہ بڈھا تو وہ ہر روزہ کے بدلہ میں ایک مسکین کا کھانا کہ جو اس کو دو وقت کافی ہو دیوے اور جو اپنی طرف سے زیادہ دو بہتر ہے اور جو تکلیف اٹھا کر بھی روزہ رکھ لو تو بہتر ہے۔ فوائد : (1) کتب علیکم الصیام سے کیا مراد ہے ؟ رمضان کے روزے یا اور روزے۔ معاذ اور قتادہ اور عطا وغیرہم علماء کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ اس سے مراد علاوہ رمضان کے اور روزے ہیں جو رمضان کی فرضیت سے پیشتر فرض تھے۔ پھر رمضان فرض ہونے سے جیسا کہ آیت آیندہ میں ہے ٗ ان کی فرضیت جاتی رہی اور وہ ہر مہینے میں تین روزے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان میں محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ بھی تھا اور دلیل ان کی یہ ہے کہ اس آیت میں جس کو طاقت روزہ رکھنے کی ہے اس کو فدیہ دینے کی رخصت ہے۔ حالانکہ رمضان کے روزوں کی نسبت یہ حکم نہیں کہ فدیہ دے کر روزہ نہ رکھے اور نیز اس آیت میں مسافر اور مریض کا حکم ہے اور اس سے پچھلی آیت میں بھی کہ جس میں رمضان کے روزے میں مسافر اور مریض کا حکم مذکور ہے، پس اگر یہاں صیام سے مراد رمضان ہو تو بےفائدہ عبارت مکرر ہوجاوے جمہور محققین کہ جن میں ابن عباس بھی ہیں ٗ یہ کہتے ہیں کہ اس جگہ صیام سے مراد رمضان ہی کے روزے ہیں مگر اولا خدا تعالیٰ نے کتب علیکم الصیام فرمایا ٗ پھر اس کے بعد ایاماً معدودات اس کی تشریح کی پھر اگلی آیت شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن میں تو خوب تعین کردی جس طرح کہ اس نے اولاً کما کتب علی الذین من قبلکم کہہ کر اطمینان دلا دیا تھا کہ یہ سلف صالحین کا قدیم دستور ہے۔ ایاماً معدودات کہہ کر یہ تسلی کردی کہ ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ چند روز کے لیے پھر مسافر اور مریض کو رخصت دی اور جس سے نہایت مشقت سے ادا ہوتے ہوں ٗ اس کو فدیہ کی اجازت دے دی اور ان کی دلیل کا یہ جواب ہے کہ یطیقونہ کے یہ معنی ہیں کہ بہ تکلف و بمشقت روزہ رکھ سکتے ہوں۔ چناچہ عکرمہ اور ایوب اور عطا کی قرأت میں یطوقونہ آیا ہے۔ اے یحشمونہ یعنی یکلفونہ اور یہ اس لیے کہ وسعت طاقت کے اوپر ایک اور شے ہے۔ اس صورت میں اب بھی رمضان کے روزوں کی نسبت اس شخص کے لیے کہ جو مشقت سے روزہ رکھ سکے ٗ یہی حکم ہے کہ وہ ہر روزے کے بدلے میں فدیہ دیوے۔ یہ شیخ فانی کے لیے ہے۔ امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی جب روزہ رکھنے میں عاجز ہو وے تو ان کا بھی یہی حکم ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ دودھ پلانے والی اور حاملہ کے لیے فدیہ دینے کا حکم اس لیے نہیں کہ یہ پھر قضا کے روزے رکھ سکتے ہیں۔ بخلاف شیخ فانی کے یہ فدیہ کا حکم خاص اسی کے لیے ہے۔ پس آیت یطیقونہ کو آیت ومن شہد منکم الشہر فلیصمہ سے منسوخ قرار دینا بےفائدہ ہے اور اسی طرح لامقدر ماننا اور ہمزہ کو سلب کے لیے کہنا بھی لاحاصل ہے۔ دوسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الذین یطیقونہ سے مراد مسافر اور بیمار ہیں اور ان کی دو حالت ہیں۔ ایک یہ کہ روزے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس کا حکم تو خدا نے فعدۃ من ایام اخر میں ظاہر کردیا کہ اور دنوں میں روزہ رمضان کی قضا ادا کرلیں۔ دوسری حالت طاقت کی ہے ٗ سو اس میں ان کے لیے یہ حکم ہے فدیۃ طعام مسکین کہ فدیہ دے کر چاہیں روزہ نہ رکھیں یعنی دونوں باتوں میں اختیار ہے (کبیر) تیسرا ایک اور بھی جواب ہے کہ رمضان میں ابتدائِ اسلام میں مقیم صحیح کو بھی کہ جو روزے کی طاقت رکھتے تھے ٗاختیار تھا خواہ روزہ رکھیں خواہ فدیہ دے دیں۔ مگر اگلی آیت سے یہ حکم منسوخ ہوگیا اور مکرر ہونے کا یہ جواب ہے ابتداء میں چونکہ تندرست مقیم کے لیے فدیہ اور روزے کا اختیار تھا اور مسافر اور مریض کے لیے افطار کی رخصت تھی تو یہاں سے یہ خیال ہوسکتا تھا کہ مسافر و مریض پر قضا اور فدیہ نہیں کیونکہ یہ مشقت میں ہیں۔ اس لیے خدا نے مسافر اور مریض کا حال بھی بیان فرما دیا کہ ان پر قضا واجب ہے۔ (2) کما کتب علی الذین من قبلکم میں تشبیہ نہ عدد میں ہے نہ وقت میں بلکہ صرف ایجاب میں یعنی جس طرح تم پر روزے واجب ہوئے اسی طرح تم سے پہلے لوگوں پر بھی واجب ہوئے تھے نہ یہ کہ جس طرح تم پر تیس روزے رمضان کے واجب ہوئے ان پر بھی تیس رمضان کے واجب تھے اور من قبلکم سے اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ مراد ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل کتاب کے ہاں بھی روزے واجب تھے۔ چناچہ تورات کی تیسری کتاب کے 6 باب درس 29 اور باب 23 درس 27 و 29 سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں پر ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کا روزہ رکھنا واجب تھا کیونکہ اس میں لکھا ہے کہ جو کوئی اس روز روزہ نہ رکھے گا اپنی قوم سے منقطع ہوجاوے گا اور اعمال حواریان کے 2 باب درس 9 سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی بھی یہ روزے رکھا کرتے تھے۔ علاوہ اس کے چالیس روز تک کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے روزے رکھے جیسا کہ کتاب خروج کے 34 باب سے معلوم ہوتا ہے اور کتاب دانیال کے باب دس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دانیال نے تین ہفتے کے روزے رکھے اور اول کتاب السلاطین کے 19 باب 8 درس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت الیاس (علیہ السلام) کوہ حوریب کو گئے تھے تو انہوں نے چالیس دن رات روزے رکھے۔ اور انجیل متی کے 4 باب اور انجیل لوقا کے 4 باب درس 13 سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی جبکہ وہ بیابان میں تھے ٗ چالیس دن رات کے روزے رکھے تھے۔ علاوہ اس کے بائبل کے مختلف مقامات سے اور بھی روزے رکھنا اہل کتاب کا ثابت ہے اور اسی لیے اب بھی یہود اور متدین نصاریٰ میں روزہ رکھنے کا دستور ہے۔ ہاں اب جو یورپ کا الحاد جوش زن ہے البتہ اس کی وجہ سے رسم روزہ و نماز عیسائیوں میں سے اٹھ گئی اور یوماً فیوماً اٹھتی جاتی ہے بلکہ ان کی تقلید میں نیچر مفسر بھی اپنی کتاب کے صفحہ 231 میں روزے کی نہایت اہانت کر رہے ہیں جس کا ایک فقرہ یہ ہے عرب کے لوگ یہودیوں اور عیسائیوں کو دیکھتے تھے کہ خدا کے خوش کرنے کے خیال سے اور اپنے پیغمبر کی پیروی کی نظر سے روزہ رکھتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے اس رسم کو جاری رکھنے کی اجازت دی انتہٰی ملخصاً اور اس سے پیشتر اس صفحہ میں روزے کو بدنی ریاضت کہہ آئے ہیں اور جملہ بدنی ریاضتوں کی نسبت صفحہ 230 میں یہ کہتے ہیں قولہ غرض کہ تمام جسمانی ریاضتوں کا اسی غلط خیال پر رواج ہوا ہے۔ وہ یہ کہ انسان کی زندگی آسائش سے بسر کرنی خدا کو پسند نہیں اور یہ ایک عجیب خیال تھا انتہٰی ملخصاً ۔ (3) فمن کان منکم مریضاً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر جس مرض سے روزہ کا افطار کرنا درست ہے جمہور محققین کے نزدیک وہ ہے کہ جس میں روزہ رکھنے سے ضرر جان یا زیادتی مرض متصور ہو نہ ہر مرض کیونکہ اس مقام پر جو لفظ مریض بولا گیا ہے تو اہل زبان اپنے قرائن سے اس سے وہی مرض سمجھتے ہیں کہ جس کا ہم نے ذکر کیا۔ نہ عام مرض۔ سفر کے معنی لغت میں کشف کے ہیں یعنی کھل جانا اور چونکہ سفر سے لوگوں اور ملکوں اور زمین کا حال کھلتا ہے اس لیے اس کو سفر کہتے ہیں اور سفیر چونکہ دو شخصوں کی پیچیدگی کھول دیتا ہے اس لیے بھی اس کو سفیر کہتے ہیں اور اسی لیے بولتے ہیں اسفر الصبح اور کتاب چونکہ معانی کھول دیتی ہے اس لیے اس کو سفر کہتے ہیں اور اسی لیے کہتے ہیں اسفار صبح کی روشنی میں آنا۔ مگر شرع میں اس جگہ سفر سے مراد اقل مرتبہ تین منزل کا سفر ہے کس لیے کہ نبی ﷺ نے مسح کے بارے میں فرمایا ہے کہ مقیم ایک رات دن مسح کرے اور مسافر تین رات دن اس سے معلوم ہوا کہ سفر اقل مرتبہ تین رات دن کے فاصلہ سے ہوتا ہے اس لیے آنحضرت ﷺ نے سفر کو علت مسح قرار دیا اور مسح کو معلول بنایا اور معلول علت سے زیادہ نہیں ہوتا۔ امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ سولہ فرسخ کا فاصلہ ضرور ہے اور ہر فرسخ تین میل کا اور ہر میل بارہ ہزار قدم کا ہے کیونکہ ہاشم جدّ رسول اللہ ﷺ نے جب جنگل ناپا تو میل کو بارہ ہزار قدم قرار دیا اور امام مالک و احمد و اسحاق کا بھی یہی مذہب ہے۔ مگر دائود ظاہری نے مطلق سفر مراد رکھا ہے اور اس کی تقلید سے قاضی شوکانی نے در ربہیّہ میں یہی فتویٰ دیا ہے۔ پس ان کے مذہب میں تو کوس کیا آدھے کوس تک جانے میں بھی روزہ نہ رکھے اور یہ بالکل غلط ہے۔
Top