Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Kahf : 28
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْ١ۚ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا
وَاصْبِرْ : اور روکے رکھو نَفْسَكَ : اپنا نفس (اپنا آپ) مَعَ : ساتھ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ : وہ لوگ جو پکارتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب بِالْغَدٰوةِ : صبح وَالْعَشِيِّ : اور شام يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَجْهَهٗ : اس کا چہرہ (رضا) وَلَا تَعْدُ : نہ دوڑیں، نہ پھریں عَيْنٰكَ : تمہاری آنکھیں عَنْهُمْ : ان سے تُرِيْدُ : تم طلبگار ہوجاؤ زِيْنَةَ : آرائش الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَلَا تُطِعْ : اور کہا نہ مانو مَنْ : جو۔ جس اَغْفَلْنَا : ہم نے غافل کردیا قَلْبَهٗ : اس کا دل عَنْ : سے ذِكْرِنَا : اپنا ذکر وَاتَّبَعَ : اور پیچھے پڑگیا هَوٰىهُ : اپنی خواہش وَكَانَ : اور ہے اَمْرُهٗ : اس کا کام فُرُطًا : حد سے بڑھا ہوا
اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور اسکی خوشنودی کے طالب ہیں ان کے ساتھ صبر کرتے رہو اور تمہاری نگاہیں ان میں سے (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائش زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا
(28) اور آپ اپنے کو ان لوگوں کے ساتھ مقید رکھا کیجیے جو صبح وشام اپنے رب کی عبادت محض اس کی رضا اور خوشنودی کے لیے کرتے ہیں جیسا کہ حضرت سلمان فارسی ؓ اور دنیوی زندگی کی رونق کے خیال سے آپ کی آنکھیں ان سے ہٹنے نہ پائیں، اور ایسے شخص کی بات نہ مانیے جس کے قلب کو ہم نے اپنی توحید سے غافل کردیا ہے اور دو بتوں کی پوجا میں مصروف ہے اور اس کی یہ باتیں سب اکارت اور برباد ہیں یہ آیت کریمہ عیینہ بن حصن فزاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ شان نزول : (آیت) ”۔ ولا تطع من اغفلنا“۔ (الخ) ابن مردویہ ؒ نے جریر ؒ اور ضحاک ؒ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں روایت کیا ہے، کہ یہ آیت امیہ بن خلف کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ اس نے رسول اکرم ﷺ سے ایک ایسی چیز کی درخواست کی تھی جو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمائی وہ یہ کہ مسلمان مساکین کو اپنے پاس سے ہٹادیجیے اور مکہ کے رؤسا کو اپنے پاس بٹھائیے، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، اور ابن ابی حاتم ؒ نے ربیع سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے امیہ بن خلف کی بات کا اثر لیا تھا اور آپ سے جو کہا گیا تھا آپ اس سے بیخبر اور غافل تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، نیز ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ عیینہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ کے پاس حضرت سلمان فارسی ؓ بیٹھے ہوئے تھے تو عیینہ کہنے لگا جس وقت ہم آپ کے پاس آیا کریں تو انہیں اپنے پاس سے ہٹا دیا کیجیے اور ہمیں بٹھا لیا کیجیے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
Top