Tadabbur-e-Quran - Nooh : 168
وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا١ۚ مِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ١٘ وَ بَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَقَطَّعْنٰهُمْ : اور پراگندہ کردیا ہم نے انہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اُمَمًا : گروہ در گروہ مِنْهُمُ : ان سے الصّٰلِحُوْنَ : نیکو کار وَمِنْهُمْ : اور ان سے دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس وَبَلَوْنٰهُمْ : اور آزمایا ہم نے انہیں بِالْحَسَنٰتِ : اچھائیوں میں وَالسَّيِّاٰتِ : اور برائیوں میں لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
اور ہم نے ان کو زمین میں منتشر کردیا گروہ گروہ کر کے، ان میں کچھ نیک بھی ہیں اور کچھ اس سے مختلف بھی اور ہم نے ان کو خوشحالیوں اور بدحالیوں سے آزمایا تاکہ وہ رجوع کریں
وَقَطَّعْنٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اُمَمًا ۚمِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ ۡ وَبَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّيِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ۔ وقطعناہم اوپر آیت 160 میں بھی گزر چکا ہے، وہاں جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا اچھے مفہوم میں ہے۔ یہاں یہ لفظ اس کے برعکس ان کی پراگندگی اور انتشار کے دور کے حالات کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کی جو تنظیم کی وہ اپنے پورے شباب پر حضرت داود اور حضرت سلیمان ؑ کے دور میں پہنچی۔ حضرت سلیمان ؑ کے بعد اس تنظیم میں ضعف پیدا ہونا شروع ہوا اور پھر بتدریج حالات ایسے خراب ہوتے گئے کہ یہود اپنے مرکز میں بھی محکوم ہوگئے۔ یہاں تک کہ گروہ گروہ ہو کر دنیا کے مختلف حصوں میں متشر ہوگئے۔ اگرچہ انفرادی حیثیت سے ان میں نیک بھی تھے اور بد بھی لیکن اجتماعی حیثیت سے وہ ان اوصاف سے محروم ہوچکے تھے جو ایک ملت کی حیثیت سے ان کو دنیا میں سربلند رکھنے کے لیے ضروری تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق ان کو اچھے اور برے ہر طرح کے حالات سے آزمایا تاکہ وہ اپنے رب کی طرف رجوع کریں لیکن ان کی خواہشیں اس طرح ان پر غالب آگئی تھیں کہ ان کے آگے ان کی قوت ارادی بالکل مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ وہ یہ احساس رکھتے ہوئے بھی کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں غلط ہے وہی کام کیے جاتے اور اپنے ضمیر کو یہ دھوکا دیتے کہ ہم خدا کے چہیتوں اور محبوبوں کی اولاد ہیں، خدا ہمیں معاف ہی کردے گا۔
Top