Tafseer-e-Jalalain - An-Noor : 58
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِیْنَ مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ١ؕ مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَ حِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِیْرَةِ وَ مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ١ؕ۫ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ١ؕ لَیْسَ عَلَیْكُمْ وَ لَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ١ؕ طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والو) لِيَسْتَاْذِنْكُمُ : چاہیے کہ اجازت لیں تم سے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مَلَكَتْ : مالک ہوئے اَيْمَانُكُمْ : تمہارے دائیں ہاتھ (غلام) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو لَمْ يَبْلُغُوا : نہیں پہنچے الْحُلُمَ : احتلام۔ شعور مِنْكُمْ : تم میں سے ثَلٰثَ : تین مَرّٰتٍ : بار۔ وقت مِنْ قَبْلِ : پہلے صَلٰوةِ الْفَجْرِ : نماز فجر وَحِيْنَ : اور جب تَضَعُوْنَ : اتار کر رکھ دیتے ہو ثِيَابَكُمْ : اپنے کپڑے مِّنَ : سے۔ کو الظَّهِيْرَةِ : دوپہر وَمِنْۢ بَعْدِ : اور بعد صَلٰوةِ الْعِشَآءِ : نماز عشا ثَلٰثُ : تین عَوْرٰتٍ : پردہ لَّكُمْ : تمہارے لیے لَيْسَ عَلَيْكُمْ : نہیں تم پر وَلَا عَلَيْهِمْ : اور نہ ان پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ بَعْدَهُنَّ : ان کے بعد۔ علاوہ طَوّٰفُوْنَ : پھیرا کرنے والے عَلَيْكُمْ : تمہارے پاس بَعْضُكُمْ : تم میں سے بعض (ایک) عَلٰي : پر۔ پاس بَعْضٍ : بعض (دوسرے) كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ اللّٰهُ : واضح کرتا ہے اللہ لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : احکام وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
مومنو ! تمہارے غلام لونڈیاں اور جو بچے تم میں سے بلوغ کو نہیں پہنچے تین دفعہ (یعنی تین اوقات میں) تم سے اجازت لیا کریں (ایک تو) نماز صبح سے پہلے اور (دوسرے گرمی کی دوپہر کو) جب تم کپڑے اتار دیتے ہو اور (تیسرے) عشاء کی نماز کے بعد (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے (کے) ہیں ان کے (آگے) پیچھے (یعنی دوسرے وقتوں میں) نہ تم پر کچھ گناہ ہے نہ ان پر کہ کام کاج کے لئے ایک دوسرے کے پاس آتے رہتے ہو اس طرح خدا اپنی آیتیں تم سے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور خدا بڑا علم والا اور حکمت والا ہے
آیت نمبر 58 تا 61 ترجمہ : اے ایمان والو تمہارے مملوکوں کو یعنی غلام اور باندیوں کو اور ان کو جو تم میں سے حد بلوغ کو نہیں پہنچے آزادوں میں سے، مگر عورتوں کے معاملہ سے واقف ہوگئے ہیں تین مرتبہ یعنی تین اوقات میں اجازت لینی چاہیے، صبح کی نماز سے پہلے اور دوپہر میں یعنی دوپہر کے وقت جب تم اپنے کپڑے اتار دیتے ہو اور نماز عشاء کے بعد یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں (ثلٰثُ ) کے رفع کے ساتھ اس وجہ سے کہ مبتداء محذوف کی خبر ہے اور مبتداء کے بعد مضاف محذوف ہے، اور مضاف الیہ مضاف کے قائم مقام ہوگیا ہے، ایھی اوقات ثلٰثِ عورتٍ لکم اور (ثلٰث) نصب کے ساتھ، اس کے قبل اوقات کو مقدر مان کر حال یہ ہے کہ اپنے ماقبل (یعنی من قبل صلوٰۃ والفجر) کے محل سے بدل ہونے کی وجہ سے منصوب ہو اور (اوقات) مضاف کو حذف کرکے مضاف الیہ (یعنی عورات) کو مضاف کے قائم مقام کردیا، اور یہ تینوں اوقات (ایسے ہیں کہ) ان میں کپڑے اتار دینے کی وجہ سے ستر کھل جاتا ہے، ان تینوں اوقات کے علاوہ میں نہ تم پر کوئی الزام ہے اور نہ ان پر یعنی مملوکوں اور بچوں پر، بغیر اجازت تمہارے پاس چلے آنے میں، وہ بکثرت تمہارے پاس خدمات کیلئے چکر لگاتے رہتے ہیں بعض بعض کے پاس آتے رہتے ہیں اور (یہ) جملہ اپنے ماقبل جملہ کی تاکید ہے، اسی طرح جیسا کہ مذکورہ احکام بیان کئے، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے احکام کھول کھول کر بیان کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے حالات سے واقف ہے اور جو اس کے لئے تدبیر کرتا ہے اس میں حکمت والا ہے، آیت استیذان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ منسوخ ہے اور کہا گیا ہے کہ منسوخ نہیں ہے لیکن لوگ استیذان میں سستی کرنے لگے ہیں (ترک کا لفظ غالباً سہو ہے) ورنہ تو مطلب یہ ہوگا کہ استیذان میں سستی ترک کرنے لگے ہیں۔ تنبیہ : حالانکہ یہ خلاف مقصود ہے اور جب تمہارے لڑکے اے آزاد لوگو ! حد بلوغ کو پہنچ جائیں تو تمام اوقات میں ان کو بھی اسی طرح اجازت لینی چاہیے جیسا کہ ان کے ماقبل مذکور لوگ اجازت لیتے ہیں یعنی بالغ آزاد، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اسی طرح احکام بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے، اور بڑی بوڑھی عورتیں جو اولاد اور حیض سے اپنے بڑھاپے کی وجہ سے مایوس ہوگئی ہوں اور اسی (بڑھاپے کی وجہ سے) نکاح کی امید (خواہش) نہ رکھتی ہوں تو ان پر اپنے (زائد) کپڑے اتار دینے میں کوئی گناہ نہیں مثلاً برقع، چادر، دوپٹہ جو سر بند کے اوپر ہوتا ہے بشرطیکہ مخفی زینت کا مظاہرہ نہ کریں جیسا کہ گلوبند، کنگن، پازیب، اور (اگر) اس سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لئے اور زیادہ بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی باتوں کو سننے والے ہیں اور قلوب کے خطرات کو جاننے والے ہیں نہ تو نابینا شخص کے لئے کچھ مضائقہ ہے اور نہ لنگڑے کے لئے کچھ حرج ہے اور نہ مریض پر کوئی گناہ ہے، اپنے مقابلوں (غیر معذوروں) کے ساتھ کھانے میں اور نہ خود تمہارے لئے کچھ حرج ہے اس بات میں کہ تم اپنے گھروں سے کھاؤ یعنی اپنی اولاد کے گھروں سے یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے مومؤں کے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یان کے گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں یعنی اس میں سے جس کی تم غیر کے لئے حفاظت کرتے ہو، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے اور دوست وہ ہے جو تمہارے ساتھ دوستی میں مخلص ہو، آیت کے معنی یہ ہیں کہ مذکورین کے گھروں (اموال) سے ان کی غیر موجودگی میں کھانا جائز ہے، یعنی جبکہ کھانے کے لئے ان کی رضا مندی کا علم ہوجائے اور تمہارے لئے (اس بات) میں کوئی حرج نہیں کہ سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ یعنی متفرق طریقہ پر اَشْتَاتًا شتٌ کی جمع ہے یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو تنہا کھانے میں حرج محسوس کرتا تھا، اور اگر ساتھ کھانے والا کسی کو نہ پاتا تو نہ کھاتا اور جب تم اپنے ایسے گھروں میں داخل ہوا کرو کہ جن میں کوئی نہیں ہے ترو خود کو سلام کرلیا کرو یعنی کہا کرو السلام علینا وعلیٰ عباد اللہ الصَّالِحینَ اس لئے کہ فرشتے تم کو اس جا جواب دیں گے اور اگر ان میں اہل خانہ ہوں تو ان کو دعاء کے طور پر سلام کرلیا کرو، تحیۃً ، حَیِّیَ کا مصدر ہے جو خدا کی طرف سے مقرر ہے برکت والی عمدہ چیز ہے اس پر اجر دیا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے احکام بیان فرماتا ہے یعنی تمہارے دین کے احکام کو واضح طریقہ پر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ان احکام کو سمجھو۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : ثَلٰثَ مرَّاتٍ ثلٰثَ کے منصوب ہونے کی دو وجہ ہیں اول یہ کہ لِیَسْتَاذِنُکُمْ کا مفعول فیہ ہے ای لیستاذنوا فی ثلٰثۃ اوقات فی الیوم واللیلۃ مفسر علام نے فی ثلٰث اوقاتٍ کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ ثلٰث مرَّاتٍ ظرف ہے اور مرّات بمعنی اوقاتٍ ہے، ای لِیَسْتَاذنکُمْ ثلٰثۃ اوقاتٍ اس کے بعد من قَبْلَ صلوٰۃٍ الفجرِ سے مِن بعد صلوٰۃِ العشاءِ تک ثلٰث اوقات کی تفسیر ہے۔ ثلٰثَ مراتٍ کے منصوب ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ لِیَستاذنکم کا مفعول مطلق ہے ای استاذنوا ثلٰث استیذاناتٍ ۔ قولہ : ثلٰثُ عوراتٍ لکم ثلٰثُ مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے مبتدا محذوف کے بعد اوقات مضاف محذوف ہے مضاف کو حذف کرکے مضاف الیہ یعنی عوراتٌ کو اس کے قائم مقام کردیا ہے، اس صورت میں وقف، العشاء پر ہوگا، ای ھِیَ ثلاثۃُ اوقاتٍ کائنۃٍ لکم اوقاتِ مذکورہ کو عوراتٌ کہا گیا ہے حالانکہ اوقات ثلٰثہ عوراتٍ نہیں ہیں لیکن چونکہ مذکورہ تینوں اوقات عدم تستُّر (کشف عورات) کے ہیں، مظروف بول کر ظرف مراد لیا گیا ہے (تسمیہ الشیئ باسم ما یقع فیہ) اور ثلٰث عوراتٍ کے منصوب ہونے کی صورت میں ثلٰث عوراتٍ اپنے ماقبل یعنی من قبل صلوٰۃِ الفجر کے محل سے بدل ہے اور مضاف الیہ مضاف کے قائم مقام ہے چونکہ مذکورہ تینوں اوقات میں (زائد) کپڑے اتار دینے کی وجہ سے پوشیدہ حصہ ظاہر ہوجاتا ہے، اسی وجہ سے ان اوقات کو عورات کہا گیا ہے۔ قولہ : ھِیَ مبتداء ہے تبدو فیھا العورات خبر ہے لالقاءِ الثیابِ الخ تبدو کی علت مقدمہ ہے اور اوقات کا عورات نام رکھنے کی علت کی طرف اشارہ بھی ہے، قولہ : بعضکم علیٰ بعض یہ جملہ سابق جملہ طوافون علیکم کی تاکید ہے۔ قولہ : متبَرِّجٰتٍ کی تفسیر مظھرات کرکے اشارہ کردیا کہ بزینۃٍ میں با تعدیہ کے لئے ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ بزینۃٍ میں با بمعنی لام ہے ای مظھرات لزینۃٍ ۔ جلباب بڑی چادر برقعہ وغیرہ جس میں پورا بدن چھپ جائے (جمع) جلابیب آتی ہے۔ قولہ : فوق الخمار کا تعلق قناعٌ سے ہے دوپٹہ وغیرہ کو کہتے ہیں۔ قولہ : فی مواکلَۃ مقابلیھم مواکلَۃ مصدر ہے اپنے مفعول کی جانب مضاف ہے ای فی اکلِھِمْ مع مقابلیْھِمْ (ای السالمین من ھذہ النقائص الثلٰثۃ) ۔ قولہ : وَلاَ عَلیٰ اَنفسِکُمْ یہ جملہ مستانفہ ہے۔ قولہ : صدیقکم صدیق کا طلاق واحد اور جمع دونوں پر ہوتا ہے۔ قولہ : مِنْ بیوت مَن ذُکرَ ماقبل میں گیارہ بیوت کا ذکر کیا گیا ہے یہ تعداد عادت اور عرف کے اعتبار سے ہے، قولہ : ای اذا علم رضاءھم بہٖ یہ رضا مندی صراحۃً ہو یا کسی ایسے قرینہ کی وجہ سے ہو جو رضا مندی پر دلالت کرتا ہو، اور مذکورہ اجازت عام کھانے پینے کی چیزوں میں ہے جیسے روٹی سالن وغیرہ یہ اجازت ایسی چیزوں میں نہیں ہے جو مخصوص طریقہ پر اہتمام کے ساتھ بنائی جاتی ہیں نیز اجازت کھانے کی حد تک ہے ساتھ لیجانے کی اجازت نہیں ہے، اسی طرح غیر ماکول اشیاء میں بھی تصرف کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ صریح اجازت نہ ہو، قولہ : تحیۃً یہ فعل مقدر کا مفعول ہیں، اس صورت میں قعدت فسَلِّمُوْا کا معمول بھی ہوسکتا ہے اس لئے سلِّمُوْا اور تحیۃً کے معنی قریب قریب ہیں، اس صورت میں قعدت جلوساً کے قبیل سے ہوگا۔ قولہ : من عند اللہ اس کا تعلق تحیۃً کی صفت محذوف سے بھی ہوسکتا ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی، تحیۃً صادرۃً من عند اللہ اور خود تحیۃ کے متعلق بھی ہوسکتا ہے، قولہ : یُثَابُ علَیْھَا یہ مبارکۃ کی تفسیر ہے۔ تفسیر و تشریح یا ایھا الذین آمنوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمانکم (الآیہ) اقارب و محارم کے لئے خاص اوقات میں استیذان کا حکم : آداب معاشرت اور ملاقات کے آداب اسی سورت کی آیت 27/ 28/ 29 میں بیان ہوئے ہیں کہ کسی کی ملاقات کیلئے جاؤ تو بغیر اجازت ان کے گھروں میں داخل نہ ہو، گھر زنانہ ہو یا مردانہ آنے ولاا مرد ہو یا عورت، سب کے لئے اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا ہے، مگر یہ احکام استیذان اجانب کے لئے تھے جو باہر سے ملاقات کے لئے آئے ہوں۔ شان نزول : مذکورہ آیت کی شان نزول میں متعدد واقعات ذکر کئے گئے ہیں : (1) ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ایک انصاری لڑکے کو جس کا نام مدلج بن عمر تھا دوپہر کے وقت عمر بن خطاب کے پاس بھیجا تاکہ عمر کو بلا لائے، لڑکا گھر میں اچانک داخل ہوگیا اور حضرت عمر کو ایسی حالت میں دیکھ لیا جس کو دیکھنا عمر ؓ پسند نہیں کرتے تھے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (2) کہا گیا ہے کہ اسماء بنت مرثد کے بارے میں نازل ہوئی اس کا ایل بالغ غلام تھا وہ ایک روز اسماء کے پاس اچانک چلا گیا جس کو اسماء نے ناپسند کیا اسماء نے اس واقعہ کا ذکر آپ ﷺ سے کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیات میں ایک دوسرے استیذان کے احکام کا بیان ہے جن کا تعلق ان اقارب و محارم سے ہے جو عموماً ایک گھر میں رہتے ہیں اور ہر وقت آتے جاتے ہیں، اور ان سے عورتوں کا پردہ بھی نہیں ہے ایسے لوگوں کے لئے بھی اگرچہ گھر میں داخل ہونے کے وقت اس کا حکم ہے کہ اطلاع کرکے یا کم از کم قدموں کی آہٹ کرکے یا کھانس کھنکار کر گھر میں داخل ہوں اور یہ استیذان مستحب ہے، یہ حکم تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے کا تھا لیکن گھر میں داخل ہونے کے بعد ایک دوسرے کے پاس آنے جاتے رہتے ہیں ان کے لئے تین خاص اوقات میں جو عام طور پر ہر شخص کے لئے خلوت اور آزادی کے اوقات ہیں ایک اور استیذان کا حکم ہے جو ان آیات میں دیا گیا ہے وہ تین اوقات صبح کی نماز سے پہلے دوپہر کو آرام کرنے کے وقت، اور عشاء کی نماز کے بعد کے اوقات ہیں، ان اوقات میں محارم و اقارب کو حتی کہ سمجھدار نابالخ بچوں اور مملوکہ باندیوں کو بھی اس کا پابند بنایا گیا ہے کہ ان تین اوقات میں کسی کی خلوت گاہ میں اجازت کے بغیر نہ جائیں، ان احکام کے بعد فرمایا : لیس۔۔۔ بعدھن، یعنی ان واقعات کے علاوہ کوئی مضائقہ نہیں کہ ایک دوسرے کے پاس بلا اجازت چلے جایا کریں، یہ حکم بچوں کو نہیں بلکہ دراصل بڑوں کو ہے کہ بچوں کو تربیت کے طور ہر سمجھا دیا کریں کہ ان تین اوقات میں کسی کی خلوت گاہ میں بغیر اجازت کے نہ جانا چاہیے۔ آیت میں الذین ملکت ایمانکم اگرچہ عام ہے جس کے معنی مملوک کے ہیں جس میں باندی اور غلام دونوں شامل ہیں ان میں مملوک غلام جو بالغ ہو وہ تو شرعاً اجنبی غیر محرم کے حکم میں ہے اس سے مالکن کو پردہ کرنا واجب ہے اس کا بیان پہلے گذر چکا ہے، اس لئے یہاں اس لفظ سے باندیاں مراد ہیں یا پھر وہ غلام جو ابھی بالغ نہ ہوئے ہوں، جو ہر وقت گھر میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ خاص استیذان اقارب کیلئے واجب ہے یا مستحب اور اب یہ حکم باقی ہے یا منسوخ ہوگیا، جمہور فقہاء کے نزدیک یہ حکم غیر منسوخ ہے اور وجوب کے لئے ہے، اگر کسی طریقہ سے یہ معلوم ہوجائے کہ مذکورہ تین اوقات میں صاحب کانہ اپنی خلوت گاہ میں اپنے اعضاء مستورہ کو کھولے ہوئے نہیں ہے یا اپنی بیوی کے کے ساتھ خلوت میں نہیں ہے تو اس صورت میں استیذان واجب نہیں ہے، حضرت ابن عباس ؓ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ استیذان کی آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ لوگ اس پر عمل کرنے میں سستی کرنے لگے ہیں۔ والقواعد من النساء یہ استثناء عورت کی شخصی حالت کے اعتبار سے ہے کہ جو عورت اتنی بوڑھی ہوجائے کہ اس کی طرف کسی کو رغبت نہ ہو تو اس کے لئے پردہ کے احکام میں سہولت دیدی گئی ہے کہ اجانب بھی اہل کے حق میں مثل محارم کے ہوجاتے ہیں جن اعضاء کا چھپانا محرموں سے ضروری نہیں ہے بوڑھی عورتوں کے لئے غیر مردوں سے بھی چھپانا ضروری نہیں ہے مگر ایسی بوڑھی عورتوں کے لئے بھی ایک قید تو یہ ہے کہ جو اعضاء محرم کے سامنے کھولے جائیں غیر محرم کے سامنے بھی کھول سکتی ہے بشرطیکہ بن سنور کر زینت اختیار نہ کرے۔ اور آخر میں دوسری بات یہ فرمائی وَاَن یَسْتَعْفِفْنَ خیرٌ لَّھُنَّ یعنی اگر بوڑھی عورتیں غیر محرموں کے سامنے آنے سے بالکل ہی بچیں تو یہ ان کے لئے بہتر ہے۔ لیس علی۔۔۔۔۔ حرج مفسرین نے آیت مذکورہ کے شان نزول کے سلسلہ میں چند واقعات تحریر کئے ہیں کسی نے کسی واقعہ کو آیت کا شان نزول قرار دیا ہے اور کسی نے کسی کو، اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ سب ہی واقعات نزول آیت کا سبب بنے ہوں۔ آیت کا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو کام تکلیف کے ہیں وہ ماقبل میں مذکور معذورین کے لئے معاف ہیں مثلاً جہاد، حج، جمعہ اور جماعت میں حاضری (کذافی الموضح) یا یہ مطلب ہے کہ ان معذور محتاج لوگوں کو تندرستوں کے ساتھ کھانے میں کچھ کھانے میں کچھ حرج نہیں، جاہلیت میں اس قسم کے محتاج معذور آدمی مالداروں اور تندرستوں کے ساتھ کھانے سے جھجک محسوس کرتے تھے انہیں خیال گذرتا تھا کہ شاید لوگوں کو ہمارے ساتھ کھانے سے نفرت ہو اور ہماری بعض حرکات اور اوضاع سے ایذا پہنچتی ہو اور واقعی بعض کو نفرت و وحشت ہوتی بھی تھی، نیز بعض مومنین کو غایت اتقاء کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا کہ ایسے موزوروں اور مریضوں کے ساتھ کھانے میں شاید اصول عدل و مساوات قائم نہ رہ سکے، اندھے کو سب کھانے نظر نہیں آتے، لنگڑا ممکن ہے دیر میں پہنچے اور مناسب نشست سے نہ بیٹھ سکے، مریض کا تو پوچھنا ہی کیا ہے، اس بناء پر ساتھ کھانے میں احتیاط کرتے تھے تاکہ ان کی حق تلفی نہ ہو۔ کبھی یہ صورت حال بھی پیش آتی تھی یہ معذورین اور محتاجین کسی کے پاس اپنی ضرورت لیکر جاتے وہ شخص استطاعت نہ رکھتا تھا ازراہ بےتکلفی وہ اس معذور کو اپنے عزیز و اقارب کے گھر لیجاتے اس پر ان حاجت مندوں کو خیال ہوتا تھا کہ ہم تو آئے تھے اس کے پاس اور یہ دوسرے کے یہاں لے گیا کیا معلوم وہ ہمارے کھلانے سے ناخوش تو نہیں، ان تمام خیالات کی اصلاح کے لئے یہ آیت نازل ہوئی کہ خواہی نخواہی اس طرح کے اوہام میں مت پڑو اللہ نے ان سب معاملات میں وسعت رکھی ہے پھر تم خود اپنے اوپر تنگی کیوں کرتے ہو ؟ (فوائد عثمانی) اس زمانہ میں عرب میں چونکہ عرف و عادت تھی کہ آپس میں بلا تکلف اپنے عزیز و اقارب اور دوست و احباب کے گھر جا کر کھاپی لیتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی ساتھ لیجاتے تھے اس لئے کوئی ناخوشی یا ناگواری کا اظہار نہیں کرتا تھا چناچہ آج بھی اگر کہیں اس قسم کا عرف و عادت ہو تو اجازت ہوگی اور اگر عرف و عادت نہ ہو تو صریح اجازت کی ضرورت ہوگی، جیسا کہ ہمارے یہاں اس قسم کا عرف نہیں ہے لہٰذا اجازت کی ضرورت ہوگی۔
Top