Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 21
وَ كَیْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَ قَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّ اَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا
وَكَيْفَ : اور کیسے تَاْخُذُوْنَهٗ : تم اسے لوگے وَقَدْ : اور البتہ اَفْضٰى : پہنچ چکا بَعْضُكُمْ : تم میں ایک اِلٰى بَعْضٍ : دوسرے تک وَّاَخَذْنَ : اور انہوں نے لیا مِنْكُمْ : تم سے مِّيْثَاقًا : عہد غَلِيْظًا : پختہ
اور تم اس مال کو کیونکر واپس لے سکتے ہو حالانکہ تم آپس میں ایک دوسرے تک پہنچ چکے و یعنی لطف اندوز ہوچکے ہو اور وہ عورتیں تم میں سے شرعاً ایک قسم کا مضبوط عہد لے چکی ہیں1
1 اگر تم خود اپنی خوشی اور رغبت سے ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہو اور تم اس ایک کو یعنی پہلی بیوی جس کو چھوڑنا چاہتے ہو بطور مہر یا شورہبہ ڈھیر مال دے چکے ہو اور مال کے انبار اس کو تم نے دے دیئے ہوں تو اس مال میں سے عورت کو تنگ اور پریشان کرکے کچھ بھی واپس نہ لو کیا تم اس عورت پر نافرمانی اور بدکاری کا بہتان رکھ کر اور اس کے مال میں صریح گناہ یعنی ظلم کے مرتکب ہوکر اس مہر کے یا ہبہ کے مال کو واپس لینا چاہتے ہو اور بھلا تم اس مال کو کیسے واپس لے سکتے ہو حالانکہ تم آپس میں ایک دوسرے تک پہنچ چکے ہو یعنی لطف اندوز ہوچکے ہو اور آپس میں ایک دوسرے سے بےتکلف مل چکے ہو اور نیز یہ کہ وہ عورتیں تم سے ایک مضبوط و مستحکم عہد اور قرار لے چکی ہیں۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ عورت کا کوئی قصور نہیں صرف تم اس کو بدلنا چاہتے ہو ایک کو چھوڑ کر اس کی جگہ دوسری سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ تو ایسی حالت میں جو کچھ بھی تم اس کو دے چکے ہو وہ یا اس کا کوئی حصہ واپس نہ لو خواہ وہ مہر ہو یا مہر کا وعدہ ہو یا مہر کے علاوہ اور کچھ اس کو بطور ہبہ دیا ہو قصور نہیں اور ہبہ اس لئے واپس نہیں لے سکتے کہ تعلقات زوجیت میں ہبہ کا رجوع جائز نہیں۔ اب سوائے اس کے کوئی شکل نہیں کہ اس پر نافرمانی اور بدچلنی وغیرہ کا بہتان لگائو اور صریح گناہ کے مرتکب ہوکر اس سے کچھ مال حاصل کرلو۔ لہٰذا جو مال حاصل کرو گے وہ ظلم ہوگا ایک علت تو حکم کی اتاخذونہ بھتانا وانما مبینا سے ظاہر ہوگئی کہ ایک بےقصور عورت سے اس کو دیا ہوا مال خواہ وہ مہر ہو یا کچھ اور ہبہ کے طور پر دیا ہوا مال واپس لینا بہتان اور ظلم کو مستلزم ہے اگر زبان سے نہ بھی کہو تب بھی یہ سمجھا جائے گا کہ مال دے کر عورت نے طلاق حاصل کی ہے تو ضرور عورت میں کوئی خرابی ہوگی ورنہ خاوندکیوں ناجائز مال لیتا اور اگر ہبہ ہے تب اس کا ظلم ہونا ظاہری ہے کیونکہ زوجیت کے تعلقات میں ہبہ واپس نہیں ہوسکتا اور تم نے واپس لے لیا۔ دوسری آیت میں علاوہ وجہ مذکور یعنی بہتان اور گناہ کے اور دوسری وجہ سے بیان فرمائی کہ تم دیا ہوا مال واپس لے بھی کس طرح سکتے ہو حالانکہ تم ان عورتوں سے مل بھی چکے ہو یعنی خلوت صحیحہ یا ہم بستری کرچکے ہو۔ لہٰذا مہر جس چیز کا بدل ہے وہ چیز تم حاصل کرچکے چیز حاصل کرنے کے بعد اب اس کے بدل یعنی مہر کو اگر نہیں دیا ہے تو کیسے روک سکتے ہو اور دے چکے ہو تو کیسے واپس لے سکتے ہو نیز یہ کہ وہ عورتیں تم سے ایک پختہ اور مستحکم اقرار لے چکی ہیں پھر اب اس اقرار کے بعدجو نکاح کے وقت مہر کی ادائیگی کا ہوچکا ہے اس سے تم کس طرح پھر سکتے ہو۔ بہرحال صورت مذکورہ میں عورت کو دیا ہوا یا اس سے وعدہ کیا ہوا مال واپس لینا اور یا ادا نہ کرنا چار برائیوں سے خالی نہیں۔ (1) بہتان کے مرتکب ہوگے۔ (2) یا صریح ظلم کے مرتکب ہوگے۔ (3) یا عورت سے لطف اندوز ہوکر لطف اندوزی کا بدل نہ دو گے یعنی مبدل منہ لوگے اور بدل کے منکر ہوگے۔ (4) یا عہدشکن بنوگے چونکہ آیت کے عموم کا لحاظ رکھتے ہوئے بعض مفسرین نے ہبہ کو بھی شامل کردیا تھا۔ اس لئے ہم نے بھی شامل کرلیا ورنہ ظاہر ہے کہ آیت میں مہر ہی کی بحث ہے۔ البتہ فلاتا خذوامنہ شیئاً میں گنجائش ضرور ہے۔ اس رعایت سے ہم نے ہبہ کو شامل کرلینا مناسب سمجھا۔ مستحکم اقرار کے متعلق ابن عباس ؓ اور مجاہد کا قول ہے کہ وہ نکاح کا وہ کلمہ ہے جس پر مہر باندھا جاتا ہے۔ حضرت حسن ؓ ، ابن سیرین ؓ ، ضحاک ؓ اور قتادہ ؓ کا قول ہے کہ اس سے عورت کے دلی کا یہ قول مراد ہے کہ میں نے اس عورت کا نکاح تجھ سے اس وعدہ پر کیا جو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے بارے میں مردوں سے لیا ہے اور وہ وعدہ یہ ہے کہ یا بھلے مانسوں کی طرح اس عورت کو رکھوگے یا احسان اور نیکی کے ساتھ چھوڑ دو گے۔ حضرت شعبی اور عکرمہ کا قول ہے کہ اس سے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان مراد ہے کہ تم عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے ساتھ وہ تمہارے لئے حلال ہوئی ہیں۔ اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے۔ بہرحال یا عاقد کا قول ہے یا خود کلمۂ نکاح ہے جو مہر پر موقوف ہے۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جب مرد عورت تک پہنچا تو اس کا تمام مہر لازم ہوگی اب بغیر اس کے چھوڑے نہیں چھوٹتا اور عہد گاڑھا یہی کہ حکم شرع سے عورت مرد کے قبضے میں آئی والد اس کا مال نہیں۔ (موضح القرآن) خلاصہ یہ ہوا کہ اگر عورت کی جانب سے بدخلقی اور نافرمانی کا اظہار ہو تو اس سے کچھ مال لیکر جس کی مقدار مہر سے زائد نہ ہو اس کو چھوڑنا اور طلاق دینا جائز ہے اور اگر بداخلاقی مرد کی جانب سے ہو اور حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو یا بلاوجہ عورت کو علیحدہ کرنا چاہتا ہو تو ایسی حالت میں جو کچھ اس کو دے چکا ہو یا دینے کا وعدہ ہو اس میں سے کچھ واپس نہ کرے خواہ اس کی مقدار کچھ بھی ہو۔ باقی اگر افضا سے پہلے طلاق کی نوبت آجائے تو نصف مہرادا کرنا ہوگا۔ باقی مسائل خلع کے اور مہر کے دوسرے پارے میں گذر ہوچکے ہیں۔ (فائدہ) احادیث میں عورتوں کا مہر تھوڑا باندھنے کی فضیلت آئی ہے عام طور سے حضور ﷺ کی بیویوں اور صاحبزادیوں کا مہر چار سو درہم یا چار سو درم سے کم ہوتا تھا۔ صحابہ ؓ بھی عام طور سے اسی مقدار کی پابندی کرتے تھے پھر کچھ لوگوں نے مہر کی مقدار میں غلو شروع کردیا۔ حضرت عمر ؓ نے ایک دن اپنی تقریر میں مہر کی تحدید کرنی چاہی مگر ایک قریشی عورت نے واتیتم احدا ھن قنطاراً سے استدلال کرتے ہوئے حضرت عمر کو ایسا کرنے سے منع کیا اور حضرت عمر ؓ نے اس عورت کے اعتراض کو تسلیم کرلیا اور ابو یعلی کی روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا فمن ملاتب نفسہ فلیفعل یعنی جو کسی شخص کو مناسب معلوم ہو وہ کرے۔ بہرحال آیت سے مہر کی زیادتی کا جواز معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی زیادہ مہر مقرر کرے گا تو وہ نافذ ہوجائے گا اور حدیث میں جو تاکید ہے وہ عدم جواز کو مستلزم نہیں۔ لہٰذا ہوسکتا ہے کہ جائز مع الکرامت ہو۔ اور حضرت عمر نے جو عورت کی بات تسلیم کرلی اس کا مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ لوگ چار سو درم سے مہر زیادہ باندھنے کو حرام نہ سمجھنے لگیں۔ (واللہ اعلم) حضرت ابن عباس نے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ عورتوں میں سے بہترین عورت وہ ہے جس کا مہر کم ہو (ابن حبان) برکت کے اعتبار سے سب میں بڑی عورت وہ ہے جس کے مہر کا ادا کرنا سہل اور آسان ہو۔ (احمد بیہقی) اب آگے اور ان کی رسومات قبیحہ کا ابطال فرماتے ہیں جن میں لوگ بکثرت مبتلا تھے۔ اکثر محرمات سے نکاح کرلیتے تھے اور بعض حلال عورتوں کو حرام سمجھتے تھے آگے کی آیتوں میں اسی قسم کے مسائل کی تفصیل ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top