Maarif-ul-Quran - An-Noor : 30
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
قُلْ : آپ فرما دیں لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومون مردوں کو يَغُضُّوْا : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِمْ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظُوْا : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں ذٰلِكَ : یہ اَزْكٰى : زیادہ ستھرا لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : باخبر ہے بِمَا : اس سے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
کہہ دے ایمان والوں کو نیچی رکھیں ذرا اپنی آنکھیں اور تھامتے رہیں اپنے ستر کو اس میں خوب ستھرائی ہے ان کے لئے، بیشک اللہ کو خبر ہے جو کچھ کرتے ہیں
خلاصہ تفسیر
حکم ششم عورتوں کے پردہ کے احکام
آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (یعنی جس عضو کی طرف مطلقاً دیکھنا ناجائز ہے اس کو بالکل نہ دیکھیں اور جس کو فی نفسہ دیکھنا جائز ہے مگر شہوت سے جائز نہیں اس کو شہوت سے نہ دیکھیں) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (یعنی ناجائز محل میں شہوت رانی نہ کریں جس میں زنا اور لواطت سب داخل ہے) یہ ان کے لئے زیادہ صفائی کی بات ہے (اور اس کے خلاف میں آلودگی ہے زنا یا مقدمہ زنا میں) بیشک اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں (پس خلاف کرنے والے سزا یابی کے مستحق ہوں گے) اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ (وہ بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (یعنی جس عضو کی طرف مطلقاً دیکھنا ناجائز ہے اس کو بالکل نہ دیکھیں اور سج کو فی نفسہ دیکھنا جائز ہے مگر شہوت سے جائز نہیں اس کو شہوت سے نہ دیکھیں) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (یعنی ناجائز محل میں شہوت رانی نہ کریں جس میں زنا و سحاق سب داخل ہے) اور اپنی زینت (کے مواقع) کو ظاہر نہ کریں (زینت سے مراد زیور جیسے کنگن، چوڑی، خلخال، بازو بند طوق، جھومر، پٹی، بالیاں وغیرہ اور ان کے مواقع سے مراد ہاتھ پنڈلی، بازو، گردن، سر، سینہ کان، یعنی ان سب مواقع کو سب سے چھپائے رکھیں بلحاظ دو استثناؤں کے جو آگے آتے ہیں اور جب ان مواقع کو اجانب سے پوشیدہ رکھنا واجب ہے جن کا ظاہر کرنا محارم کی روبرو جائز ہے جیسا آگے آتا ہے تو اور مواقع و اعضاء جو بدن کے رہ گئے جیسے پشت و شکم وغیرہ جن کا کھولنا محارم کے روبرو بھی جائز نہیں ان کا پوشیدہ رکھنا بدلالۃ النص واجب ہوگیا۔ حاصل یہ ہوا کہ سر سے پاؤں تک تمام بدن اپنا پوشیدہ رکھیں۔ دو استثناء جن کا ذکر اوپر آیا ہے ان میں سے پہلا استثناء مواقع ضرورت کے لحاظ سے ہے کہ روز مرہ کے کام کاج میں جن اعضاء کے کھولنے کی ضرورت ہوتی ہے ان کو مستثنیٰ قرار دیا گیا اس کی تفصیل یہ ہے) مگر جو اس (موقع زینت) میں سے (غالباً) کھلا (ہی) رہتا ہے (جس کے چھپانے میں ہر وقت حرج ہے مراد اس موقع زینت سے چہرہ اور ہاتھ کی ہتھیلیاں اور اصح قول کے مطابق دونوں قدم بھی، کیونکہ چہرہ تو قدرتی طور پر مجمع زینت ہے اور بعض زینتیں قصداً بھی اس میں کی جاتی ہیں مثل سرمہ وغیرہ اور ہتھیلیاں اور انگلیاں انگوٹھی چھلے مہندی کا موقع ہے اور قدمین بھی چھلوں اور مہندی کا موقع ہے پس ان مواقع کو اس ضرورت سے مستثنیٰ فرمایا ہے کہ ان کو کھولے بغیر کام کاج نہیں ہوسکتا اور مَا ظَهَرَ کی تفسیر وجہ اور کفین کے ساتھ حدیث میں آئی ہے اور قدمین کو فقہاء نے اس پر قیاس کر کے اس حکم میں شامل قرار دیا ہے) اور (خصوصاً سر اور سینہ ڈھکنے کا بہت اہتمام کریں اور) اپنے دوپٹے (جو سر ڈھانکنے کے لئے ہیں) اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں (گو سینہ قمیض سے ڈھک جاتا ہے لیکن اکثر قمیض میں سامنے سے گریبان کھلا رہتا ہے اور سینہ کی ہئیت قمیض کے باوجود ظاہر ہوتی ہے اس لئے اہمتام کی ضرورت ہوئی آگے دوسرا استثناء بیان کیا جاتا ہے جن میں محرم مردوں وغیرہ کو پردہ کے حکم مذکور سے مستثنی کیا گیا ہے) اور اپنی زینت (کے مواقع مذکورہ) کو (کسی پر) ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا (اپنے محارم پر یعنی) اپنے باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹیوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر اپنے (حقیقی و علاتی و اخیافی) بھائیوں پر (نہ کہ چچا زاد ماموں زاد وغیرہ بھائیوں پر) یا اپنے (مذکورہ) بھائیوں کے بیٹوں پر اپنی (حقیقی و علاتی و اخیافی) بہنوں کے بیٹوں پر (نہ کہ چچا زاد خالہ زاد بہنوں کی اولاد پر) یا اپنی (یعنی دین کی شریک) عورتوں پر (مطلب یہ کہ مسلمان عورتوں پر کیونکہ کافر عورتوں کا حکم مثل اجنبی مرد کے ہے رواہ فی الدر عن طاؤس و مجاہد وعطاء و سعید بن المسیب و ابراہیم) یا اپنی لونڈیوں پر (مطلقاً گو وہ کافر ہی ہوں کیونکہ مرد غلام کا حکم ابوحنیفہ کے نزدیک مثل اجنبی مرد کے ہے اس سے بھی پردہ واجب ہے رواہ فی الدر عن طاؤس و مجاہد وعطاء و سعید بن المسیب و ابراہیم) یا ان مردوں پر جو (محض کھانے پینے کے واسطے) طفیلی (کے طور پر رہتے) ہوں اور ان کو (بوجہ حواس درست نہ ہونے کے عورتوں کی طرف) ذرا توجہ نہ ہو (تابعین کی تخصیص اس لئے ہے کہ اس وقت ایسے ہی لوگ موجود تھے کذا فی الدر عن ابن عباس اور اسی حکم میں ہے ہر مسلوب العقل پس مدار حکم کا سلب حواس پر ہے نہ کہ تابع اور طفیلی ہونے پر مگر اس وقت وہ تابع ایسے ہی تھے اس لئے تابع کا ذکر کردیا گیا لقول ابن عباس، فی الدر مغفل فی عقلہ احمق لا بکترث للنساء اور جو سمجھ رکھتا ہو تو وہ بہرحال اجنبی مرد ہے گو بوڑھا یا خصی یا محبوب ہی کیوں نہ ہو اس سے پردہ واجب ہے) یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردہ کی باتوں سے ابھی واقف نہیں ہوئے (مراد وہ بچے ہیں جو ابھی بلوغ کے قریب نہیں پہنچے اور انہیں شہوت کی کچھ خبر نہیں پس ان سب کے سامنے وجہ و کفین و قدمین کے علاوہ زینت کے مواقع مذکورہ کا ظاہر کرنا بھی جائز ہے یعنی سر اور سینہ اور شوہر کے روبر کسی جگہ کا بھی اخفاء واجب نہیں گو خاص بدن کو دیکھنا خلاف اولی ہے قالت سیدتنا ام المومنین عائشہ ما محصلہ لم ار منہ ولم یرمنی ذلک الموضع اور دہ فی المشکوة وروی بقی بن مخلد و ابن عدی عن ابن عباس مرفوعا اذا جامع احدکم زوجتہ او جاریتہ فلا ینظر الی فرجھا فان ذلک یورث العمی قال ابن صلاح جید الاسناد کذا فی الجامع الصغیر) اور (پردے کا یہاں تک اہتمام رکھیں کہ چلنے میں) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے (یعنی زیور کی آواز غیر محرموں کے کان تک پہنچے) اور مسلمانو (تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہوگئی ہو تو) تم سب اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ (ورنہ معصیت مانع فلاح کامل ہوجاتی ہے۔)

معارف و مسائل
انسداد فواحش اور حفاظت عصمت کا ایک اہم باب پردہ نسواں
عورتوں کے لئے حجاب اور پردہ کے احکام کی پہلی آیات وہ ہیں جو سورة احزاب میں ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کے نبی کریم ﷺ کے عقد نکاح میں آنے کے وقت نازل ہوئیں جس کی تاریخ بعض حضرات نے 03 ہجری اور بعض نے 5 ھجری بتلائی ہے تفسیر ابن کثیر اور نیل الاوطار میں 5 ہجری کو ترجیح دی ہے اور روح المعانی میں حضرت انس سے روایت نقل کی ہے کہ ذی قعدہ 5 ہجری میں یہ عقد ہوا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ پہلی آیت حجاب اسی موقع پر نازل ہوئی اور سورة نور کی یہ آیات قصہ افک کے ساتھ نازل ہوئی ہیں جو غزوہ بن المصطلق یا مریسیع سے واپسی میں پیش آیا یہ غزوہ 6 ہجری میں ہوا ہے اس سے معلوم ہوا کہ سورة نور کی آیات پردہ و حجاب نزول کے اعتبار سے بعد میں آئی ہیں سورة احزاب کی چار آیتیں متعلقہ حجاب نزول کے اعتبار سے مقدم ہیں اور شرعی پردہ کے احکام اسی وقت سے شروع ہوئے جبکہ سورة احزاب کی آیات نازل ہوئیں، اس لئے حجاب اور پردہ کی پوری بحث تو انشاء اللہ تعالیٰ سورة احزاب میں آوے گی یہاں صرف ان آیات کی تفسیر لکھی جاتی ہے جو سورة نور میں آئی ہیں۔
قُلْ لِّلْمُؤ ْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ ، یغضوا، غض سے مشتق ہے جس کے معنی کم کرنے اور پست کرنے کے ہیں (راغب) نگاہ پست اور نیچی رکھنے سے مراد نگاہ کو ان چیزوں سے پھیرلینا ہے جن کی طرف دیکھنا شرعاً ممنوع و ناجائز ہے۔ ابن کثیر ابن حبان نے یہی تفسیر فرمائی ہے اس میں غیر محرم عورت کی طرف بری نیت سے دیکھنا تحریماً اور بغیر کسی نیت کے دیکھنا کر اہتہ داخل ہے اور کسی عورت یا مرد کے ستر شرعی پر نظر ڈالنا بھی اس میں داخل ہے (مواضع ضرورت جیسے علاج معالجہ وغیرہ اس سے مستثنی ہیں) کسی کا راز معلوم کرنے کے لئے اس کے گھر میں جھانکنا اور تمام وہ کام جن میں نگاہ کے استعمال کرنے کو شریعت نے ممنوع قرار دیا ہے اس میں داخل ہیں۔
وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ، شرمگاہوں کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ نفس کی خواہش پورا کرنے کی جتنی ناجائز صورتیں ہیں ان سب سے اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھیں۔ اس میں زنا، لواطت اور دو عورتوں کا باہمی سحاق جس سے شہوت پوری ہوجائے، ہاتھ سے شہوت پوری کرنا یہ سب ناجائز و حرام چیزیں داخل ہیں۔ مراد اس آیت کی ناجائز حرام شہوت رانی اور اس کے تمام مقدمات کو ممنوع کرنا ہے جن میں سے ابتدا اور انتہا کو تصریحاً بیان فرما دیا باقی درمیانی مقدمات سب اس میں داخل ہوگئے۔ فتنہ شہوت کا سب سے پہلا سبب اور مقدمہ نگاہ ڈالنا اور دیکھنا ہے اور آخری نتیجہ زنا ہے ان دونوں کو صراحة ذکر کر کے حرام کردیا گیا ان کے درمیانی حرام مقدمات مثلاً باتیں سننا، ہاتھ لگانا وغیرہ یہ سب ضمناً آگئے۔
ابن کثیر نے حضرت عبیدہ سے نقل کیا ہے کہ کل ما عصی اللہ بہ فھو کبیرة وقد ذکر الطرفین۔ یعنی جس چیز سے بھی اللہ کے حکم کی مخالفت ہوتی ہو سب کبیرہ ہی ہیں لیکن آیت میں ان کے دو طرف ابتداء و انتہاء کو ذکر کردیا گیا۔ ابتداء نظر اٹھا کر دیکھنا اور انتہا زنا ہے۔ طبرانی نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
النظر سھم من سھام ابلیس مسموم من ترکھا مخافتی ابدلتہ ایمانا یجدہ حلاوتہ فی قلبہ (از ابن کثیر)
نظر ایک زہریلا تیر شیطان کے تیروں میں سے ہے جو شخص باوجود دل کے تقاضے کے اپنی نظر پھیر لے تو میں اس کے بدلے اس کو ایسا پختہ ایمان دوں گا جس کی لذت وہ اپنے قلب میں محسوس کرے گا۔
اور صحیح مسلم میں حضرت جریر بن عبداللہ بجلی سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا اگر بلا ارادہ اچانک کسی غیر محرم عورت پر نظر پڑجائے تو کیا کرنا چاہئے۔ آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ اپنی نظر اس طرف سے پھیر لو (ابن کثیر) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ پہلی نظر تو معاف ہے دوسری گناہ ہے، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ پہلی نظر جو بلا ارادہ اچانک پڑجائے وہ غیر اختیاری ہونے کے سبب معاف ہے ورنہ بالقصد پہلی نظر بھی معاف نہیں۔
بے ریش لڑکوں کی طرف قصداً نظر کرنا بھی اسی حکم میں ہے
ابن کثیر نے لکھا ہے کہ بہت سے اسلاف امت کسی امرو (بےریش) لڑکے کی طرف دیکھتے رہنے سے بڑی سختی کے ساتھ منع فرماتے تھے اور بہت سے علماء نے اس کو حرام قرار دیا ہے (غالباً یہ اس صورت میں ہے جبکہ بری نیت اور نفس کی خواہش کے ساتھ نظر کی جائے واللہ اعلم۔ ش)
Top