Tafseer-e-Haqqani - Yaseen : 77
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا خَلَقْنٰهُ : کہ ہم نے پیدا کیا اس کو مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑالو مُّبِيْنٌ : کھلا
کیا آدمی نہیں جانتا کہ ہم نے اس کو منی کے ایک قطرہ سے بنایا ہے، پھر وہ کھلم کھلا دشمن بن کر جھگڑنے لگا
ترکیب : فاذا ھو الجملۃ معطوفۃ علی الجملۃ المنفیۃ قبلھا داخلۃ معھا فی حیز الانکار المفہوم من الاستفہام و المعنی العجب من ھذا المخاصم الدنی یجادل الجبار القہار و نسی اصلہ و خلقہ من ای شیء خلق و کیف صار اولیس الھمزہ للانکار والوا و للعطف علی مقدر من نظائرہ رمیم فعیل بمعنی مفعول یستوی فیہ المذکر والمؤنث۔ تفسیر : اولم یر الانسان الخ یہاں سے ثبوت حشر پر دلائل قائم کرتا ہے اور منکرین حشر کو انہی کی ذات میں اپنی قدرت و کمال کا نمونہ دکھاتا ہے کہ انسان یقینا جانتا ہے کہ خدا نے مجھ کو ایک قطرہ پانی سے پیدا کیا ہے، جو متشابہ الاجزا و متحد الحقیقۃ و الاسم ہے، پھر اس میں سے ہڈی اور گوشت اور پوست اور سر ‘ پائوں ‘ دل و دماغ، آنکھ ناک کیسے مختلف الاسم و الحقیقۃ اجزاء پیدا کردیے اور ہر ایک میں جداگانہ قوت و تاثیر رکھی اور اس کے تمام کیل و پرزے جوڑ کر اس کو بڑا گویا اور فہیم بنادیا، یہ گویا ہوتے ہی بڑے دشمن، بڑے مقرر منکر حشر بن گئے، طرح طرح کی حجتیں نبیوں اور اس کے کلام کے مقابلہ میں کرنے لگے،
Top