Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
(اے نبی ! ) کیا آپ نے لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جن کو کتاب سے (کچھ بھی) بہرہ ور کیا گیا ہے وہ گمراہی مول لے رہے ہیں اور تم کو بھی راہ سے بہکانا چاہتے ہیں
ترکیب : الم تر فعل انت فاعل الی الذین مفعول اول یشترون مفعول ثانی۔ من الذین ھادوا خبر ہے مبتداء محذوف کی اے الہم۔ من الذین الخ یحرفون حال ہے فاعل ھادوا سے یا یوں کہو کہ من الذین نصیرا سے متعلق ہے۔ والذین اوتوا نصیبا کا بیان بھی ہوسکتا ہے۔ عن مواضعہ متعلق ہے یحرفون سے ویقولون معطوف ہے ‘ یحرفون پر غیر مسمع حال ہے اور قولا محذوف کی صفت بھی ہوسکتا ہے۔ تفسیر : جبکہ تیمم کا مسئلہ پہلی آیت میں ہوا تو یہودی علماء نے اپنے ہاں کے سخت احکام کے مقابلہ پر اس پر تمسخر کیا اور کہنے لگے پانی سے نجاست کا دور ہونا تو ایک معقول بات تھی بھلا خاک پر ہاتھ مار کے ہاتھ منہ پر پھیرنے سے کیا ہوتا ہے ؟ اس سے معلوم ہوا کہ یہ شخص یعنی آنحضرت ﷺ نبی برحق نہیں۔ اس کا یہ زور شور چند روز میں مٹ جائے گا بالخصوص ان میں سے دو یہودی عالم عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کے پاس جا کر اسلام کی ہجو کیا کرتے اور مسلمانوں کے دلوں میں شکوک ڈالا کرتے تھے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کا جواب رواں آیات میں نازل فرمایا اور چونکہ اول اس سورة سے یہاں تک احکام بیان ہوئے تھے اس جگہ سے مخالفوں کے شکوک و شبہات کا رد اور جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب شروع ہوتی ہے تاکہ ایک قسم کے کلام سے مخاطب کی طبیعت پر گرانی نہ پیدا ہو اور اس لئے قرآن میں یہ طریقہ رکھا گیا کہ ایک علم کے بعد دوسرا علم بیان ہوتا رہتا ہے۔ فرماتا ہے کہ اے نبی ! دیکھو جن کو کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا یعنی فی الجملہ ان کو الہامی شریعت اور کلام انبیاء سے آگاہی ہے۔ وہ باوجود اس کے دین حق اور اس کے سچے رہبروں پر طعن کرکے گمراہی خرید رہے ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ خود گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے یہ دونوں وصف جس میں ہوں خدا کی پناہ اس کی شقاوت اور بدبختی کا کیا ٹھکانا ہے۔ پھر فرماتا ہے وہ تمہارے دشمنوں کو جانتا ہے۔ وہ تمہارا حامی ہے تم کچھ ان سے خوف نہ کرو اس کے بعد خصوصاً یہود کی چند عادت بد ذکر فرماتا ہے تاکہ یہ بات معلوم ہو کہ وہ کونسی باتیں ہیں جن سے گمراہی خرید رہے ہیں اور خود گمراہ ہو کر اوروں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ (اول) یحرفون الکلم عن مواضعہ کی ضمیر کلم کی طرف راجع ہے۔ گرچہ قیاس ظاہری بھی چاہتا تھا کہ کلم چونکہ کلمۃ کی جمع مونث ہے جس کی طرف مونث کی ضمیر مواضعہا پھر انی چاہیے تھی مگر چونکہ اس جمع کے حروف مفرد سے کم ہیں پس ایسی جمع میں تذکیر و تانیث دونوں طرح ضمیریں جائز ہیں۔ قالہ الواحدی تحریف کی بحث : تحریف بدلنا ‘ کم زیادہ کرنا یا تاویل فاسد کرنا خواہ زبانی خواہ کتاب میں۔ یہود کے اقبال بلکہ دین کی عمر طبعی ہوچکی تھی۔ اس لئے ان میں ایسی ایسی باتیں مروج ہوگئی تھیں اور یہ بات صدہا سال سے ان میں تھی، ان کے علماء دنیاوی طمع سے ہر ایک قسم کی تحریف اور تاویلات فاسدہ کرتے تھے۔ چناچہ جن مقامات تورات میں اب تک حضرت مسیح (علیہ السلام) اور حضرت محمد ﷺ کی خبریں پائی جاتی ہیں ان کے عجیب و غریب معانی لگا کر ان دونوں رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور نفس کتاب میں بھی انہوں نے ایسا کیا کہ عہد عتیق کے کسی نسخہ کا بھی اعتبار منصف مزاج کے نزدیک نہیں رہا۔ یہ مانا کہ حوادث دہر اور مخالف بادشاہوں کے حملوں نے اور حفظ کے دستور نہ ہونے اور قلت کاغذات و کتابت نے بھی عہد عتیق بلکہ عہد جدید کو الٹ پلٹ کردیا مگر کاتبوں کی خود غرضیوں اور سہونے بھی ہزاروں اختلافات پیدا کردیے اور پھر عیسائیوں میں بھی وہی بات پیدا ہوگئی تھی کیونکہ پیشتر وہ بھی یہودی الاصل تھے۔ یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کے عہد میں اس طوفانِ بےتمیزی کا کچھ ٹھکانا نہ رہا تھا۔ اس لئے ان کے علماء بوقت استدلال اپنی کتابوں سے کسی کو پتا ہی نہ لگنے دیتے تھے۔ گرچہ عیسائی علماء نے بارہویں تیرہویں صدی عیسوی میں بائبل کی مرمت کرنے میں بہت کچھ کوشش کی مگر جب مقابلہ کیا تو پھر بھی ہزاروں ہی اختلافات باقی رہ گئے۔ آج کل عیسائی مشنری اہل اسلام کے مقابلہ میں دیدہ دانستہ اس تحریف کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں بھلا کوئی اپنی مذہبی کتاب میں ایسا کرسکتا ہے اور جو کسی نے کیا تو اور لوگ اس کی خیانت کب چلنے دیتے ہیں ؟ یہ انکار شاید ناواقف لوگوں کو گونہ تردد میں ڈالتا ہو مگر جو بائبل سے بخوبی واقف ہیں ان کے روبرو یہ ہٹ دھرمی اس بات کا کامل ثبوت ہے کہ اب بھی اس قوم میں عادت قدیمانہ کا اثر باقی ہے۔ اس مختصر بحث میں گنجائش نہیں کہ میں ہر ایک قسم کی تحریف پر سینکڑوں شواہد پیش کروں مگر کسی قدر اقوال نقل کرکے نمونہ دکھاتا ہوں تاکہ ناظرین کو تصدیق ہو۔ شاہد اول : متی نے اپنی انجیل کے دوسرے باب تیئسویں آیت میں لکھا ہے کہ ” یوسف عیسیٰ کو مصر سے لے کر ایک شہر میں (جس کا نام ناصرہ تھا جا کے رہا تاکہ وہ جو نبیوں نے کہا تھا ٗپورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا “ حالانکہ اب کسی نبی کی کسی کتاب میں نہیں کہ عیسیٰ پیدا ہو کر ناصری کہلائے گا اور اس کے لئے ممفرڈ رومن کیتھولک نے اپنے سوالات مطبوعہ لندن 1843 ء میں لکھا ہے کہ اس مقام پر کریزاسٹم اپنی نویں تفسیر لکھتا ہے کہ یہود نے کتب انبیاء کو نہ صرف غفلت بلکہ بددیانتی اور عناد سے جلا دیا اور کسی میں تبدل کردیا۔ انتہٰی کلامہ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا۔ شاہد دوم : کتاب خروج کے اکیسویں باب آٹھویں آیت عبرانی تورات کے متن میں ہے کہ جو کوئی اپنی منگیتر سے ناراض ہو اس کو روا نہیں کہ اجنبی قوم کے ہاتھ بیچے بلکہ فدیہ لے۔ اس کے حاشیہ کے ایک نسخہ میں برخلاف لکھ دیا اور اسی طرح کتاب احبار کے 25 باب تیس (30) آیت میں ہے کہ جو کوئی شہر پناہ کے اندر اپنا گھر فروخت کرکے برس بھر تک نہ چھڑائے گا تو ہمیشہ کے لئے مشتری کا ہوگا وہ یو بل کے سات میں چھوٹ نہ جاوے گا۔ اس کے حاشیہ میں ایک نسخہ لکھا ہے کہ جس میں اثبات ہے۔ اب دیکھئے گا کس کا اعتبار کیا جاوے گا۔ احکام میں بھی تحریف پائی گئی۔ شاہد سوم : انجیل متی کے 27 باب 35 درس میں یہ فقرہ کہ مسیح کو سولی دی اور اس کے کپڑوں پر چھٹی ڈال کر ان کو بانٹ لیا تاکہ نبی کا کہا پورا ہو۔ الحاقی گریسباخ نے بھی اس کا اقرار کیا ہے اور ہارن نے اپنی تفسیر کے صفحہ 330 و 31 جلد ثانی میں دلائل سے اس کا الحاق ہونا بیان کیا ہے مگر اب تک یہ فقرہ انجیل میں موجود ہے۔ یوحنا کے اول خط کے 5 باب 7 درس میں یہ فقرہ جو تثلیث کی بنیاد ہے محققین بالخصوص ہارن اور گریسباخ اور آدم کلارک اور شولز کے نزدیک قطعاً الحاقی ہے اور وہ یہ ہے کہ تین ہیں جو آسمان پر گواہی دیتے ہیں۔ باپ اور کلام اور روح القدس اور یہ تنیوں ایک ہیں۔ الخ بائبل مطبوعہ مرزا پور کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ یہ الفاظ کسی قدیم نسخہ میں نہیں پائے جاتے حالانکہ متن میں درج ہیں زیادہ تحقیق منظور ہو تو مقدمہ تفسیر دیکھئے۔ (دوم) یہود آنحضرت ﷺ کی محفل میں آکر زبان موڑ کر تمسخر کی نیت سے یہ کلمات کہہ جاتے تھے۔ سمعنا وعصینا کہ ہم نے سن لیا اور نہ مانا واسمع غیر مسمع کہ سن ان سنی بات یعنی تجھ کو مکروہ باتیں سننی نصیب ہوں سمعنا تو پکار کر کہتے عصینا دل میں اسی طرح اسمع پکار کر غیر مسمع آہستہ سے وراعنا زبان دبا کر جس سے راعینا پیدا ہوتا تھا جو گالی ہے اور تفاخر کرتے تھے کہ ہم یہ باتیں کہہ آتے ہیں اگر وہ نبی ہوتے تو معلوم کرلیتے۔ اس لئے آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے خبردار کردیا اور ان بےادبوں کی حرکات ناشائستہ پر صبر اور برداشت کرنے کا حکم دیا اور ان بےادبوں کو ادب سکھایا کہ بجائے اس کے یوں کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا مگر یہ شقی ازلی محروم از سعادت ہیں۔
Top