Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 160
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَ بِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَثِیْرًاۙ
فَبِظُلْمٍ : سو ظلم کے سبب مِّنَ : سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : جو یہودی ہوئے (یہودی) حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر طَيِّبٰتٍ : پاک چیزیں اُحِلَّتْ : حلال تھیں لَهُمْ : ان کے لیے وَبِصَدِّهِمْ : اور ان کے روکنے کی وجہ سے عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَثِيْرًا : بہت
تو ہم نے یہودیوں کے ظلموں کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزیں جو ان کو حلال تھیں ان کو حرام کردیں اور اس سبب سے بھی کہ وہ اکثر خدا کے راستے سے (لوگوں کو) روکتے تھے۔
فبظلم من الذین ھادو احرمنا، جملہ معترضہ ختم ہونے کے بعد یہاں سے پھر وہی سلسلہ کلام شروع ہوتا ہے جو اوپر سے چلا آرہا تھا، یعنی صرف اسی پر اکتفاء نہیں کرتے کہ خود اللہ کے راستہ سے منحرف ہیں بلکہ اس قدر بےباک مجرم بن گئے ہیں کہ دنیا میں خدا کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لئے جو تحریک بھی اٹھتی ہے اکثر اس کے پیچھے یہودی دماغ اور یہودی سرمایہ ہی کار فرما ہوتا ہے، اور راہ حق کی دعوت کیلئے جو تحریک بھی شروع ہوتی ہے اس راہ کے سنگ گراں یہودی ہی ہوتے ہیں۔ مفید بحث : یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں شام و فلسطین کی غالب آبادی یہودیوں کی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام بھی اسی کے ایک فرد تھے، گو کہ یہود کو اندرونی خودمختاری حاصل تھی جس کی رو سے یہود کو اپنے مذہبی فیصلے خود کرنے کا اختیار تھا (جس کو پرسنل لا کی آزادی) بھی کہا جاسکتا ہے مگر سیاسی اور خارجی امور رومی مشرک حکومت کو حاصل تھے جس کی وجہ سے اعلی عہدہ دار، پولیس اور فوج رومیوں پر مشتمل تھی، جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام نے نبوت کا دعویٰ کیا تو یہودیوں نے اپنے مذہبی قانون (پرسنل لا) کی رو سے حضرت مسیح کو بدعتی اور یہودیت سے خارج قرار دیکر سزائے موت کا فتوی صادر کردیا مگر چونکہ یہود کو سزائے موت نافذ کرنے کا اختیار نہیں تھا اسلئے رومی حکومت سے سزا نافذ کرنے کی درخواست کی گئی اور سزا کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام پر ملک کی غداری اور قومی بغاوت کا الزام بھی لگا دیا، تاریخ کا بیان ہے کہ حضرت مسیح کی سزائے موت کا نفاذ اگرچہ رومی حکومت نے کیا لیکن آپ کو سزا دلوانے کے پیچھے تمام تر کوشش یہود کی کار فرما تھی اس لئے قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے قتل کی تمام تر ذمہ داری یہود پر ڈالی ہے رومی عدالت کا حاکم پیلاطیس (PILTUS) آپ کو سزا دینا ہرگز نہ چاہتا تھا بلکہ اس سے برابر بچنے کی کوشش کررہا تھا، مگر یہود کہ جنہوں نے جھوٹا استغاثہ گھڑا، جھوٹی شہادتیں فراہم کیں اور سزا نافذ نہ کرنے کی صورت میں بلوہ و فساد کی دھمکی دے دے کر عدالت کو سزائے موت سنانے پر مجبور کردیا۔ انجیل متی کا ایک مختصر سا بیان ملاحظہ ہو : جب پیلاطیس نے دیکھا کہ کچھ نہیں بن پڑتا، بلکہ الٹا بلوہ ہوا جاتا ہے تو پانی لے کر لوگوں کے روبرو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا کہ میں راست باز کے خون سے بری ہوں، تم جانو، سب لوگوں نے کہا اس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر، اس پر اس نے برابّا کو ان کی خاطر چھوڑ دیا اور یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کردیا کہ صلیب دی جائے۔ (27: 24: 26) (ماجدی) اس کی تائید دوسری انجیلیں بھی کرتی ہیں بلکہ انجیل لوقا میں تو اتنی تصریح اور زائد ہے کہ حاکم نے ملزم کو سزائے موت سے بچانے کیلئے تین بار کوشش کی لیکن یہود نے ہر دفعہ اس کی بات کو رد کردیا۔ (23: 22) (ماجدی) ربط آیات : لکن الراسخون فی العلم، آیات بالا میں ان یہود کا ذکر تھا جو اپنے کفر پر قائم تھے اور مذکورہ بالا منکرات میں مبتلا تھے، آگے ان حضرات کا ذکر ہے جو اہل کتاب تھے اور جب آنحضرت ﷺ کی بعثت ہوئی اور وہ صفات جو خاتم النبیین ﷺ کے متعلق ان کی کتابوں میں موجود تھیں آپ میں پوری پوری دیکھیں تو ایمان لے آئے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام واسید و ثعلبہ ؓ ، ان آیات میں ان حضرات کی تعریف و توصیف ہے۔
Top