Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 219
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ١ؕ قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ١٘ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا١ؕ وَ یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلِ الْعَفْوَ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ پوچھتے ہیں آپ سے عَنِ : سے الْخَمْرِ : شراب وَالْمَيْسِرِ : اور جوا قُلْ : آپ کہ دیں فِيْهِمَآ : ان دونوں میں اِثْمٌ : گناہ كَبِيْرٌ : بڑا وَّمَنَافِعُ : اور فائدے لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاِثْمُهُمَآ : اور ان دونوں کا گناہ اَكْبَرُ : بہت بڑا مِنْ : سے نَّفْعِهِمَا : ان کا فائدہ وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے مَاذَا : کیا کچھ يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں قُلِ : آپ کہ دیں الْعَفْوَ : زائد از ضرورت كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کرو
تجھ سے پوچھتے ہیں حکم شرابکا اور جوئے کا کہہ دے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور فائدے بھی لوگوں کو اور ان کا گناہ بہت بڑا ہے ان کے فائدے سے۔ اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کہہ دے جو بچے اپنے خرچ سے اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ تمہارے واسطے حکم تاکہ تم فکر کرو،
خلاصہ تفسیر
پندرہواں حکم متعلقہ شراب وقمار
لوگ آپ سے شراب اور قمار کی نسبت دریافت کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ ان دونوں (چیزوں کے استعمال) میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی (پیدا ہوجاتی) ہیں اور لوگوں کو (بعضے) فائدے بھی ہیں اور (وہ) گناہ کی باتیں ان فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں (اس لئے دونوں قابل ترک ہیں)

معارف و مسائل
صحابہ کرام ؓ اجمعین کے سوالات اور ان کے جوابات کا جو سلسلہ اس سورت میں بیان ہو رہا ہے، اس میں یہ آیت بھی ہے اس میں شراب اور جوُئے کے متعلق صحابہ کرام ؓ اجمعین کا سوال اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ہے، یہ دونوں مسئلے نہایت اہم ہیں اس لئے کسی قدر تفصیل کے ساتھ ان کی پوری حقیقت اور احکام سنئے۔
حرُمت شراب اور اس کے متعلقہ احکام
ابتداء اسلام میں عام رسوم جاہلیت کی طرح شراب خوری بھی عام تھی جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ میں بھی شراب اور قمار یعنی جوا کھیلنے کا رواج تھا عام لوگ تو ان دونوں چیزوں کے صرف ظاہری فوائد کو دیکھ کر ان پر فریفتہ تھے ان کے اندر جو بہت سے مفاسد اور خرابیاں ہیں ان کی طرف نظر نہیں تھی لیکن عادۃ اللہ یہ بھی ہے کہ ہر قوم اور ہر خطہ میں کچھ عقل والے بھی ہوتے ہیں جو طبیعت پر عقل کو غالب رکھتے ہیں کوئی طبعی خواہش اگر عقل کے خلاف ہو تو وہ اس خواہش کے پاس نہیں جاتے اس معاملہ میں نبی کریم ﷺ کا مقام تو بہت ہی بلند تھا کہ جو چیز کسی وقت حرام ہونے والی تھی آپ کی طبیعت اس سے پہلے ہی نفرت کرتی تھی صحابہ کرام ؓ اجمعین میں بھی کچھ ایسے حضرات تھے جنہوں نے حلال ہونے کے زمانے میں بھی کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد چند حضرات صحابہ کرام ؓ اجمعین کو ان کے مفاسد کا زیادہ احساس ہوا۔ حضرت فاروق اعظم اور معاذ بن جبل اور چند انصاری صحابہ کرام ؓ اجمعین اسی احساس کی بناء پر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ شراب اور قمار انسان کی عقل کو بھی خراب کرتے ہیں اور مال بھی برباد کرتے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا ارشاد ہے اس سوال کے جواب میں آیت مذکورہ نازل ہوئی یہ پہلی آیت ہے جس میں شراب اور جوئے سے مسلمانوں کو روکنے کا ابتدائی قدم اٹھایا گیا۔
اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ شراب اور جوئے میں اگرچہ لوگوں کے کچھ ظاہری فوائد ضرور ہیں لیکن ان دونوں میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں پیدا ہوجاتی ہیں جو ان کے منافع اور فوائد سے بڑھی ہوئی ہیں اور گناہ کی باتوں سے وہ چیزیں مراد ہیں جو کسی گناہ کا سبب بن جائیں مثلاً شراب میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ عقل وہوش زائل ہوجاتا ہے جو تمام کمالات اور شرف انسانی کا اصل اصول ہے کیونکہ عقل ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسانوں کو برے کاموں سے روکتی ہے جب وہ نہ رہی تو ہر برے کام کے لئے راستہ ہموار ہوگیا۔
اس آیت میں صاف طور پر شراب کو حرام تو نہیں کہا گیا مگر اس کی خرابیاں اور مفاسد بیان کردیئے گئے کہ شراب کی وجہ سے انسان بہت سے گناہوں اور خرابیوں میں مبتلا ہوسکتا ہے گویا اس کے ترک کرنے کے لئے ایک قسم کا مشورہ دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بعض صحابہ کرام ؓ اجمعین تو اس مشورہ ہی کو قبول کرکے اسی وقت شراب کو چھوڑ بیٹھے اور بعض نے یہ خیال کیا کہ اس آیت نے شراب کو حرام تو کیا نہیں بلکہ مفاسد دینی کا سبب بننے کی وجہ سے اس کو سبب گناہ قرار دیا ہے ہم اس کا اہتمام کریں گے کہ وہ مفاسد واقع نہ ہوں تو پھر شراب میں کوئی حرج نہیں اس لئے پیتے رہے یہاں تک کہ ایک روز یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے صحابہ کرام میں سے چند اپنے دوستوں کی دعوت کی، کھانے کے بعد حسب دستور شراب پی گئی اسی حال میں نماز مغرب کا وقت آگیا سب نماز کے لئے کھڑے ہوگئے تو ایک صاحب کو امامت کے لئے آگے بڑھایا انہوں نے نشہ کی حالت میں جو تلاوت شروع کی تو سورة قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ کو غلط پڑھا اس پر شراب سے روکنے کے لئے دوسرا قدم اٹھایا گیا اور یہ آیت نازل ہوئی يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى (43: 4) یعنی اے ایمان والو تم نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ ،
اس میں خاص اوقات نماز کے اندر شراب کو قطعی طور پر حرام کردیا گیا باقی اوقات میں اجازت رہی جن حضرات صحابہ کرام ؓ اجمعین نے پہلی آیت نازل ہونے کے وقت شراب کو نہ چھوڑا تھا اس آیت کے نازل ہونے کے وقت شراب کو مطلقاً ترک کردیا کہ جو چیز انسان کو نماز سے روکے اس میں کوئی خیر نہیں ہوسکتی جب نشہ کی حالت میں نماز کی ممانعت ہوگئی تو ایسی چیز کے پاس نہ جانا چاہئے جو انسان کو نماز سے محروم کردے مگر چونکہ علاوہ اوقات نماز کے شراب کی حرمت صاف طور پر اب بھی نازل نہیں ہوئی تھی اس لئے کچھ حضرات اب بھی اوقات نماز کے علاوہ دوسرے اوقات میں پیتے رہے یہاں تک کہ ایک اور واقعہ پیش آیا۔ عتبان بن مالک نے چند صحابہ کرام ؓ اجمعین کی دعوت کی جن میں سعد بن ابی وقاص بھی تھے کھانے کے بعد حسب دستور شراب کا دور چلا نشہ کی حالت میں عرب کی عام عادت کے مطابق شعر و شاعری اور اپنے اپنے مفاخر کا بیان شروع ہوا سعد بن ابی وقاص نے ایک قصیدہ پڑھا جس میں انصار مدینہ کی ہجو اور اپنی قوم کی مدح وثناء تھی اس پر ایک انصاری نوجوان کو غصہ آگیا اور اونٹ کے جبڑے کی ہڈی سعد کے سر پر دے ماری جس سے ان کو شدید زخم آگیا حضرت سعد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس انصاری جوان کی شکایت کی اس وقت آنحضرت ﷺ نے دعاء فرمائی۔ اللہم بین لنا فی الخمر بیاناً شافعاً یعنی یا اللہ شراب کے بارے میں ہمیں کوئی واضح بیان اور قانون عطاء فرمادے اس پر شراب کے متعلق تیسری آیت سورة مائدہ کی مفصل نازل ہوگئی جس میں شراب کو مطلقاً حرام قرار دے دیا گیا آیت یہ ہے
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ (91: 5) یعنی اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت اور جوئے کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو اس سے بالکل الگ الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے آپس میں بغض اور عدوات پیدا کردے اور اللہ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو کیا اب بھی باز آؤ گے۔
حرمت شراب کے تدریجی احکام
احکام الہٰیہ کی اصلی اور حقیقی حکمتوں کو تو احکم الحاکمین ہی جانتا ہے مگر احکام شرعیہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اسلام نے احکام میں انسانی جذبات کی بڑی رعایت فرمائی ہے تاکہ انسان کو ان کے اتباع میں زیادہ تکلیف نہ ہو خود قرآن کریم میں فرمایا لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (286: 2) یعنی اللہ تعالیٰ کسی انسان کو ایسا حکم نہیں دیتا جو اس کی قدرت اور وسعت میں نہ ہو، اسی رحمت و حکمت کا تقاضا تھا کہ اسلام نے شراب کے حرام کرنے میں بڑی تدریج سے کام لیا۔
شراب کی تدریجی ممانعت اور حرمت کی قرآنی تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں شراب کے متعلق چار آیتیں نازل ہوئی ہیں جن کا ذکر اوپر آچکا ہے ان میں سے ایک آیت سورة بقرہ کی ہے جس کی تفسیر آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں اس میں شراب سے پیدا ہوجانے والے گناہوں اور مفاسد کا ذکر کرکے چھوڑ دیا گیا ہے حرام نہیں کیا گویا ایک مشورہ دیا کہ یہ چھوڑنے کی چیز ہے مگر چھوڑنے کا حکم نہیں دیا۔
دوسری آیت سورة نسآء کی لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى میں خاص اوقات نماز کے اندر شراب کو حرام کردیا گیا باقی اوقات میں اجازت رہی۔
تیسری اور چوتھی دو آیتیں سورة مائدہ کی ہیں جو اوپر مذکور ہوچکی ہیں ان میں صاف اور قطعی طور پر شراب کو حرام قرار دیدیا۔
شریعت اسلام نے شراب کے حرام کرنے میں اس تدریج سے اس لئے کام لیا کہ عمر بھر کی عادت خصوصاً نشہ کی عادت کو چھوڑ دینا انسانی طبیعت پر انتہائی شاق اور گراں ہوتا، علماء نے فرمایا، فطام العادم اشد من فطام الرضاعۃ یعنی جیسے بچے کو ماں کا دودھ پینے کی عادت چھوڑ دینا بھاری معلوم ہوتا ہے انسان کو اپنی کسی عادت مستمرہ کو بدلنا اس سے زیادہ شدید اور سخت ہے اس لئے اسلام نے حکیمانہ اصول کے مطابق اول اس کی برائی ذہن نشین کرائی پھر نمازوں کے اوقات میں ممنوع کیا پھر ایک خاص مدت کے بعد قطعی طور پر حرام کردیا گیا۔
ہاں جس طرح ابتداً تحریم شراب میں آہستگی اور تدریج سے کام لینا حکمت کا تقاضا تھا اسی طرح حرام کردینے کے بعد اس کی ممانعت کے قانون کو پوری شدت کے ساتھ نافذ کرنا بھی حکمت ہی کا تقاضا تھا اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے شراب کے بارے میں اول سخت وعیدیں عذاب کی بتلائیں ارشاد فرمایا کہ یہ امّ الخبائث اور امّ الفواحش ہے اس کو پی کر آدمی برے سے برے گناہ کا مرتکب ہوسکتا ہے۔
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ شراب اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے یہ روایتیں نسائی میں ہیں اور جامع ترمذی میں حضرت انس کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے شراب کے بارے میں دس آدمیوں پر لعنت فرمائی، نچوڑنے والا، بنانے والا، پینے والا، پلانے والا، اس کو لاد کر لانے والا، اور جس کے لئے لائی جائے، اور اس کا بیچنے والا، خریدنے والا، اس کو ہبہ کرنے والا، اس کی آمدنی کھانے والا، اور پھر صرف زبانی تعلیم و تبلیغ پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ عملی اور قانونی طور پر اعلان فرمایا کہ جس کے پاس کسی قسم کی شراب موجود ہو اس کو فلاں جگہ جمع کردے۔
صحابہ کرام ؓ اجمعین میں تعمیل حکم کا بیمثال جذبہ
فرمانبردار صحابہ کرام نے پہلا حکم پاتے ہی اپنے اپنے گھروں میں جو شراب استعمال کیلئے رکھی تھی اس کو تو اسی وقت بہا دیا، حضرت عبداللہ بن عمر کا بیان ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کے منادی نے مدینہ کی گلیوں میں یہ آواز دی کہ شراب حرام کردی گئی ہے تو جس کے ہاتھ میں جو برتن شراب کا تھا اس کو وہیں پھینک دیا، جس کے پاس کوئی سبو یا خم شراب کا تھا اس کو گھر سے باہر لاکر توڑ دیا، حضرت انس اس وقت ایک مجلس میں دور جام کے ساقی بنے ہوئے تھے۔
ابوطلحہ، ابوعبیدہ بن جراح، ابی بن کعب، سہیل، رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے جلیل القدر صحابہ موجود تھے منادی کی آواز کان میں پڑتے ہی سب نے کہا کہ اب یہ شراب سب گرادو اس کے جام وسبو توڑ دو ، بعض روایات میں ہے کہ اعلان حرمت کے وقت جس کے ہاتھ میں جام شراب لبوں تک پہنچا ہوا تھا اس نے وہیں سے اس کو پھینک دیا مدینہ میں اس روز شراب اس طرح بہہ رہی تھی جیسے بارش کی رَو کا پانی اور مدینہ کی گلیوں میں عرصہ دراز تک یہ حالت رہی کہ جب بارش ہوتی تو شراب کی بو اور رنگ مٹی میں نکھر آتا تھا۔
جس وقت ان کو یہ حکم ملا کہ جس کے پاس کسی قسم کی شراب ہے وہ فلاں جگہ جمع کردے اس وقت صرف وہ ذخیرے کچھ رہ گئے تھے جو مال تجارت کی حیثیت سے بازار میں تھے ان کو فرمانبردار صحابہ کرام نے بلاتامل مقررہ جگہ پر جمع فرمادیا، آنحضرت ﷺ بنفس نفیس تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ سے شراب کے بہت سے مشکیزوں کو چاک کردیا اور باقی دوسرے صحابہ کرام کے حوالہ کرکے چاک کرادیا، ایک صحابی جو شراب کی تجارت کرتے تھے اور ملک شام سے شراب درآمد کیا کرتے تھے اتفاقا اس زمانے میں ابھی ساری رقم جمع کرکے ملک شام سے شراب لینے کے لئے گئے ہوئے تھے اور جب یہ تجارتی مال لے کر واپس ہوئے تو مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی ان کو اعلان حرمت کی خبر مل گئی، جاں نثار صحابی نے اپنے پورے سرمائے اور محنت کی حاصلات کو جس سے بڑے نفع کی امیدیں لئے ہوئے آرہے تھے اعلان حرمت سن کر اسی جگہ ایک پہاڑی پر ڈال دیا اور خود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کیا کہ اب میرے اس مال کے متعلق کیا حکم ہے اور مجھ کو کیا کرنا چاہئے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمان خداوندی کے مطابق حکم دے دیا کہ سب مشکیزوں کو چاک کرکے شراب بہادو، فرمانبردار محب خدا و رسول نے بلا کسی جھجک کے اپنے ہاتھ سے اپنا پورا سرمایہ زمین پر بہادیا، یہ بھی اسلام کا ایک معجزہ اور صحابہ کرام کی حیرت انگیز و بےمثال اطاعت ہے جو اس واقعہ میں ظاہر ہوئی کہ جس چیز کی عادت ہوجائے سب جانتے ہیں کہ چھوڑنا سخت دشوار ہے اور یہ حضرات بھی اس کے ایسے عادی تھے کہ تھوڑی دیر اس سے صبر کرنا دشوار تھا ایک حکم الہٰی اور فرمان نبوی نے ان کی عادات میں ایسا عظیم الشان انقلاب برپا کردیا کہ اب یہ شراب اور جوئے سے ایسے ہی متنفر ہیں جیسے اس سے پہلے ان کے عادی تھے۔
اسلامی سیاست اور عام ملکی سیاستوں کا فرق عظیم
مذکورہ آیات پھر واقعات میں حرمت شراب کے حکم پر مسلمانوں کے عمل کا ایک نمونہ سامنے آگیا ہے جس کو اسلام کا معجزہ کہو یا پیغمبرانہ تربیت کا بےمثال اثر یا اسلامی سیاست کا لازمی نتیجہ کہ نشہ کی عادت جس کے چھوڑنے کا انتہائی دشوار ہونا ہر شخص کو معلوم ہے اور عرب میں اس کا رواج اس حد تک پہنچا ہوا تھا کہ چند گھنٹے اس کے بغیر صبر نہیں کرسکتے تھے وہ کیا چیز تھی جس نے ایک ہی اعلان کی آواز کان میں پڑتے ہی ان سب کے مزاجوں کو بدل ڈالا ان کی عادتوں میں وہ انقلاب پیدا کردیا کہ اب سے چند منٹ پہلے جو چیز انتہائی مرغوب بلکہ زندگی کا سرمایہ تھی وہ چند منٹ کے بعد انتہائی مبغوض اور فحش و ناپاک ہوگئی۔
اس کے بالمقابل آج کی ترقی یافتہ سیاست کی ایک مثال کو سامنے رکھ لیجئے کہ اب سے چند سال پہلے امریکہ کے ماہرین صحت اور سماجی مصلحین نے جب شراب نوشی کی بیشمار اور انتہائی مہلک خرابیوں کو محسوس کرکے ملک میں شراب نوشی کو قانوناً ممنوع کرنا چاہا تو اس کے لئے اپنے نشر و اشاعت کے وہ نئے سے نئے ذرائع جو اس ترقی یافتہ سیاست کا بڑا کمال سمجھے جاتے ہیں سب ہی شراب نوشی کے خلاف ذہن ہموار کرنے پر لگا دیئے سینکڑوں اخبارات اور رسائل اس کی خرابیوں پر مشتمل ملک میں لاکھوں کی تعداد میں شائع کئے گئے پھر امریکی دستور میں ترمیم کرکے امتناع شراب کا قانون نافذ کیا گیا مگر ان سب کا اثر جو کچھ امریکہ میں آنکھوں نے دیکھا اور وہاں کے ارباب سیاست کی رپورٹوں سے دنیا کے سامنے آیا وہ یہ تھا کہ اس ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ قوم نے اس ممانعت قانونی کے زمانے میں عام زمانوں کی نسبت بہت زیادہ شراب استعمال کی یہاں تک کہ مجبور ہو کر حکومت کو اپنا قانون منسوخ کرنا پڑا۔
عرب مسلمانوں اور موجودہ ترقی یافتہ امریکنوں کے حالات و معاملات کا یہ عظیم فرق تو ایک حقیقت اور واقعہ ہے جس کا کسی کو انکار کرنے کی گنجائش نہیں یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس عظیم الشان فرق کا اصلی سبب اور راز کیا ہے۔
ذرا سا غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ شریعت اسلام نے صرف قانون کو قوم کی اصلاح کے لئے کبھی کافی نہیں سمجھا بلکہ قانون سے پہلے ان کی ذہنی تربیت کی اور عبادت وزہادت اور فکر آخرت کے کیمیاوی نسخے سے ان کے مزاجوں میں ایک بڑا انقلاب لاکر ایسے افراد پیدا کردیتے جو رسول کی آواز پر اپنی جان ومال آبرو سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوجائیں، مکی زندگی کے پورے دور میں یہی افراد سازی کا کام ریاضتوں کے ذریعے ہوتا رہا جب جاں نثاروں کی جماعت تیار ہوگئی اس وقت قانون جاری کیا گیا ذہنوں کو ہموار کرنے کے لئے تو امریکہ نے بھی اپنے بےمثال ذرائع استعمال کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ان کے سامنے سب کچھ تھا مگر فکر آخرت نہیں تھی اور مسلمانوں کے رگ وپے میں فکر آخرت سمائی ہوئی تھی کاش ! آج بھی ہمارے عقلاء اس نسخہ کیمیا کو استعمال کرکے دیکھیں تو دنیا کو امن و سکون نصیب ہوجائے۔
شراب کے مفاسد اور فوائد میں موازنہ
اس آیت میں شراب اور قمار دونوں کے متعلق قرآن کریم نے یہ بتلایا ہے کہ ان دونوں میں کچھ مفاسد بھی ہیں اور کچھ فوائد بھی مگر اس کے مفاسد فوائد سے بڑھے ہوئے ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ اس پر نظر ڈالی جائے کہ ان کے فوائد کیا ہیں اور مفاسد کیا اور پھر یہ کہ فوائد سے زیادہ مفاسد ہونے کے کیا وجوہ ہیں آخر میں چند فقہی ضابطے بیان کئے جائیں گے، جو اس آیت سے مستفاد ہوتے ہیں۔
پہلے شراب کو لے لیجئے اس کے فوائد تو عام لوگوں میں مشہور و معروف ہیں کہ اس سے لذت و فرحت حاصل ہوتی ہے اور وقتی طور پر قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے رنگ صاف ہوجاتا ہے مگر ان حقیر وقتی فوائد کے مقابلے میں اس کے مفاسد اتنے کثیر وسیع اور گہرے ہیں کہ شاید کسی دوسری چیز میں اتنے مفاسد اور مضرات نہ ہوں گے بدن انسانی پر شراب کے مضرات یہ ہیں کہ وہ رفتہ رفتہ معدے کے فعل کو فاسد کردیتی ہے، کھانے کی خواہش کم کردیتی ہے، چہرے کی ہیئت بگاڑ دیتی ہے، پیٹ بڑھ جاتا ہے مجموعی حیثیت سے تمام قویٰ پر یہ اثر ہوتا ہے جو ایک جرمن ڈاکٹر نے بیان کیا ہے کہ جو شخص شراب کا عادی ہو چالیس سال کی عمر میں اس کے بدن کی ساخت ایسی ہوجاتی ہے جیسے ساٹھ سالہ بوڑھے کی، وہ جسمانی اور قوت کے اعتبار سے سٹھیائے ہوئے بوڑھوں کی طرح ہوجاتا ہے اس کے علاوہ شراب جگر اور گردوں کو خراب کردیتی ہے سِل کی بیماری شراب کا خاص اثر ہے یورپ کے شہروں میں سِل کی کثرت کا بڑا سبب شراب ہی کو بتلایا جاتا ہے وہاں کے بعضے ڈاکٹروں کا قول ہے کہ یورپ میں آدھی اموات مرض سِل میں ہوتی ہیں اور آدھی دوسرے امراض میں اور اس بیماری کی کثرت یورپ میں اسی وقت سے ہوئی جب سے وہاں شراب کی کثرت ہوئی۔
یہ تو شراب کی جسمانی اور بدنی مضرتیں ہیں اب عقل پر اس کی مضرت کو تو ہر شخص جانتا ہے مگر صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ شراب پی کر جب تک نشہ رہتا ہے اس وقت تک عقل کام نہیں کرتی لیکن اہل تجربہ اور ڈاکٹروں کی تحقیق یہ ہے کہ نشہ کی عادت خود قوت عاقلہ کو بھی ضعیف کردیتی ہے جس کا اثر ہوش میں آنے کے بعد بھی رہتا ہے بعض اوقات جنون تک اس کی نوبت پہنچ جاتی ہے اطباء اور ڈاکٹروں کا اتفاق ہے کہ شراب نہ جزو بدن بنتی ہے اور نہ اس سے خون بنتا ہے جس کی وجہ سے بدن میں طاقت آئے، بلکہ اس کا فعل صرف یہ ہوتا ہے کہ خون میں ہیجان پیدا کردیتی ہے جس سے وقتی طور پر قوت کی زیادتی محسوس ہونے لگتی ہے اور یہی خون کا دفعۃ ہیجان بعض اوقات اچانک موت کا سبب بھی بن جاتا جس کو ڈاکٹر ہارٹ فیل ہونے سے تعبیر کرتے ہیں۔
شراب سے شرائین یعنی وہ رگیں جن کے ذریعے سارے بدن میں روح پہنچتی ہے سخت ہوجاتی ہیں جس سے بڑھاپا جلدی آجاتا ہے شراب کا اثر انسان کے حلقوم اور تنفس پر بھی خراب ہوتا ہے جس کی وجہ سے آواز بھاری ہوجاتی ہے اور کھانسی دائمی ہوجاتی ہے اور وہی آخرکار سِل تک نوبت پہنچا دیتی ہے، شراب کا اثر نسل پر بھی برا پڑتا ہے شرابی کی اولاد کمزور رہتی ہے اور بعض اوقات اس کا نتیجہ قطع نسل تک پہنچتا ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ شراب پینے کی ابتدائی حالت میں بظاہر انسان اپنے جسم میں چستی و چالاکی اور قوت محسوس کرتا ہے اسی لئے بعض لوگ جو اس میں مبتلا ہوتے ہیں وہ ان طبعی حقائق کا انکار کرتے ہیں لیکن انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ شراب کا یہ زہر ایسا زہر ہے جس کا اثر تدریجی طور پر ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد یہ سب مضرتیں مشاہدہ میں آجاتی ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔
شراب کا ایک بڑا مفسدہ تمدنی یہ ہے کہ وہ اکثر لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے اور پھر یہ بغض و عداوت دور تک انسان کو نقصان پہنچاتی ہیں شریعت اسلام کی نظر میں یہ مفسدہ سب سے بڑا ہے اس لئے قرآن نے سورة مائدہ میں خصوصیت کے ساتھ اس مفسدہ کا ذکر فرمایا ہے اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ (91: 5) یعنی شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے آپس میں بغض و عداوت پیدا کردی۔
شراب کا ایک مفسدہ یہ بھی ہے کہ مدہوشی کے عالم میں بعض اوقات آدمی اپنا پوشیدہ راز بیان کر ڈالتا ہے جس کی مضرت اکثر بڑی تباہ کن ہوتی ہے خصوصاً وہ اگر کسی حکومت کا ذمہ دار آدمی ہے اور بھی حکومت کا راز ہے جس کے اظہار سے پورے ملک میں انقلاب آسکتا ہے اور ملکی سیاست اور جنگی مصالح سب برباد ہوجاتے ہیں ہوشیار جاسوس ایسے مواقع کے منتظر رہتے ہیں۔
شراب کا ایک مفسدہ یہ بھی ہے کہ وہ انسان کو ایک کھلونا بنا دیتی ہے جس کو دیکھ کر بچے بھی ہنستے ہیں کیونکہ اس کا کلام اور اس کی حرکات سب غیر متوازن ہوجاتی ہیں شراب کا ایک عظیم تر مفسدہ یہ ہے کہ وہ اُمّ الخبائث ہے انسان کو تمام برے سے برے جرائم پر آمادہ کردیتی ہے زنا اور قتل اکثر اس کے نتائج ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عام شراب خانے زنا اور قتل کے اڈے ہوتے ہیں یہ شراب کی جسمانی مضرتیں ہیں اور اس کی روحانی مضرت تو ظاہر ہی ہے کہ نشہ کی حالت میں نہ نماز ہوسکتی ہے نہ اللہ کا ذکر نہ اور کوئی عبادت اسی لئے قرآن کریم میں شراب کی مضرت کے بیان میں فرمایاوَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ (19: 5) یعنی شراب تم کو ذکر اللہ اور نماز سے روکتی ہے۔
اب مالی مضرت اور نقصان کا حال سنئے جس کو ہر شخص جانتا ہے کسی بستی میں اگر ایک شراب خانہ کھل جاتا ہے تو وہ پوری بستی کی دولت کو سمیٹ لیتا ہے اس کی قسمیں بیشمار ہیں اور بعض اقسام تو بےحد گراں ہیں بعض اعداد و شمار لکھنے والوں نے صرف ایک شہر میں شراب کا مجموعی خرچہ پوری مملکت فرانس کے مجموعی خرچ کے برابر بتلایا ہے۔
یہ شراب کے دینی دنیوی جسمانی اور روحانی مفاسد کی مختصر فہرست ہے جس کو رسول اللہ ﷺ نے ایک کلمہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ام الخبائث یا ام الفواحش جرمنی کے ایک ڈاکٹر کا یہ مقولہ ضرب المثل کی طرح مشہور ہے کہ اس نے کہا کہ اگر آدھے شراب خانے بند کردئیے جائیں تو میں اس کی ضمانت لیتا ہوں کہ آدھے شفاخانے اور آدھے جیل خانے بےضرورت ہو کر بند ہوجائیں گے، (تفسیر المنار لمفتی عبدہ ص 226 ج 2)
علامہ طنطاوی نے اپنی کتاب الجواہر میں اس سلسلے کی چند اہم معلومات لکھی ہیں، ان میں سے بعض یہاں نقل کی جاتی ہیں۔
ایک فرانسیسی محقق ہنری اپنی کتاب خواطر وسوانح فی الاسلام میں لکھتے ہیں بہت زیادہ مہلک ہتھیار جس سے اہل مشرق کی بیخ کنی کی گئی اور وہ دو دھاری تلوار جس سے مسلمانوں کو قتل کیا گیا یہ شراب تھی ہم نے الجزائر کے لوگوں کے خلاف یہ ہتھیار آزمایا لیکن ان کی اسلامی شریعت ہمارے راستہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہوگئی اور وہ ہمارے اس ہتھیار سے متاثر نہیں ہوئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی نسل بڑہتی ہی چلی گئی یہ لوگ اگر ہمارے اس تحفہ کو قبول کرلیتے جس طرح کہ ان کے ایک منافق قبیلے نے اس کو قبول کرلیا ہے تو یہ بھی ہمارے سامنے ذلیل و خوار ہوجاتے آج جن لوگوں کے گھروں میں ہماری شراب کے دور چل رہے ہیں وہ ہمارے سامنے اتنے حقیر و ذلیل ہوگئے ہیں کہ سر نہیں اٹھا سکتے۔
ایک انگریز قانون داں بنتام لکھتے ہیں کہ
اسلامی شریعت کی بیشمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے اس میں شراب حرام ہے ہم نے دیکھا کہ جب افریقہ کے لوگوں نے اسے استعمال کرنا شروع کیا تو ان کی نسلوں میں پاگل پن سرایت کرنے لگا اور یورپ کے جن لوگوں کو اس کا چسکہ لگ گیا ان کی بھی عقلوں میں تغیر آنے لگا لہذا افریفہ کے لوگوں کے لئے بھی اس کی ممانعت ہونی چاہئے اور یورپین لوگوں کو بھی اس پر شدید سزائیں دینی چاہئیں۔
غرض جس بھلے مانس نے بھی ٹھنڈے دل سے غور کیا وہ بےاختیار پکار اٹھا کہ یہ رجس ہے شیطانی عمل ہے زہر ہے تباہی و بربادی کا ذریعہ ہے اس اُمّ الخبائث سے باز آجاؤ ،
فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ (91: 5)
شراب کی حرمت و ممانعت کے متعلق قرآن کریم کی چار آیتوں کا بیان اوپر آچکا ہے سورة نحل میں ایک جگہ اور بھی نشہ کی چیزوں کا ذکر ایک دوسرے انداز سے آیا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کو بھی یہاں ذکر کردیا جائے تاکہ شراب ونشہ کے متعلق تمام قرآنی ارشادات مجموعی طور پر سامنے آجائیں وہ آیت یہ ہے،
وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِيْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَرًا وَّرِزْقًا حَسَـنً آ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ (67: 16) اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے تم لوگ نشہ کی چیز اور عمدہ کھانے کی چیزیں بناتے ہو بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی دلیل ہے جو عقل رکھتے ہیں۔
تشریح و تفسیر
پچھلی آیتوں میں حق تعالیٰ کی ان نعمتوں کا ذکر تھا جو انسانی غذائیں پیدا کرنے میں عجیب و غریب صنعت وقدرت کا مظہر ہیں اس میں پہلے دودھ کا ذکر کیا جس کو قدرت نے حیوان کے پیٹ میں خون اور فضلہ کی آلائشوں سے الگ کرکے صاف ستھری غذا انسان کے لئے عطا کردی جس میں انسان کو کسی مزید صنعت کی ضرورت نہیں اسی لئے یہاں لفظ نسقیکم استعمال فرمایا کہ ہم نے دودھ پلایا اس کے بعد فرمایا کہ کھجور اور انگور کے کچھ پھلوں میں سے بھی انسان اپنی غذا اور نفع کی چیزیں بناتا ہے اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ کھجور اور انگور کے پھلوں میں سے اپنی غذا اور منفعت کی چیزیں بنانے میں انسانی صنعت کا کچھ دخل ہے اور اسی دخل کے نتیجہ میں دو طرح کی چیزیں بنائی گئیں ایک نشہ آور چیز جس کو خمر یا شراب کہا جاتا ہے دوسری رزق حسن یعنی عمدہ رزق کہ کھجور اور انگور کو تروتازہ کھانے میں استعمال کریں یا خشک کرکے ذخیرہ کرلیں مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے کھجور اور انگور کے پھل انسان کو دیدئیے اور ان سے اپنی غذا وغیرہ بنانے کا اختیار بھی دے دیا اب یہ اس کا انتخاب ہے کہ اس سے کیا بنائے، نشہ آور چیز بنا کر عقل کو خراب کرے یا غذا بنا کر قوت حاصل کرے۔
اس تفسیر کے مطابق اس آیت سے نشہ آور شراب کے حلال ہونے پر کوئی استدلال نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں مقصود قدرت کے عطیات اور ان کے استعمال کی مختلف صورتوں کا یبان ہے جو ہر حال میں نعمت خداوندی ہے جیسے تمام غذائیں اور انسانی منفعت کی چیزیں کہ ان کو بہت سے لوگ ناجائز طریقوں پر بھی استعمال کرتے ہیں مگر کسی کے غلط استعمال سے اصل نعمت نعمت ہونے سے نہیں نکل جاتی اس لئے یہاں یہ تفصیل بتلانے کی ضرورت نہیں کہ ان میں کونسا استعمال حلال ہے کونسا حرام ہے تاہم ایک لطیف اشارہ اس میں بھی اس طرف کردیا کہ سکر کے مقابل رزق حسن رکھا جس سے معلوم ہوا کہ سکر اچھا رزق نہیں سکر کے معنی جمہور مفسرین کے نزدیک نشہ آور چیز کے ہیں (روح المعانی، قرطبی، جصاص)
یہ آیات باتفاق امت مکی ہیں اور شراب کی حرمت اس کے بعد مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی نزول آیات کے وقت اگرچہ شراب حلال تھی اور مسلمان عام طور پر پیتے تھے مگر اس وقت بھی اس آیت میں اشارہ اس طرف کردیا گیا کہ اس کا پینا اچھا نہیں، بعد میں صراحۃ شراب کو شدت کے ساتھ حرام کرنے کے لئے قرآنی احکام نازل ہوگئے (ہذا ملخص مافی الجصاص والقرطبی)
حرمت قمار (جوا)
میسر مصدر ہے اور اصل لغت میں اس کے معنی تقسیم کرنے کے ہیں یاسر تقسیم کرنیوالے کو کہا جاتا ہے جاہلیت عرب میں مختلف قسم کے جوئے رائج تھے جن میں ایک قسم یہ بھی تھی کہ اونٹ ذبح کرکے اس کے حصے تقسیم کرنے میں جوا کھیلا جاتا تھا بعض کو ایک یا زیادہ حصے ملتے بعض محروم رہتے تھے محروم رہنے والے کو پورے اونٹ کی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی گوشت سب فقراء میں تقسیم کیا جاتا خود استعمال نہ کرتے تھے۔
اس خاص جوئے میں چونکہ فقراء کا فائدہ اور جوا کھیلنے والوں کی سخاوت بھی تھی اسی لئے اس کھیل کو باعث فخر سمجھتے تھے جو اس میں شریک نہ ہوتا اس کو کنجوس اور منحوس کہتے تھے۔
تقسیم کی مناسبت سے قمار کو میسر کہا جاتا ہے تمام صحابہ کرام ؓ اجمعین وتابعین اس پر متفق ہیں کہ میسر میں قمار یعنی جوئے کی تمام صورتیں داخل اور سب حرام ہیں ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اور جصاص نے احکام القرآن میں نقل کیا ہے کہ مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس اور ابن عمر اور قتادہ اور معاویہ بن صالح اور عطاء اور طاؤس نے فرمایا "
المیسر القمار حتٰی لعب الصبیان بالکعاب والجوز۔ یعنی ہر قسم کا قمار میسر ہے یہاں تک کہ بچوں کو کھیل لکڑی کے گٹگوں اور اخروٹ وغیرہ کے ساتھ۔
اور ابن عباس نے فرمایا المخاطرۃ ُ من القمار یعنی مخاطرہ قمار میں سے ہے (جصاص) ابن سیرین نے فرمایا جس کام میں مخاطرہ ہو وہ میسر میں داخل ہے (روح البیان)
مخاطرہ کے معنی ہیں کہ ایسا معاملہ کیا جائے جو نفع وضرر کے درمیان دائر ہو یعنی یہ بھی احتمال ہو کہ بہت سا مال مل جائے اور یہ بھی کہ کچھ نہ ملے جیسے آجکل کی لاٹری کے مختلف طریقوں میں پایا جاتا ہے یہ سب قسمیں قمار اور میسر میں داخل اور حرام ہیں اس لئے میسر یا قمار کی تعریف یہ ہے کہ جس معاملہ میں کسی مال کا مالک بنانے کو ایسی شرط پر موقوف رکھا جائے جس کے وجود وعدم کی دونوں جانبیں مساوی ہوں اور اسی بناء پر نفع خالص یا تاوان خالص برداشت کرنے کی دونوں جانبیں بھی برابر ہوں (شامی ص 355 جلد 5 کتاب الخطر والاباحۃ) مثلا یہ بھی احتمال ہے کہ زید پر تاوان پڑجائے اور یہ بھی ہے کہ عمر پر پڑجائے اس کی جتنی قسمیں اور صورتیں پہلے زمانے میں رائج تھیں یا آج رائج ہیں یا آئندہ پیدا ہوں وہ سب میسر اور قمار اور جوا کہلائے گا معمے حل کرنے کا چلتا ہوا کاروبار اور تجارتی لاٹری کی عام صورتیں سب اس میں داخل ہیں ہاں اگر صرف ایک جانب سے انعام مقرر کیا جائے کہ جو شخص فلاں کام کرے گا اس کو یہ انعام ملے گا اس میں مضائقہ نہیں بشرطیکہ اس شخص سے کوئی فیس وصول نہ کی جائے کیونکہ اس میں معاملہ نفع وضرر کے درمیان دائر نہیں بلکہ نفع اور عدم نفع کے درمیان دائر ہے،
اسی لئے احادیث صحیحہ میں شطرنج اور چوسر وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے جن میں سال کی ہار جیت پائی جاتی ہے تاش پر اگر روپیہ کی ہار جیت ہو تو وہ بھی میسر میں داخل ہے۔
صحیح مسلم میں بروایت بریدہ مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص نرد شیر (چوسر) کھیلتا ہے وہ گویا خنزیر کے گوشت اور خون میں اپنے ہاتھ رنگتا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ شطرنج میسر یعنی جوئے میں داخل ہے اور حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا شطرنج تو نرد شیر سے بھی زیادہ بری ہے (تفسیر ابن کثیر)
ابتداء اسلام میں شراب کی طرح قمار بھی حلال تھا مکہ میں جب سورة روم کی آیات غُلِبَتِ الرُّوْمُ نازل ہوئی اور قرآن نے خبر دی کہ اس وقت روم اگرچہ اپنے حریف کسرٰی سے مغلوب ہوگئے لیکن چند سال بعد پھر رومی غالب آجائیں گے اور مشرکین مکہ نے اس کا انکار کیا تو حضرت ابوبکر صدیق نے ان سے اسی طرح قمار کی شرط ٹھرائی کہ اگر اتنے سال میں رومی غالب آگئے تو اتنا مال تمہیں دینا پڑے گا یہ شرط مان لی گئی اور واقعہ قرآن کی خبر کے مطابق پیش آیا تو ابوبکر نے یہ مال وصول کیا آنحضرت ﷺ کے پاس لائے آپ نے اس واقعہ پر اظہار مسرت فرمایا مگر مال کو صدقہ کرنے کا حکم دیدیا۔
کیونکہ جو چیز آئندہ حرام ہونے والی تھی اللہ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کو حلال ہونے کے زمانے میں بھی محفوظ فرما دیا تھا اسی لئے شراب اور قمار سے ہمیشہ آپ نے اجتناب کیا اور خاص خاص صحابہ کرام ؓ اجمعین بھی ان چیزوں سے ہمیشہ محفوظ رہے۔
ایک روایت میں ہے کہ جبریل امین نے رسول اللہ ﷺ کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جعفر طیار کی چار خصلتیں زیادہ محبوب ہیں آنحضرت ﷺ نے حضرت جعفر سے پوچھا کہ آپ میں وہ چار خصلتیں کیا ہیں عرض کیا کہ میں نے اس کا اظہار اب تک کسی سے نہیں کیا تھا مگر جب کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے خبر دے دیتو عرض کرتا ہوں کہ وہ چار خصلتیں یہ ہیں کہ میں نے دیکھا کہ شراب عقل کو زائل کردیتی ہے اس لئے میں کبھی اس کے پاس نہیں گیا اور میں نے بتوں کو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں کسی کا نفع وضرر نہیں اس لئے جاہلیت میں بھی کبھی بت پرستی نہیں کی اور مجھے چونکہ اپنی بیوی اور لڑکیوں کے معاملہ میں سخت غیرت ہے اس لئے میں نے کبھی زنا نہیں کیا اور میں نے دیکھا کہ جھوٹ بولنا دنایت اور رذالت کی بات ہے اس لئے کبھی جہالت میں بھی جھوٹ نہیں بولا (روح البیان)
قمار کے سماجی اور اجتماعی نقصانات
قمار یعنی جوئے کے متعلق بھی قرآن کریم نے وہی ارشاد فرمایا جو شراب کے متعلق آیا ہے کہ اس میں کچھ منافع بھی نہیں مگر نفع سے اس کا نقصان وضرر بڑھا ہوا ہے اس کے منافع کو تو ہر شخص جانتا ہے کہ جیت جائے تو بیٹھے بیٹھے ایک فقیر بدحال آدمی ایک ہی دن میں مالدار اور سرمایہ دار بن سکتا ہے مگر اس کی معاشی، اجتماعی، سماجی اور روحانی خرابیاں اور مفاسد بہت کم لوگ جانتے ہیں اس کا اجمالی بیان یہ ہے کہ جوئے کا کھیل سارا اس پر دائر ہے کہ ایک شخص کا نفع دوسرے کے ضرر پر موقوف ہے جیتنے والے کا نفع ہی نفع ہارنے والے کا نقصان ہی نقصان کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ اس کاروبار سے کوئی دولت بڑہتی نہیں وہ اسی طرح منجمد حالت میں رہتی ہے اس کھیل کے ذریعے ایک کی دولت سلب ہو کر دوسرے کے پاس پہنچ جاتی ہے اس لئے قمار مجموعی حیثیت سے قوم کی تباہی اور انسانی اخلاق کی موت ہے کہ جس انسان کو نفع رسانی خلق اور ایثار و ہمدردی کا پیکر ہونا چاہئے وہ ایک خونخوار درندہ کی خاصیت اختیار کرلے کہ دوسرے بھائی کی موت میں اپنی زندگی اس کی مصیبت میں اپنی راحت اس کے نقصان میں اپنا نفع سمجھنے لگے اور اپنی پوری قابلیت اس خود غرضی پر صرف کرے بخلاف تجارت اور بیع وشراء کی جائز صورتوں کے ان میں طرفین کا فائدہ ہوتا ہے اور بذریعہ تجارت اموال کے تبادلہ سے دولت بڑھتی ہے اور خریدنے والا اور بیچنے والا دونوں اس کا فائدہ محسوس کرتے ہیں۔
ایک بھاری نقصان جوئے میں یہ ہے کہ اس کا عادی اصل کمائی اور کسب سے عادۃ محروم ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی خواہش یہی رہتی ہے کہ بیٹھے بٹھائے ایک شرط لگا کر دوسرے کا مال چند منٹ میں حاصل کرے جس میں نہ کوئی محنت ہے نہ مشقت بعض حضرات نے جوئے کا نام میسر رکھنے کی یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ اس کے ذریعہ آسانی سے دوسرے کا مال اپنا بن جاتا ہے جوئے کا معاملہ اگر دو چار آدمیوں کے درمیان دائر ہو تو اس میں بھی مذکورہ مضرتیں بالکل نمایاں نظر آتی ہیں لیکن اس نئے دور میں جس کو بعض سطحی نظر والے انسان عاقبت نااندیشی سے ترقی کا دور کہتے ہیں جیسے شراب کی نئی نئی قسمیں اور نئے نئے نام رکھ لئے گئے سود کی نئی نئی قسمیں اور نئے نئے اجتماعی طریقے بنکنگ کے نام سے ایجاد کرلئے گئے ہیں اسی طرح قمار اور جوئے کی بھی ہزاروں قسمیں چل گئیں جن میں بہت سی قسمیں ایسی اجتماعی ہیں کہ قوم کا تھوڑا تھوڑا روپیہ جمع ہوتا ہے اور جو نقصان ہوتا ہے وہ ان سب پر تقسیم ہو کر نمایاں نہیں رہتا اور جس کو یہ رقم ملتی ہے اس کا فائدہ نمایاں ہوتا ہے اس لئے بہت سے لوگ اس کے شخصی نفع کو دیکھتے ہیں لیکن قوم کے اجتماعی نقصان پر دھیان نہیں دیتے اس لئے ان کا خیال ان نئی قسموں کے جواز کی طرف چلا جاتا ہے حالانکہ اس میں وہ سب مضرتیں موجود ہیں جو دو چار آدمیوں کے جوئے میں پائی جاتی ہیں اور ایک حیثیت سے اس کا ضرر اس قدیم قسم کے قمار سے بہت زیادہ اور اس کے خراب اثرات دور رس اور پوری قوم کی بربادی کا سامان ہیں کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ پوری قوم کی دولت سمٹ کر محدود افراد اور محدود خاندانوں میں مرتکز ہوجائے گی جس کا مشاہدہ سٹہ بازار اور قمار کی دوسری قسموں میں روزہ مرہ ہوتا رہتا ہے اور اسلامی معاشیات کا اہم اصول یہ ہے کہ ہر ایسے معاملے کو حرام قرار دیا جس کے ذریعے دولت پوری ملت سے سمٹ کر چند سرمایہ داروں کے حوالے ہوسکے، قرآن کریم نے اس کا اعلان خود تقسیم دولت کا اصول بیان کرتے ہوئے اس طرح فرمادیا ہے كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ (7: 59) یعنی مال فئے کی تقسیم مختلف طبقوں میں کرنے کا جو اصول قرآن نے مقرر کیا ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ دولت سمٹ کر صرف سرمایہ داروں میں جمع نہ ہوجائے۔
قمار یعنی جوئے کی خرابی یہ بھی ہے کہ شراب کی طرح قمار بھی آپس میں لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد کا سبب ہوتا ہے ہارنے والے کو طبعی طور پر جیت جانے والے سے نفرت اور عداوت پیدا ہوتی ہے اور یہ تمدن ومعاشرت کے لئے سخت مہلک چیز ہے اسی لئے قرآن حکیم نے خاص طور پر اس مفسدہ کو ذکر فرمایا ہے۔
اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ (91: 5) شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض ونفرت پیدا کر دے اور تم کو اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے۔
اسی طرح قمار کا ایک لازمی اثر یہ ہے کہ شراب کی طرح آدمی اس میں مست ہو کر ذکر اللہ اور نماز سے غافل ہوجاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے شراب اور قمار کو ایک ہی جگہ ایک ہی انداز سے ذکر فرمایا ہے کہ معنوی طور پر قمار کا بھی ایک نشہ ہوتا ہے جو آدمی کو اس کے بھلے برے کی فکر سے غافل کردیتا ہے۔ مذکورہ آیت میں بھی ان دونوں چیزوں کو جمع کرکے دونوں کے یہ مفاسد ذکر فرمائے ہیں کہ وہ آپس کی عداوت وبغض کا سبب بنتی ہیں اور ذکر اللہ اور نماز سے مانع بن جاتی ہیں۔
قمار کی ایک اصولی خرابی یہ بھی ہے کہ یہ باطل طریقہ پر دوسرے لوگوں کا مال ہضم کرنے کا ایک طریق ہے کہ بغیر کسی معقول معاوضہ کے دوسرے بھائی کا مال لے لیا جاتا ہے اسی کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں منع فرمایا ہے
لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بالْبَاطِلِ (188: 2) لوگوں کے مال باطل طریقہ پر مت کھاؤ
قمار میں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ دفعۃ بہت سے گھر برباد ہوجاتے ہیں لکھ پتی آدمی فقیر بن جاتا ہے جس سے صرف یہی شخص متاثر نہیں ہوتا جس نے جرم قمار کا ارتکاب کیا ہے بلکہ اس کا پورا گھرانہ اور خاندان مصیبت میں پڑجاتا ہے اور اگر غور کیا جائے تو پوری قوم اس سے متاثر ہوتی ہے کیونکہ جن لوگوں نے اس کے مالی سکھ کو دیکھ کر اس سے معاہدے اور معاملات کئے ہوئے ہیں یا قرض دیئے ہوئے ہیں وہ اب دیوالیہ ہوجائے گا تو ان سب پر اس کی بربادی کا اثر پڑنا لازمی ہے۔
قمار میں ایک مفسدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کی قوت عمل سست ہو کر وہمی منافع پر لگ جاتی ہے اور وہ بجائے اس کے کہ اپنے ہاتھ یا دماغ کی محنت سے کوئی دولت بڑھاتا رہے اس کی فکر اس بات میں محصور ہو کر رہ جاتی ہے کہ کسی طرح دوسرے کی کمائی پر اپنا قبضہ جمائے۔
یہ مختصر فہرست ہے قمار کے مفاسد کی جن سے نہ صرف اس جرم کا مرتکب متأثر ہوتا ہے بلکہ اس کے سب متعلقین اہل و عیال اور پوری قوم متأثر ہوتی ہے اسی لئے قرآن کریم نے فرمایاوَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا یعنی شراب وقمار کے مفاسد ان کے نفع سے زیادہ ہیں۔
چند فقہی ضابطے اور فوائد
اس آیت میں شراب اور قمار کے بعض فوائد کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے رکنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے جس سے اہم نتیجہ یہ نکل آیا کہ کسی چیز یا کسی کام میں کچھ دنیوی منافع ہونا اس کے منافی نہیں ہے کہ اس کو شرعا حرام قرار دیا جائے کیونکہ جس طرح محسوسات میں اس دوا اور غذا کو مضر کہا جاتا ہے جس کی مضرتیں بہ نسبت اس کے فائدے کے زیادہ سخت ہوں ورنہ یوں تو دنیا کی کوئی بری سے بری چیز بھی منافع سے خالی نہیں، زہر قاتل میں سانپ اور بچھو میں درندوں میں کتنے فوائد ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے ان کو مضر کہا جاتا ہے اور ان کے پاس جانے سے بچنے کی ہدایت کی جاتی ہے اسی طرح معنوی اعتبار سے جن کاموں کے مفاسد ان کے منافع سے زائد ہوں شرعا ان کو حرام کردیا جاتا ہے، چوری، ڈاکہ، زنا، اغوا، دھوکہ، فریب وغیرہ تمام جرائم میں کونسا جرم ایسا ہے جس میں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اگر یہ بالکل بےفائدہ ہوتے تو کوئی عقل وہوش والا انسان ان کے پاس نہ جاتا حالانکہ ان سب جرائم میں کامل وہی لوگ ہوتے ہیں جو ہوشیاری عقلمندی میں معروف سمجھے جاتے ہیں اس سے ہی معلوم ہوا کہ فوائد تو کچھ نہ کچھ تمام جرائم میں ہیں مگر چونکہ انکی مضرت فائدہ سے بڑھی ہوئی ہے اس لئے عقل مند انسان ان کو مفید اور جائز نہیں کہتا شریعت اسلام نے شراب اور جوئے کو اسی اصول کے تحت حرام قرار دیا ہے کہ اس کے فوائد سے زیادہ مفاسد اور دینی و دنیوی مضرتیں ہیں۔
ایک اور فقہی ضابطہ
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جلب منفعت سے دفع مضرت مقدم ہے یعنی ایک کام کے ذریعے کچھ فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے اور ساتھ ہی کوئی مضرت بھی پہنچتی ہے تو مضرت سے بچنے کے لئے اس منفعت کو چھوڑ دینا ہی ضروری ہوتا ہے ایسی منفعت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو مضرت کے ساتھ حاصل ہو۔
خلاصہ تفسیر
سولہواں حکم مقدار انفاق
اور لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ (خیر خیرات میں) کتنا خرچ کیا کریں آپ فرما دیجئے کہ جتنا آسان ہو (کہ اس کے خرچ کرنے سے خود پریشان ہو کر دنیوی تکلیف میں یا کسی کا حق ضائع کرکے اخروی تکلیف میں نہ پڑجائیں) اللہ تعالیٰ اس طرح احکام کو صاف صاف بیان فرماتے ہیں تاکہ تم (کو ان کو علم ہوجائے اور اس علم کی وجہ سے ہر عمل کرنے سے پہلے) دنیا وآخرت کے معاملات میں (ان احکام کو) سوچ لیا کرو (اور سوچ کر ہر معاملہ میں ان احکام کے موافق عمل کیا کرو)
Top