Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 51
مَاۤ اَشْهَدْتُّهُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَا خَلْقَ اَنْفُسِهِمْ١۪ وَ مَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّیْنَ عَضُدًا
مَآ : نہیں اَشْهَدْتُّهُمْ : حاضر کیا میں نے انہیں خَلْقَ : پیدا کرنا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَا خَلْقَ : نہ پیدا کرنا اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں (خود وہ) وَمَا كُنْتُ : اور میں نہیں مُتَّخِذَ : بنانے والا الْمُضِلِّيْنَ : گمراہ کرنے والے عَضُدًا : بازو
میں نے تو ان کو آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا، اور نہ ہی خود ان کو پیدا کرتے وقت، اور نہ ہی یہ میری شان ہے کہ میں گمراہ کرنے والوں کو دست و باز و (اور مددگار) بناؤں،
90۔ اس وحدہ لاشریک کا کوئی بھی شریک نہیں :۔ کسی بھی طرح اور کسی بھی درجے میں۔ اشھدتھم، کی ضمیر منصوب کا مرجع اکثر مفسرین کے نزدیک وہ شرکاء ہیں جن کو مشرک لوگوں نے طرح طرح کے ناموں سے گھڑ رکھا ہے۔ تو آیت کریمہ کا مطلب یہ ہوا کہ تمہارے ان خود ساختہ اور من گھڑت معبودوں کو نہ تو میں نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق و پیدائش کے وقت بلایا تھا اور نہ خود ان کو ایک دوسرے کی پیدائش کے وقت۔ تو پھر تم ان کو میرا شریک اور اپنا معبود کس طرح قرار دیتے ہو ؟ (فتح القدیر، محاسن التاویل اور ابن کثیر وغیرہ) بلکہ خلق وتکوین کا یہ سارا کام میں نے بغیر کسی کی شرکت واشتراک کے از خود کیا۔ پس نہ کوئی اس وحدہ لاشریک کی صفت خلق میں اس کا شریک ہے اور نہ ہی صفت امر میں۔ اس آیت کریمہ کا یہ اسلوب و انداز طنزیہ ہے۔ یعنی جب میں نے کسی کو اپنا شریک نہیں بنایا نہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور نہ خود ان لوگوں کی تخلیق و پیدائش میں۔ اور نہ ہی یہ میرے شان کے شایان ہوسکتا ہے کہ میں گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست وبازو بناؤں۔ تو پھر تم لوگوں نے ان کو اے مشرکو ! میری خدائی میں آخرکس طرح شریک بنا رکھا ہے ؟ اور تم لوگ کس طرح فیاضی سے ان کو خدائی منصب پر فائز کرتے ہو۔ ان کو طرح طرح کے ناموں سے موسوم کرتے ان کے ناموں کی طرح طرح کی مورتیاں اور تصاویر بناتے قسما قسم کے من گھڑت ناموں سے سرکاریں بناتے اور ان کے آگے جھکتے اور جھکاتے ہو۔ آخرکیوں ؟ اور کس بنیاد پر ؟ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے زیغ وضلال سے اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔ آمین۔
Top