Tafseer-Ibne-Abbas - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے ان میں سے جس شخص نے گناہ میں جتنا حصہ لیا اس کے لئے اتنا وبال ہے اور جن نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا
(11) جن لوگوں نے حضرت عائشہ ؓ کی نسبت یہ طوفان بدتمیزی برپا کیا ہے وہ تم میں سے ایک چھوٹا سا گروہ ہے۔ یہ آیات مبارکہ کذاب اور واقعہ کو گھڑنے والا عبداللہ بن ابی سلول منافق اور حسان بن ثابت انصاری اور مسطح بن اثاثہ اور عباد بن عبدالمطلب اور حمنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ ابی بن سلول منافق نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت صفوان ؓ پر تہمت لگائی تھی، اور یہ بقیہ مومن اس منافق کے کہنے میں آگئے تھے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس چیز کو اپنے حق میں آخرت میں بھی برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تمہارے حق میں ثواب و انجام کے اعتبار سے بہتر ہی بہتر ہے۔ ان میں سے ہر شخص کو جس نے جتنا اس معاملہ میں حصہ لیا تھا گناہ ہوا اور ان میں سے جس نے یعنی عبداللہ بن ابی سلول منافق نے اس طوفان میں سب سے بڑا حصہ لیا ہے کہ اس واقعہ کو اس نے گھڑا اور سارے مدینہ میں اس کو پھیلایا اس کو سب سے بڑھ کر سخت سزا ہوگی کہ دنیا میں حد قذف اس پر لگائی جائے گی اور آخرت میں دوزخ میں جلے گا۔ شان نزول : (آیت) ”۔ ان الذین جآء و باالافک عصبۃ“۔ (الخ) امام بخاری ؒ ومسلم ؒ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت نقل کی ہے فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب کسی سفر پر تشریف لے جانا چاہتے تو بیویوں میں قرعہ ڈالتے جس کا نام نکل جاتا اس کو ساتھ لے جاتے ایک مرتبہ ایک جہاد پر تشریف لے گئے اور قرعہ میں میرا نام نکل آیا اس لیے میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ چل دی یہ واقعہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے بعد کا ہے۔ چناچہ میں کجاوہ میں سوار ہو کر چلتی بھی تھی اور جہاں کہیں پڑاؤ ہوتا تھا میرا کجاوہ اتار لیا جاتا تھا غرض کہ ہم چل دیے جہاد سے فارغ ہونے کے بعد جب رسول اکرم ﷺ واپس ہوئے اور ہم سب مدینہ منورہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات کو حضور اکرم ﷺ نے کوچ کا اعلان فرما دیا، اعلان سنتے ہی میں بھی اٹھی اور پیدل جا کر لشکر سے نکل کر قضائے حاجت سے فارغ ہو کر منزل پر آئی سینہ کو ٹٹول کر دیکھا تو ظفاری نگینوں کا ہار جو میں پہنے ہوئی تھی نہ معلوم کہاں ٹوٹ کر نکل گیا فورا میں اس کی تلاش کے لیے لوٹی اور تلاش کرنے میں دیر لگ گئی جو گروہ میرا کجاوہ کستا تھا اس نے میرا کجاوہ کو اٹھا کر اسی اونٹ پر کس دیا جس اونٹ پر کہ میں سوار ہوتی تھی۔ کیوں کہ ان لوگوں کا خیال تھا کہ میں کجاوہ میں ہوں اور اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں بھاری فربہ اندام نہیں ہوتی تھیں کھانا تھوڑا کھایا کرتی تھیں اور میں تو ویسے بھی نوخیز لڑکی تھی اس لیے جن لوگوں نے کجاوہ کو اونٹ پر اٹھا کر رکھا ان کو کجاوہ کی گرانی کا اندازہ نہ ہوا۔ غرض کہ اونٹ اٹھا کر وہ لوگ چل دیے اور لشکر کے چلے جانے کے بعد مجھ کو ہار مل گیا میں پڑاؤ پر آئی تو وہاں نہ کوئی کہنے والا تھا اور نہ کوئی جواب دینے والا میں اپنے پڑاؤ پر آگئی اور خیال کیا کہ جب میں لوگوں کو نہیں ملوں گی تو ضرور یہیں لوٹ کر آئیں گے میں اپنی جگہ بیٹھی ہوئی تھی کہ آنکھوں میں نیند غالب آگئی، اور میں سو گئی، صفوان بن معطل لشکر کے پیچھے پچھلی رات سے چلے آرہے تھے وہ صبح کو اس جگہ پہنچے، جہاں میں پڑی ہوئی سو رہی تھی دور سے انھیں ایک سوتا ہوا شخص معلوم ہوا میرے پاس آئے تو مجھ کو پہچان لیا کیوں کہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے میں ان کے سامنے نکلا کرتی تھی، انہوں نے جو مجھے دیکھ کر انا للہ پڑھی تو میری آنکھ کھل گئی انہوں نے مجھے پہچان لیا میں نے اپنا چہرہ چادر سے چھپا لیا اللہ کی قسم انہوں نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی اور نہ میں نے سوائے انا للہ کے ان کی زبان سے اور کوئی کلمہ سنا، انہوں نے فورا یہ کیا کہ اپنی اونٹنی بٹھائی اور اس کا پاؤں اپنے پیر سے دبائے رکھا میں اونٹنی پر سوار ہوگئی وہ خود بےچارے پیدل چلتے رہے اور اونٹنی کو چلاتے رہے یہاں تک کہ ہم لشکر میں اس وقت پہنچے جب کہ عین دوپہر کو گرمی کی شدت میں وہ اترے ہوئے تھے اب لوگوں نے طوفان اٹھایا اور جس کی قسمت میں تباہی لکھی ہوئی تھی وہ تباہ ہوا اور سب سے بڑا اس طوفان کا بانی وموجد عبداللہ بن ابی بن سلول منافق ملعون تھا خیر ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچے اور وہاں پہنچ کر میں بیمار ہوگئی اور ایک مہینہ تک میں بیمار رہی، لوگ طوفان برپا کرنے والوں کی باتوں کا چرچا کرتے رہے لیکن مجھ کو کچھ خبر نہ ہوئی ایک ذرا ساوہم مجھے اس بات سے پیدا ہوا کہ رسول اکرم ﷺ میری بیماری کے زمانہ میں جو مہربانیاں میرے حال پر فرمایا کرتے تھے وہ اس بیماری کے زمانہ میں نہیں پاتی تھی۔ رسول اکرم ﷺ میرے حجرے میں تشریف لاتے اور سلام کرنے کے بعد فرماتے اب کیسی ہو اور تشریف لے جاتے، اس سے بیشک مجھ کو وہم ہوا مگر اس طوفان کی مجھ کو خبر تک بھی نہ تھی، بیماری سے اچھی ہونے کے بعد لاغری اور کمزوری ہی کی حالت میں، میں باہر نکلی اور میرے ساتھ مسطح کی ماں مناصع کی طرف چلی مناصع اس زمانے میں ہمارا پائے خانہ تھا اور ہم راتوں رات وہاں جایا کرتے تھے اور اس زمانہ میں ہماری حالت بالکل ابتدائی عربوں کی طرح تھی، گھروں میں بیت الخلاء بنانے سے ہمیں تکلیف بھی ہوتی تھی، ام مسطح ابورہم بن مطلب بن عبد مناف کی لڑکی تھیں اور ان کی ماں ضمر بن عامر کی بیٹی تھیں جو حضرت ابوبکر ؓ کی خالہ تھیں اور ام مسطح کے شوہر کا نام اثاثہ بن عاد بن عبد المطلب تھا، غرض کہ ضرورت سے فارغ ہو کر میں اور ام مسطح گھر کی طرف آئے، راستہ میں ام مسطح اپنی چادر میں الجھ کر گریں اور بولیں مسطح ہلاک ہو میں نے کہا کہ تم نے برا کیا، کیا ایسے آدمی کو بددعا دیتی ہوں جو غزوہ بدر میں شریک ہوا ہے بولیں بھولی بھالی کیا تو نے اس کی بات نہیں سنی ؟ میں نے کہا اس کی کیا بات ہے چناچہ مسطح کی والدہ نے تہمت لگانے والوں کا قول بیان کیا یہ سن کر میری بیماری میں اور اس بیماری کا اضافہ ہوگیا گھر واپس آئی رسول اکرم ﷺ تشریف لائے انہوں نے سلام کرنے کے بعد پوچھا تمہارا کیا حال ہے میں نے عرض کیا کیا آپ کی اجازت ہے کہ میں اپنے والدین کے پاس چلی جاؤں، اس اجازت لینے کی غرض یہ تھی کہ میں اپنے والدین کی طرف سے اس بات کی تصدیق کرنا چاہتی تھی، چناچہ رسول اکرم ﷺ نے مجھے اجازت دے دی، میں اپنے والدین کے یہاں چلی آئی اور آکر والدہ سے پوچھا کہ لوگ کیا چہ میگوئیاں کر رہے ہیں انہوں نے کہا بیٹی تو غم مت کر کیوں کہ اللہ کی قسم اگر کوئی خوبصورت عورت ہوتی ہے اور اس کا خاوند اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوتی ہیں تو سوکنیں اس پر بڑی بڑی باتیں رکھ دیا کرتی ہیں۔ میں نے کہا سبحان اللہ لوگ کیا کیا باتیں ملا رہے ہیں (اور آپ یہ کہہ رہے ہیں) غرض اس رات کو ساری رات میں روتی رہی اور میرے آنسو نہیں تھمے اور نہ نیند آئی، صبح کو میں رو ہی رہی تھی کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت علی ؓ اور حضرت اسامہ ؓ کو اپنی بیوی کے طلاق کے معاملہ میں مشورہ کے لیے طلب فرمایا کیوں کہ وحی آنے میں دیر ہوگئی تھی حضرت اسامہ ؓ نے تو وہی مشورہ دیا جو ان کو معلوم تھا کہ رسول اکرم ﷺ کی زوجہ مطہرہ پاک دامن ہے اور جیسا کہ ان کے دل میں آپ کی ازواج سے محبت تھی، چناچہ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ آپ کی بیوی ہیں ہمیں تو ان کے متعلق کسی برائی کا علم نہیں مگر حضرت علی ؓ نے عرض کیا یا رسول ﷺ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے تنگی نہیں رکھی ہے ان کے علاوہ عورتیں بہت ہیں اگر آپ خادمہ کو بلا کر دریافت کریں گے تو وہ آپ کو سچ سچ بیان کردیں گی اور عائشہ ؓ کی سچائی ظاہر ہوجائے گی، رسول اکرم ﷺ نے حضرت بریرہ ؓ کو بلایا اور فرمایا بریرہ ؓ تمہیں عائشہ ؓ کی طرف سے کبھی کوئی شک کی بات نظر آئی، حضرت بریرہ ؓ نے عرض کیا قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، میں نے تو عائشہ ؓ کی کوئی بات قابل گرفت کبھی دیکھی ہی نہیں۔ صرف اتنی بات ہے کہ وہ کمسن لڑکی ہیں، گھر کا گوندھا ہوا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہیں، بکری کا بچہ اس کو آکر کھا لیتا ہے اس کے بعد رسول اکرم ﷺ نے ممبر پر تشریف فرما ہو کر عبداللہ بن ابی سلول منافق مردود کے مقابل مدد چاہی، فرمایا مسلمانو ! کون میری حمایت کرتا ہے کون میری مدد کرتا ہے ایسے شخص کے مقابلہ میں جس کی جانب سے مجھے اپنے گھروالوں کے متعلق اذیت پہنچی ہے، اللہ کی قسم مجھے تو اپنی بیوی میں کوئی برائی نظر نہیں آتی لوگو میں ان کو نیک اور پاک دامن یہ سمجھتا ہوں اور جس شخص کا ذکر کیا ہے اس کو بھی نیک بخت جانتا ہوں وہ تو کبھی میرے گھر میں اکیلا نہیں آیا، ہمیشہ میرے ہی ساتھ آیا، یہ سن کر قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ ؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ میں اس شخص کے مقابلہ میں آپ کی مدد کو تیار ہوں، اگر یہ شخص اوس قبیلہ کا ہے تو ابھی میں اس کو قتل کردیتا ہوں اور اگر ہمارے بھائیوں میں سے خزرج کا ہے تو آپ جو حکم دیں ہم پورا کریں گے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں سعد بن معاذ کی یہ بات سن کر سعد بن عبادہ ؓ اٹھ کھڑے ہوئے جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے، وہ پہلے بہت نیک بخت آدمی تھے مگر اس وقت ان کو ایک قومی غیرت نے آگھیرا، سعد بن معاذ سے کہنے لگے اللہ کی بقاء کی قسم تو جھوٹ کہتا ہے تو نہ اس کو مارے گا اور نہ مار سکے گا، اتنے میں اسید بن حضیر ؓ جانثار صحابی جو سعد بن معاذ ؓ کے چچا زاد بھائی تھے کھڑے ہوگئے اور سعد بن عبادہ ؓ سے کہنے لگے اللہ کی بقاء کی قسم تو جھوٹا ہے ہم تو ضرور اس شخص کو قتل کریں گے کیا تو بھی منافق ہوگیا ہے جو منافقوں کی طرف داری کرتا ہے بس اس گفتگو پر اوس اور خزرج دونوں قبیلوں کے آدمی کھڑے ہوگئے اور آپس میں لڑنے والے ہی تھے مگر رسول اکرم ﷺ منبر پر ہی تھے آپ ان کو ٹھنڈا کرتے رہے یہاں تک کہ وہ سب خاموش ہوئے تب آپ بھی خاموش ہوگئے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں اس دن سارے دن میرا یہ حال رہا کہ نہ میرے آنسو بند ہوتے تھے اور نہ نیند ہی آتی تھی، صبح کو میرے والدین بھی میرے پاس موجود تھے اور میرا تو دو رات اور ایک دن سے یہی حال تھا کہ نہ نیند آتی تھی اور نہ آنسو ہی تھمتے تھے میرے والدین یہ سمجھے کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میرے والدین میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں رو ہی رہی تھی اتنے میں ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، میں نے اسے اجازت دے دی وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی اسی حالت میں رسول اکرم ﷺ ہمارے یہاں تشریف لائے، آپ نے سلام کیا اور سلام کر کے بیٹھ گئے اس سے قبل جب سے میرے اوپر یہ بہتان لگایا گیا تھا آپ کبھی میرے پاس نہیں بیٹھے تھے ایک مہینہ تک آپ رکے رہے، میرے بارے میں کوئی وحی نہ آئی، غرض کہ آپ نے بیٹھ کر تشہد پڑھا، پھر فرمایا اما بعد عائشہ ؓ مجھے تمہارے بارے میں ایسی ایسی خبر پہنچی ہے۔ اگر تو پاک ہے تو اللہ تعالیٰ تیری پاک دامنی عنقریب بیان فرمادے گا اور اگر واقعی تجھ سے کوئی قصور سرزد ہوگیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اپنے قصور کی مغفرت مانگ اور توبہ کر کیوں کہ جب کوئی بندہ اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے پھر اللہ کی درگاہ میں توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا گناہ بخش دیتا ہے جب رسول اکرم ﷺ یہ گفتگو ختم کرچکے تو اللہ کی قدرت یک بارگی میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی مجھ کو معلوم نہ ہوا، میں نے اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کہا آپ آنحضرت ﷺ کی بات کا جواب دیں انہوں نے کہا اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ آپ کو کیا جواب دوں پھر میں نے اپنی والدہ ام رومان سے کہا کہ آپ تو رسول اکرم ﷺ کی بات کا جواب دیں انہوں نے کہا میں نہیں جانتی کیا جواب دوں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں بالآخر میں ہی جواب کے لیے مستعد اور میں ایک کمسن لڑکی تھی قرآن کریم بھی مجھے زیادہ یاد نہ تھا خیر میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں جانتی ہوں کہ یہ بات جو آپ نے سنی ہے وہ آپ کے دلوں میں جم گئی ہے اور آپ اس کو سچ سمجھنے لگے ہیں تو ایسی صورت میں اگر میں یہ کہوں کہ میں پاک ہوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں پاک ہوں جب بھی آپ مجھے سچا نہیں سمجھیں گے اور اگر میں فرضی طور پر ایک گناہ کا اقرار کرلو (جو میں نے نہیں کیا) اور اللہ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو آپ سمجھیں گے اللہ کی قسم میں اس وقت اپنی اور آپ کی مثال ایسی سمجھتی ہوں جو حضرت یوسف ؑ کے والد حضرت یعقوب ؑ کی تھی انہوں نے جو کچھ کہا تھا میں بھی وہی کہتی ہوں کہ (آیت) ”فصبر جمیل“۔ اور آپ کی باتوں پر اللہ ہی میری مدد فرمانے والا ہے، حضرت عائشہ ؓ ہیں کہ یہ کہہ کر میں نے اپنے بستر پر کروٹ بدل لی اور مجھے یہ یقین تھا کہ کیونکہ میں پاک ہوں تو اللہ تعالیٰ میری پاکی ضرور ظاہر فرمائے گا مگر اللہ کی قسم مجھے ہرگز یہ گمان نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں قرآن کریم کی ایسی آیتیں نازل فرمائے گا جو قیامت تک پڑھی جائیں گی میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی کہ میرے بارے میں اللہ ایسا کلام اتارے کہ جو ہمیشہ پڑھا جائے، البتہ مجھے یہ امید تھی کہ رسول اکرم ﷺ کو کوئی ایسا خواب نظر آجائے گا جس سے آپ کے سامنے میری پاکیزگی ظاہر ہوجائے گی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں پھر اللہ کی قسم رسول اکرم ﷺ جس جگہ بیٹھے ہوئے تھے نہ آپ اپنی اس جگہ سے اٹھے اور اسی طرح گھر میں جو حضرات تھے نہ اس میں سے کوئی باہر گیا کہ آپ پر وحی اترنا شروع ہوگئی اور حسب معمول آپ پر وحی کی سختی ہونے لگی اور پسینہ موتی کی طرح آپ کے بدن مبارک سے ٹپکنے لگا حالانکہ وہ سردی کا دن تھا مگر نزول وحی کے وقت آپ پر ایسی ہی سختی ہوتی تھی، خیر جب وحی کی حالت ختم ہوگئی دیکھا تو آپ مسکرا رہے ہیں، پھر پہلی بات آپ نے جو کی وہ یہی فرمائی کہ عائشہ ؓ تمہیں پاک صاف کردیا، یہ سن کر میری والدہ کہنے لگیں اٹھ کر حضور ﷺ کا شکریہ ادا کرو میں نے کہا واہ اللہ کی قسم میں تو کبھی بھی آپ کے شکریہ کے لیے نہیں اٹھوں گی میں تو فقط اپنے پروردگار کا شکریہ ادا کروں گی جو عزت اور بزرگی والا ہے اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں (آیت) ”ان الذین جآء و بالافک“۔ (الخ) پوری دس آیتیں نازل ہوئیں، چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے میری پاک دامنی میں یہ آیتیں نازل فرمائیں تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ جو پہلے مسطح بن اثاثہ کے ساتھ اس کی غربت اور رشتہ داری کی وجہ سے جو مہربانی کا سلوک کیا کرتے تھے کہنے لگے اللہ کی قسم اب تو میں مسطح کو کچھ نہیں دوں گا جب اس نے حضرت عائشہ ؓ کے میں ایسی باتیں کیں اور رشتہ داری کا خیال نہیں کیا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں (آیت) ولا یاتل اولو الفضل منکم“۔ (الخ) یعنی تم سے وسعت اور بزرگی والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس قسم کی قسم کھالیں کہ اپنے عزیزوں یا مسکین اور مہاجروں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ نہ دیں گے، تو یہ آیتیں سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ فرمانے لگے اللہ کی قسم میں یہی چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے اور مسطح سے حسب عادت سلوک کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ میں مسطح کے ساتھ اس سلوک کو کبھی ختم نہیں کروں گا۔ اور اس باب میں طبرانی ؒ میں حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ اور بزار ؒ میں ابوہریرہ ؓ اور ابن مردویہ ؒ میں ابو الیسر ؓ سے روایات نقل ہیں۔ اور امام طبرانی ؒ نے خصیف ؒ سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر ؓ سے دریافت کیا کہ زنا اور قذف میں سے کون سی چیز زیادہ سخت ہے، فرمایا زنا، میں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جو لوگ تہمت لگاتے ہیں ان عورتوں کو جو کہ پاک دامن ہیں، انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت خاص طور پر حضرت عائشہ ؓ کی شان میں نازل ہوئی ہے اس روایت کی سند میں یحییٰ حمانی ہیں جو ضعیف ہیں۔
Top