Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور جب کہا موسیٰ نے اپنے جوان کو میں نہ ہٹوں گا جب تک پہنچ جاؤں جہاں ملتے ہیں دو دریا یا چلا جاؤں قرنوں
خلاصہ تفسیر
اور وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ ؑ نے اپنے خادم سے (جن کا نام یوشع تھا رواہ البخاری) فرمایا کہ میں (اس سفر میں) برابر چلا جاؤں گا یہاں تک کہ اس موقع پر پہنچ جاؤں جہاں دو دریا آپس میں ملے ہیں یا یوں ہی زمانہ دراز تک چلتا رہوں گا (اور وجہ اس سفر کی یہ ہوئی تھی کہ ایک بار حضرت موسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل میں وعظ فرمایا تو کسی نے پوچھا کہ اس وقت آدمیوں میں سب سے بڑا عالم کون شخص ہے ؟ آپ نے فرمایا میں ! مطلب یہ تھا کہ ان علوم میں کہ جن کو قرب الی اللہ کی تحصیل میں دخل ہے میرے برابر کوئی نہیں اور یہ فرمانا صحیح تھا اس لئے کہ آپ نبی اولو العزم تھے آپ کے برابر دوسرے کو یہ علم نہیں تھا لیکن ظاہراً لفظ مطلق تھا اس لئے اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ آپ کو احتیاط فی الکلام کی تعلیم دی جائے غرض ارشاد ہوا کہ ہمارا بندہ مجمع البحرین میں تم سے زیادہ علم رکھتا ہے مطلب یہ تھا کہ بعض علوم میں وہ زیادہ ہے گو ان علوم کو قرب الہی میں دخل نہ ہو جیسا عنقریب واضح ہوگا لیکن اس بناء پر جواب میں مطلقاً تو اپنے کو اعلم کہنا نہ چاہئے تھا غرض موسیٰ ؑ ان کے ملنے کے مشتاق ہوئے اور پوچھا کہ ان تک پہنچنے کی کیا صورت ہے ؟ ارشاد ہوا کہ ایک بےجان مچھلی اپنے ساتھ لے کر سفر کرو جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ہے۔
اس وقت موسیٰ ؑ نے یوشع کو ساتھ لیا اور یہ بات فرمائی) پس جب (چلتے چلتے) دونوں دریاؤں کے جمع ہونے کے موقع پر پہنچنے (وہاں کسی پتھر سے لگ کر سو رہے اور وہ مچھلی باذنہ تعالیٰ زندہ ہو کر دریا میں جا پڑی یوشع ؑ نے بیدار ہو کر مچھلی کو نہ پایا ارادہ تھا کہ موسیٰ ؑ جاگیں گے تو اس کا ذکر کروں گا مگر ان کو مطلق یاد نہ رہا شاید اہل و عیال اور وطن وغیرہ کے خیالات کا ہجوم ہوا ہوگا جو ذکر کرنا بھول گئے ورنہ ایسی عجیب بات کا بھول جانا کم ہوتا ہے لیکن جو شخص ہر وقت معجزات دیکھتا رہتا ہو اس کے ذہن سے کسی ادنیٰ درجی کہ عجیب بات کا نکل جانا کسی خیال کے غلبہ سے عجب نہیں اور موسیٰ ؑ کو بھی پوچھنے کا خیال نہ رہا، اس طرح سے) اس اپنی مچھلی کو دونوں بھول گئے اور مچھلی نے (اس کے قبل زندہ ہو کر) دریا میں اپنی راہ لی اور چل دی پھر جب دونوں (وہاں سے) آگے بڑھ گئے (اور دور نکل گئے) تو موسیٰ ؑ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ ہمارا ناشتہ تو لاؤ ہم کو تو اس سفر (یعنی آج کی منزل) میں بڑی تکلیف پہنچی (اور اس کے قبل کی منزلوں میں نہیں تھکے تھے جس کی وجہ ظاہراً موقع مقصود سے آگے بڑھ آنا تھا) خادم نے کہا کہ لیجئے دیکھئے (عجیب بات ہوئی) جب ہم اس پتھر کے قریب ٹھہرے تھے (اور سوگئے تھے اس وقت اس مچھلی کا ایک قصہ ہوا اور میرا ارادہ آپ سے ذکر کرنے کا ہوا لیکن میں کسی دوسرے دھیان میں لگ گیا) سو میں اس مچھلی (کے تذکرہ) کو بھول گیا اور مجھ کو شیطان ہی نے بھلا دیا کہ میں اس کو ذکر کرتا اور (وہ قصہ یہ ہوا کہ) اس مچھلی نے (زندہ ہونے کے بعد) دریا میں عجیب طور پر اپنی راہ لی (ایک عجیب طور پر تو خود زندہ ہوجانا ہے دوسرا عجیب طور یہ کہ وہ مچھلی دریا میں جہاں کو گذری تھی وہاں کا پانی بطور خرق عادت کے اسی طرح سرنگ کے طور پر ہوگیا تھا غالباً پھر مل گیا ہوگا) موسیٰ ؑ نے (یہ حکایت سن کر) فرمایا کہ یہ ہی وہ موقع ہے جس کی ہم کو تلاش تھی (وہاں ہی لوٹنا چاہئے) سو دونوں اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے الٹے لوٹے (غالباً وہ راستہ سڑک کا نہ ہوگا اس لئے نشان دیکھنے پڑھے) سو (وہاں پہنچ کر) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (یعنی خضر) کو پایا جن کو ہم نے اپنی خاص رحمت (یعنی مقبولیت) دی تھی (مقبولیت کے معنی میں ولایت اور نبوت دونوں کا احتمال ہے) اور ہم نے ان کو اپنے پاس سے (یعنی بلا واسطہ اسباب اکتساب) ایک خاص طور پر علم سکھلایا تھا (مراد اس سے علم اسرار کونیہ ہے جیسا واقعات آئندہ سے معلوم ہوگا اور اس علم کو حصول قرب الہی میں کچھ دخل نہیں جس علم کو قرب میں دخل ہے وہ علم اسرار الہیہ ہے جس میں موسیٰ ؑ بڑھے ہوئے تھے غرض) موسیٰ ؑ نے (ان کو سلام کیا اور ان سے) فرمایا کہ میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں (یعنی آپ مجھے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دیجئے) اس شرط سے کہ جو علم مفید آپ کو (من جانب اللہ) سکھلایا گیا ہے اس میں سے آپ مجھ کو بھی سکھلا دیں ان بزرگ نے جواب دیا آپ سے میرے ساتھ رہ کر (میرے افعال پر) صبر نہ ہو سکے گا (یعنی آپ مجھ پر روک ٹوک کریں گے اور معلم پر تعلیم کے متعلق متعلم کی روک ٹوک کرنے سے مصاحبت مشکل ہے) اور (بھلا) ایسے امور پر (روک ٹوک کرنے سے) آپ کیسے صبر کریں گے جو آپ کے احاطہ واقفیت سے باہر ہیں (یعنی ظاہر میں وہ امور بوجہ منشاء معلوم نہ ہونے کے خلاف شرع نظر آئیں گے اور آپ خلاف شرع امور پر سکوت نہ کرسکیں گے) موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ (نہیں) انشاء اللہ آپ مجھ کو صابر (یعنی ضابط) پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کے خلاف حکم نہ کروں گا (یعنی مثلا اگر روک ٹوک سے منع کردیں گے میں روک ٹوک نہ کروں گا اسی طرح اور کسی بات میں بھی خلاف نہ کروں گا) ان بزرگ نے فرمایا کہ (اچھا) تو اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو (اتنا خیال رہے کہ) مجھ سے کسی بات کی نسبت کچھ پوچھنا نہیں جب تک کہ اس کے متعلق میں خود ہی ابتداً ذکر نہ کر دوں۔

معارف و مسائل
(آیت) وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىهُ اس واقعہ میں موسیٰ سے مراد مشہور پیغمبر موسیٰ بن عمران ؑ ہیں نوف بکالی نے جو دوسرے کسی موسیٰ کی طرف اس واقعہ کو منسوب کیا ہے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی طرف سے اس پر سخت رد منقول ہے۔
اور فتی کے لفظی معنی نوجوان کے ہیں جب یہ لفظ کسی خاص شخص کی طرف منسوب کرکے استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا خادم مراد ہوتا ہے کیونکہ خدمت گار اکثر قوی جوان دیکھ کر رکھا جاتا ہے جو ہر کام انجام دے سکے اور نوکر و خادم کو جوان کے نام سے پکارنا اسلام کا حسن ادب ہے کہ نوکروں کو بھی غلام یا نوکر کہہ کر خطاب نہ کرو بلکہ اچھے لقب سے پکارو اس جگہ فتی کی نسبت موسیٰ ؑ کی طرف ہے اس لئے مراد حضرت موسیٰ ؑ کے خادم اور روایات حدیث میں ہے کہ یہ خادم یوشع بن نون ابن افرائیم بن یوسف ؑ تھے بعض روایات میں ہے کہ یہ موسیٰ ؑ کے بھانجے تھے مگر اس میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا صحیح روایات سے ان کا نام یوشع بن نون ہونا تو ثابت ہے باقی اوصاف و حالات کا ثبوت نہیں (قرطبی)
مجمع البحرین کے لفظی معنی ہر وہ جگہ ہے جہان دو دریا ملتے ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ ایسے مواقع دنیا میں بیشمار ہیں اس جگہ مجمع البحرین سے کونسی جگہ مراد ہے چونکہ قرآن و حدیث میں اس کو معین طور پر نہیں بتلایا اس لئے آثار و قرائن کے اعتبار سے مفسرین کے اقوال اس میں مختلف ہیں قتادہ نے فرمایا کہ بحر فارس و روم کے ملنے کی جگہ مراد ہے ابن عطیہ نے آذر بائیجان کے قریب ایک جگہ کو کہا ہے بعض نے بحر اردن اور بحر قلزم کے ملنے کی جگہ بتلائی ہے بعض نے کہا یہ مقام طنجہ میں واقع ہے ابی بن کعب ؓ سے منقول ہے کہ یہ افریقہ میں ہے سدی نے آرمینیہ میں بتلایا ہے بعض نے بحر اندلس جہاں بحر محیط سے ملتا ہے وہ موقع بتلایا ہے واللہ اعلم۔
بہرحال اتنی بات ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو یہ مقام معین کرکے بتلا دیا تھا جس کی طرف ان کا سفر واقع ہوا ہے۔ (قرطبی)

قصہ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضر ؑ
اس واقعہ کی تفصیل صحیح بخاری و مسلم میں بروایت حضرت ابی بن کعب اس طرح آئی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ ؑ اپنی قوم بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے آپ سے یہ سوال کیا کہ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے (حضرت موسیٰ ؑ کے علم میں اپنے سے زیادہ علم والا کوئی تھا نہیں اس لئے) فرمایا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں (اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بارگاہ انبیاء (علیہم السلام) کو خاص تربیت دیتے ہیں اس لئے یہ بات پسند نہ آئی بلکہ ادب کا مقتضی یہ تھا کہ اس کو اللہ کے علم کے حوالے کرتے یعنی یہ کہہ دیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ ساری مخلوق میں اعلم کون ہے) حضرت موسیٰ ؑ کے اس جواب پر اللہ تعالیٰ کا عتاب ہوا موسیٰ ؑ پر وحی آئی کہ ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین پر ہے وہ آپ سے زیادہ اعلم ہے (موسیٰ ؑ کو جب یہ معلوم ہوا تو اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ جب وہ مجھ سے زیادہ اعلم ہیں تو مجھے ان سے استفادہ کے لئے سفر کرنا چاہئے) اس لئے عرض کیا یا اللہ مجھے ان کا پتہ نشان بتلا دیا جائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لو اور مجمع البحرین کی طرف سفر کرو جس جگہ پہنچ کر یہ مچھلی گم ہوجائے پس وہی جگہ ہمارے اس بندے کے ملنے کی ہے موسیٰ ؑ نے حکم کے مطابق ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی اور چل دیئے۔
ان کے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون بھی تھے دوران سفر ایک پتھر کے پاس پہنچ کر اس پر سر رکھ کر لیٹ گئے یہاں اچانک یہ مچھلی حرکت میں آگئی اور زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی اور (مچھلی کے زندہ ہو کر دریا میں چلے جانے کے ساتھ ایک دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ) جس راستہ سے مچھلی دریا میں گئی اللہ تعالیٰ نے وہاں پانی کا جریان روک دیا اور اس جگہ پانی کے اندر ایک سرنگ جیسی ہوگئی (یوشع بن نون اس عجیب واقعہ کو دیکھ رہے تھے موسیٰ ؑ سو گئے تھے) جب بیدار ہوئے تو یوشع بن نون مچھلی کا یہ عجیب معاملہ حضرت موسیٰ ؑ کو بتلانا بھول گئے اور اس جگہ سے پھر روانہ ہوگئے پورے ایک دن ایک رات کا مزید سفر کیا جب دوسرے روز کی صبح ہوگئی تو موسیٰ ؑ نے اپنے رفیق سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ کیونکہ اس سفر سے کافی تھکان ہوچکا ہے آنحضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ (بقضائے الہی) موسیٰ ؑ کو اس سے پہلے تھکان بھی محسوس نہیں ہوا یہاں تک کہ جس جگہ پہنچنا تھا اس سے آگے نکل آئے جب موسیٰ ؑ نے ناشتہ طلب کیا تو یوشع بن نون کو مچھلی کا واقعہ یاد آیا اور اپنے بھول جانے کا عذر کیا کہ شیطان نے مجھے بھلا دیا تھا کہ اس وقت آپ کو اس واقعہ کی اطلاع نہ کی اور پھر بتلایا کہ وہ مردہ مچھلی تو زندہ ہو کر دریا میں ایک عجیب طریقہ سے چلی گئی اس پر موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ وہی تو ہمارا مقصد تھا (یعنی منزل مقصود وہی تھی جہاں مچھلی زندہ ہو کر گم ہوجائے)
چنانچہ اسی وقت روانہ ہوگئے اور ٹھیک اسی راستہ سے لوٹے جس پر پہلے چلے تھے تاکہ وہ جگہ مل جائے اب جو یہاں اس پتھر کے پاس پہنچنے تو دیکھا کہ اس پتھر کے پاس ایک شخص سر سے پاؤں تک چادر تانے ہوئے لیٹا ہے موسیٰ ؑ نے (اسی حال میں) سلام کیا تو خضر ؑ نے کہا کہ اس (غیر آباد) جنگل میں سلام کہاں سے آگیا اس پر موسیٰ ؑ نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں تو حضرت خضر ؑ نے سوال کیا کہ موسیٰ بنی اسرائیل ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں موسیٰ بنی اسرائیل ہوں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے وہ خاص علم سکھلا دیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے۔
خضر ؑ نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے اے موسیٰ میرے پاس ایک علم ہے جو اللہ نے مجھے دیا ہے وہ آپ کے پاس نہیں اور ایک علم آپ کو دیا ہے جو میں نہیں جانتا موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی کام میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گا۔
حضرت خضر ؑ نے فرمایا کہ اگر آپ میرے ساتھ چلنے ہی کو تیار ہیں تو کسی معاملہ کے متعلق مجھ سے کچھ پوچھنا نہیں جب تک کہ میں خود آپ کو اس کی حقیقت نہ بتلاؤں۔
یہ کہہ کر دونوں حضرات دریا کے کنارے کنارے چلنے لگے اتفاقاً ایک کشتی آگئی تو کشتی والوں سے کشتی پر سوار ہونے کی بات چیت کی ان لوگوں نے حضرت خضر ؑ کو پہچان لیا اور ان سب لوگوں کو بغیر کسی کرایہ اور اجرت کے کشتی میں سوار کرلیا کشتی میں سوار ہوتے ہی خضر ؑ نے ایک کلہاڑی کے ذریعہ کشتی کا ایک تختہ نکال ڈالا حضرت موسیٰ ؑ (سے نہ رہا گیا) کہنے لگے کہ ان لوگوں نے بغیر کسی معاوضہ کے ہمیں کشتی میں سوار کرلیا آپ نے اس کا یہ بدلہ دیا کہ ان کی کشتی توڑ ڈالی کہ یہ سب غرق ہوجائیں یہ تو آپ نے بہت برا کام کیا۔
خضر ؑ نے کہا کہ میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے اس پر موسیٰ ؑ نے عذر کیا کہ میں اپنا وعدہ بھول گیا تھا اس بھول پر آپ سخت گیری نہ کریں
رسول کریم ﷺ نے یہ واقعہ نقل کرکے فرمایا کہ موسیٰ ؑ کا پہلا اعتراض خضر ؑ پر بھول سے ہوا تھا اور دوسرا بطور شرط کے ایک تیسرا قصداً (اسی اثناء میں) ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ کر اس نے دریا میں سے ایک چونچ بھر پانی لیا خضر ؑ نے موسیٰ ؑ کو خطاب کرکے کہا کہ میرا علم اور آپ کا علم دونوں مل کر بھی اللہ کے علم کے مقابلہ میں اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے جتنی اس چڑیا کی چونچ کے پانی کو اس سمندر کے ساتھ ہے۔
پھر کشتی سے اتر کر دریا کے ساحل پر چلنے لگے اچانک خضر ؑ نے ایک لڑکے کو دیکھا کہ دوسرے لڑکوں میں کھیل رہا ہے خضر ؑ نے اپنے ہاتھ سے اس لڑکے کا سر اس کے بدن سے الگ کردیا لڑکا مر گیا موسیٰ ؑ نے کہا کہ آپ نے ایک معصوم جان کو بغیر کسی جرم کے قتل کردیا یہ تو آپ نے بڑا ہی گناہ کیا خضر ؑ نے کہا کہ کیا میں نے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے موسیٰ نے دیکھا کہ یہ معاملہ پہلے معاملہ سے زیادہ سخت ہے اس لئے کہا کہ اگر اس کے بعد میں نے آپ سے کوئی بات پوچھی تو آپ مجھے اپنے ساتھ سے الگ کر دیجئے آپ میری طرف سے عذر کی حد پر پہنچ چکے ہیں۔
اس کے بعد پھر چلنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک گاؤں پر گذر ہوا انہوں نے گاؤں والوں سے درخواست کی کہ ہمیں اپنے یہاں مہمان رکھ لیجئے انہوں نے انکار کردیا اس بستی میں ان لوگوں نے ایک دیوار کو دیکھا کہ گرا چاہتی ہے حضرت خضر ؑ نے اس کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کھڑا کردیا موسیٰ ؑ نے تعجب سے کہا کہ ہم نے ان لوگوں سے مہمانی چاہی تو انہوں نے انکار کردیا آپ نے اتنا بڑا کام کردیا اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت ان سے لے سکتے تھے خضر ؑ نے کہا کہ (آیت) ھٰذَا فِرَاقُ بَيْنِيْ وَبَيْنِكَ (یعنی اب شرط پوری ہوچکی اس لئے ہماری اور آپ کی مفارقت کا وقت آگیا ہے)
اس کے بعد خضر ؑ نے تینوں واقعات کی حقیقت حضرت موسیٰ ؑ کو بتلا کر کہا (آیت) ذٰلِكَ تَاْوِيْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَيْهِ صَبْرًا یعنی یہ ہے حقیقت ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہیں ہوسکا رسول کریم ﷺ نے یہ پورا واقعہ ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ جی چاہتا ہے کہ موسیٰ ؑ اور کچھ صبر کرلیتے تو ان دونوں کی اور کچھ خبریں معلوم ہوجاتیں (انتہی)
صحیح بخاری و مسلم میں یہ طویل حدیث اس طرح آئی ہے جس میں حضرت موسیٰ ؑ کا موسیٰ بنی اسرائیل اور نوجوان ساتھی کا نام یوشع بن نون ہونا اور جس بندے کی طرف موسیٰ ؑ کو مجمع البحرین کی طرف بھیجا گیا تھا ان کا نام خضر ہونا تصریحاً مذکور ہے آگے آیات قرآن کے ساتھ ان کے مفہوم اور تفسیر کو دیکھئے۔

سفر کے بعض آداب اور پیغمبرانہ عزم کا ایک نمونہ
(آیت) لَآ اَبْرَحُ حَتّٰى اَبْلُغَ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِيَ حُقُبًا یہ جملہ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے رفیق سفر یوشع بن نون سے کہا جس کا مطلب اپنے سفر کا رخ اور منزل مقصود رفیق کو بتانا تھا اس میں بھی حسن ادب ہے کہ سفر کی ضروری باتوں سے اپنے رفیق اور خادم کو بھی باخبر کردینا چاہئے متکبر لوگ اپنے خادموں اور نوکروں کو نہ قابل خطاب سمجھتے ہیں نہ اپنے سفر کے متعلق ان کو کچھ بتاتے ہیں۔
حُقُبًا۔۔ حقبہ کی جمع ہے اہل لغت نے کہا کہ حقبہ اسی سال کی مدت ہے بعض نے اس سے زیادہ کو حقبہ قرار دیا صحیح یہ ہے کہ زمانہ دراز کو کہا جاتا ہے تحدید و تعیین کچھ نہیں حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے رفیق کو یہ بتلا دیا کہ مجھے مجمع البحرین کی اس جگہ پر پہنچنا ہے جہاں کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا ہے اور عزم یہ ہے کہ کتنا ہی زمانہ سفر میں گذر جائے جب تک اس منزل مقصود پر نہ پہنچوں سفر جاری رہے گا اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں پیغمبرانہ عزم ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔
Top