Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 33
وَ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١ؕ وَ الَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُكُمْ فَاٰتُوْهُمْ نَصِیْبَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدًا۠   ۧ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیے مَوَالِيَ : وارث مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑ مریں الْوَالِدٰنِ : والدین وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو کہ عَقَدَتْ : بندھ چکا اَيْمَانُكُمْ : تمہار عہد فَاٰتُوْھُمْ : تو ان کو دے دو نَصِيْبَھُمْ : ان کا حصہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : اوپر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز شَهِيْدًا : گواہ (مطلع)
اور ہم نے ہر اس مال متروکہ کے جس کو ماں باپ اور قرابت دار چھوڑ جائیں وارث مقرر کردیئے ہیں اور وہ لوگ جن سے تم نے عہدوپیمان کیا ہو یعنی مولی الموالات تو ان کو ان کا حصہ دیدو بلاشبہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہے۔4
4 اور ہم نے ہر اس مال کے جو ماں باپ اور قرابت دار چھوڑ جائیں وارث مقرر کئے ہیں یعنی بطور ترکہ چھوڑ مریں اس کے وارث ہم نے مقرر کردیئے ہیں اور وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوچکے ہیں یعنی آپس میں یہ عہد باندھ رکھا ہو کہ اگر زندگی میں مجھ کو کوئی ویت وغیرہ دینی پڑے تو وہ تم ادا کرنا اور میں مر جائوں تو میرا ترکہ تم لے لینا ایسے عہد کرنے والے کو مولی الموالاۃ کہتے ہیں تو ان لوگوں کو ان کا حصہ دے دو اور حسب وعدہ جو مولیٰ مولاۃ کا حق ہے وہ ان کو دے دو ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگراں اور ہر چیز پر مطلع ہے۔ (تیسیر) مولی کے معنی ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ناصر، حامی، سرپرست، آقا، آزاد شدہ غلام غلام کو آزاد کرنے والا بھتیجا، پڑوسی، غرض بہت سے معنی ہیں یہاں وارث مراد ہے خواہ وارث ذوی الفروض ہوں یا عصبات یا ذوی الارحام حضرت عبداللہ عباس سے موالی کی تفسیر صرف عصبات منقول ہے۔ عقدت ایمانکم وہ لوگ جن سے تمہارا عہد ہوا ہو چونکہ عہد کرتے وقت یا آپس میں حلف کرتے وقت ہاتھ ملایا کرتے تھے اور ہاتھ ملا کر عہد کرتے تھے اس لئے عقدت ایمانکم فرمایا کسی عہد پر ہاتھ ملانے کا دستور ہمارے ہاں بھی ہے اگر ہاتھ نہ بھی ملایا جائے تب بھی عہد زبان سے کافی ہے، بہرحال ! زمانہ جاہلیت میں اس قسم کے عہد کا دستور تھا۔ دو شخص آپس میں حلف اور عہد کرلیا کرتے تھے یہ عہد ایک دوسرے کی باہمی امداد اور خیر خواہی اور دیت پر ہوا کرتا تھا اور ان دونوں میں سے جو مرجاتا تھا اس کے مال کا وارث بھی وہی حلیف ہوتا تھا۔ یہ لوگ مولی الموالاۃ کہلاتے تھے اور مولی الموالات کو باقاعدہ وارث سمجھا جاتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں مہاجرین اور انصار کے مابین جو بھائی چارہ قائم کیا تھا وہ بھی اسی دستور کے مطابق تھا، پھر ایک طرف تو مسلمانوں کی تعداد بڑھتی گئی اور دوسری طرف میراث کے احکام نازل ہوتے رہے یاں تک کہ مولی الموالات کا چھٹا حصہ مقرر کردیا گیا۔ فاتو ھم نصیبھم میں شاید اسی چھٹے حصہ کی طرف اشارہ ہو اس کے بعد کچھ اور تبدیلیاں ہوئیں یہاں تک کہ مولی الموالات کا حصہ ختم ہوگیا۔ البتہ عہد کا اثر باقی رہا کہ اگر دو آدمی آپس میں ایسا کوئی عہد کریں اور حلف کریں تو سوائے ورثہ کے اور تمام امور میں اس عہد کو پورا کرنا چاہئے یعنی مدد، خیر خواہی اور افادت وغیرہ بدستور کرنی چاہئے۔ البتہ میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا اگر اس قسم کے معاہدین کے کچھ ورثاء ہوں خواہ وہ ذوی الفروض ہوں یا عصبہ ہوں یا ذوی الارحام ہوں تو تمام ترکہ ان پر ہی تقسیم ہوگا، مولی الموالاۃ کو کچھ نہیں ملے گا۔ البتہ مولی الموالاۃ کے لئے وصیت جائز ہوگی۔ جیسے متنبی کے لئے یا منہ بولے بھائی کے لئے کوئی وصیت کر دے تو وہ وصیت جاری ہوگی بشرطیکہ ثلث مال سے زائد نہ ہو اور ایسے معاہدین کا کوئی وارث ہی نہ ہو تو امام امالک اور امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ پھر بھی مولی الموالاۃ کو کچھ نہیں ملے گا اور تمام ترکہ بیت المال میں داخل کردیا جائے گا۔ لیکن امام ابوحنیفہ اور امام احمد کے نزدیک ایسی حالت میں کل میراث مولی الموالاۃ کو ملے گی اور یہ جو حدیث میں آیا ہے لا حلف فی الاسلام اس کا مطلب یہ ہے کہ آپس میں ترکہ پر جو عہد و پیمان اور قسما قسمی کا قاعدہ جاری تھا وہ باقی نہیں رہا اور جیسا پہلے ورثاء کو محروم کردیا جاتا تھا اور عہد کرنے والے کو ترکہ مل جاتا تھا وہ بات ختم ہوگئی ۔ یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یہ عہد دونوں طرف سے ہونا ضروری نہیں بلکہ کبھی ایک ہی طرف سے ہوتا ہے اور جس طرح یہ عہد ہوسکتا ہے اسی طرح بعض وجوہ سے فسخ بھی ہوسکتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اکثر لوگ حضرت کے ساتھ اکیلے مسلمان ہوئے تھے ان کے اقرباء کافر رہے تو حضرت نے دو دو مسلمانوں کو آپس میں بھائی کردیا وہی ایک دوسرے کے وارث ہوتے جب ان کے اقرباء مسلمان ہوئے تب یہ آیت اتری کہ میراث ہے قرابت ہی پر اور قول کے بھائیوں سے زندگی میں سلوک رہے یا مرتے وقت کچھ وصیت کردو۔ (موضح القرآن) اور یہ جو ہم نے عرض کیا تھا کہ دو عہد کرنے والوں میں مدد اور خیر خواہی وغیرہ جاری رہنی چاہئے یہ حضرت عبداللہ بن عباس کے ایک قول کی بنا پر عرض کیا ہے ۔ حضرت جرالامتہ ؓ نے فاتوھم نصیبھم کے یہی معنی کئے ہیں چونکہ اوپر کی آیت میں ایک فطری اور طبعی فضیلت کا ذکر فرمایا تھا اور اس قسم کی فضیلت پر ہوس و حرص کی ممانعت فرمائی تھی اور ہر ایک مرد اور عورت کی استعداد کا ذکر فرمایا تھا جس سے مرد و عورت کا فرق سمجھ میں آتا تھا اب اس کی تفصیل ہے کیونکہ جب دونوں میں فرق ہے تو یقینا ان کے حقوق بھی جدا جدا ہوں گے اور ان حقوق میں کبھی کبھی اختلاف بھی پیدا ہوگا۔ اس لئے آگے کی آیتیں ان ہی حقوق کو ظاہر کرتی ہیں اور اختلاف کی صورت میں فیصلے کا طریقہ بتاتی ہیں۔ (تسہیل)
Top