Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 61
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا نَسِیَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا
فَلَمَّا : پھر جب بَلَغَا : وہ دونوں پہنچے مَجْمَعَ : ملنے کا مقام بَيْنِهِمَا : دونوں کے درمیان نَسِيَا : وہ بھول گئے حُوْتَهُمَا : اپنی مچھلی فَاتَّخَذَ : تو اس نے بنا لیا سَبِيْلَهٗ : اپنا راستہ فِي الْبَحْرِ : دریا میں سَرَبًا : سرنگ کی طرح
پھر بج پہنچے دونوں دریا کے ملاپ تک بھول گئے اپنی مچھلی پھر اس نے اپنی راہ کرلی دریا میں سرنگ بنا کر
حضرت موسیٰ ؑ کا خضر ؑ سے افضل ہونا موسیٰ ؑ کی خاص تربیت اور ان کے معجزے
(آیت) فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَهٗ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا قرآن و سنت کی تصریحات سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کو انبیاء (علیہم السلام) کی جماعت میں بھی ایک خاص امتیاز حاصل ہے اللہ تعالیٰ کی ہم کلامی کا خاص شرف ان کی مخصوص فضیلت ہے اور حضرت خضر ؑ کی تو نبوت میں بھی اختلاف ہے اور نبوت کو تسلیم بھی کیا جائے تو مقام رسالت حاصل نہیں نہ ان کی کوئی کتاب ہے نہ کوئی خاص امت اس لئے بہرحال موسیٰ ؑ خضر ؑ سے بدرجہا افضل ہیں لیکن حق تعالیٰ اپنے مقربین کی ادنیٰ سی کمی اور کوتاہی کی اصلاح فرماتے ہیں ان کی تربیت کے لئے ادنیٰ سی کوتاہی پر بھی سخت عتاب ہوتا ہے اس کا تدراک بھی ان سے اسی پیمانے پر کرایا جاتا ہے یہ سارا قصہ اسی خاص انداز تربیت کا مظہر ہے ان کی زبان سے یہ کلمہ نکل گیا تھا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں حق تعالیٰ کو یہ پسند نہ آیا تو ان کی تنبیہ کے لئے اپنے ایک ایسے بندے کا ان کو پتہ دیا گیا جن کے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک خاص علم تھا جو موسیٰ ؑ کے پاس نہیں تھا اگرچہ موسیٰ ؑ کا علم ان کے علم سے درجہ میں بہت بڑھا ہوا تھا مگر بہرحال وہ موسیٰ ؑ کو حاصل نہ تھا ادھر موسیٰ ؑ کو حق تعالیٰ نے طلب علم کا ایسا جذبہ عطا فرمایا تھا کہ جب یہ معلوم ہوا کہ کہیں اور بھی علم ہے جو مجھے حاصل نہیں تو اس کے حاصل کرنے کے لئے طالب علمانہ سفر کے لئے تیار ہوگئے اور حق تعالیٰ ہی سے اس بندے (خضر علیہ السلام) کا پتہ پوچھا اب یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو خضر ؑ سے موسیٰ ؑ کی ملاقات یہیں آسانی سے کرا دیتے یا موسیٰ ؑ ہی کو طالب علم بنا کر سفر کرانا تھا تو پتہ صاف بتادیا جاتا جہاں پہنچنے میں پریشانی نہ ہوتی مگر ہوا یہ کہ پتہ ایسا مبہم بتلایا گیا کہ جس جگہ پہنچ کر مری ہوئی مچھلی زندہ ہو کر گم ہوجائے اس جگہ وہ ہمارا بندہ ملے گا۔
صحیح بخاری کی حدیث سے اس مچھلی کے متعلق اتنا ثابت ہوا کہ حق تعالیٰ ہی کی طرف سے یہ حکم ہوا تھا کہ ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لیں اس سے زائد یہ کچھ معلوم نہیں کہ یہ مچھلی کھانے کے لئے ساتھ رکھنے کا حکم ہوا تھا یا کھانے سے علیحدہ دونوں احتمال ہیں اسی لئے سفر کے دونوں ساتھی دوران سفر اس میں سے کھاتے بھی رہے اس کا نصف حصہ کھایا جا چکا تھا اس کے بعد بطور معجزہ یہ بھونی ہوئی اور آدھی کھائی ہوئی مچھلی زندہ ہو کر دریا میں چلی گئی۔
ابن عطیہ اور بعض دوسرے لوگوں نے یہ بھی بیان کیا کہ یہ مچھلی بطور معجزہ کے پھر دنیا میں باقی بھی رہی اور بہت دیکھنے والوں نے دیکھا بھی کہ اس کی صرف ایک کروٹ ہے اور دوسری کھائی ہوئی ہے ابن عطیہ نے خود بھی اپنا دیکھنا بیان کیا ہے (قرطبی)
اور بعض مفسرین نے کہا کہ ناشتہ کھانے کے علاوہ ایک علیحدہ زنبیل میں مچھلی رکھنے کا حکم ہوا تھا اس کے مطابق رکھ لی گئی تھی اس میں بھی اتنی بات تو متعین ہے کہ مچھلی مردہ تھی زندہ ہو کر دریا میں چلا جانا ایک معجزہ ہی تھا۔
بہرحال حضرت خضر ؑ کا پتہ ایسا مبہم دیا گیا کہ آسانی سے جگہ متعین نہ ہو ظاہر یہ ہے کہ یہ بھی حضرت موسیٰ ؑ کا ابتلا و امتحان ہی تھا اس پر مزید امتحان کی صورت یہ پیدا کی گئی کہ جب عین موقع پر یہ لوگ پہنچ گئے تو مچھلی کو بھول گئے آیت قرآنی میں یہ بھول حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے رفیق دونوں کی طرف منسوب کی گئی ہے نَسِيَا حُوْتَهُمَا لیکن حدیث بخاری سے جو قصہ ثابت ہوا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت مچھلی کے زندہ ہو کر دریا میں جانے کا وقت آیا تو موسیٰ ؑ سوئے ہوئے تھے صرف یوشع بن نون نے یہ واقعہ عجیبہ دیکھا اور ارادہ کیا تھا کہ موسیٰ ؑ بیدار ہوجائیں تو ان کو بتلاؤں گا مگر بیداری کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر نسیان مسلط کردیا اور بھول گئے تو یہاں دونوں کی طرف بھولنے کی نسبت ایسی ہوگی جیسے قرآن میں يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤ ْلُؤ ُ وَالْمَرْجَان میں دریائے شیریں اور دریائے شور دونوں سے موتی اور مرجان نکلنے کا بیان آیا ہے حالانکہ موتی و مرجان صرف دریائے شور سے نکلتے ہیں مگر محاورات میں تغلیباً ایسا لکھنا ایک عام بات ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس جگہ سے آگے سفر کرنے کے وقت تو مچھلی کو ساتھ لینا دونوں ہی بزرگ بھولے ہوئے تھے اس لئے دونوں کی طرف نسیان منسوب کیا گیا۔
بہرحال یہ ایک دوسری آزمائش تھی کہ منزل مقصود پر پہنچ کر مچھلی کے زندہ ہو کر پانی میں گم ہوجانے سے حقیقت کھل جاتی ہے اور مقام متعین ہوجاتا ہے مگر ابھی اس طالب حق کا کچھ اور بھی امتحان لینا تھا اس لئے دونوں پر بھول مسلط ہوگئی اور پورے ایک دن اور ایک رات کا مزید سفر طے کرنے کے بعد بھوک اور تھکان کا احساس ہوا یہ تیسرا امتحان تھا کیونکہ عادۃً تھکان اور بھوک کا احساس اس سے پہلے ہوجانا چاہئے تھا وہیں مچھلی یاد آجاتی تو اتنی طویل سفر کی مزید تکلیف نہ ہوتی مگر اللہ تعالیٰ کو منظور یہی تھا کہ کچھ اور مشقت اٹھائے اتنا طویل سفر کرنے کے بعد بھوک پیاس کا احساس ہوا اور وہاں مچھلی یاد آئی اور یہ معلوم ہوا کہ ہم منزل مقصود سے بہت آگے آگئے اس لئے پھر اسی نشان قدم پر واپس لوٹے۔
مچھلی کے دریا میں چلے جانے کا ذکر پہلی مرتبہ تو سَرَبًا کے لفظ سے آیا ہے سرب کے معنی سرنگ کے ہیں جو پہاڑوں میں راستہ بنانے کے لئے کھودی جاتی ہے یا شہروں میں زمین دوز راستہ بنانے کے لئے کھودی جاتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ مچھلی جب دریا میں گئی تو جس طرف کو جاتی پانی میں ایک سرنگ سی بنتی چلی گئی کہ اس کے جانے کا راستہ پانی سے کھلا رہا جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت سے واضح ہوا دوسری مرتبہ جب یوشع بن نون نے موسیٰ ؑ سے اس واقعہ کا ذکر سفر طویل کے بعد کیا وہاں واتَّخَذَ سَبِيْلَهٗ فِي الْبَحْرِڰ عَجَبًا کے الفاظ سے اس واقعہ کو بیان کیا ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پانی کے اندر سرنگ بنتے چلے جانا خود ایک واقعہ عجیبہ، خرق عادت تھا۔
Top