Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 8
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جَاهِدِ الْكُفَّارَ : جہاد کیجئے کافروں سے وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافقوں سے وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ : اور سختی کیجئے ان پر وَمَاْوٰىهُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم ہے وَبِئْسَ : اور بدترین الْمَصِيْرُ : ٹھکانہ ہے
اور جب میراث کی تقسیم کے وقت (غیر وارث) رشتہ دار یتیم اور محتاج آجائیں تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دیا کرو اور شیریں کلامی سے پیش آیا کرو۔
آیت 8 : وَاِذَاحَضَرَ الْقِسْمَۃَ (جب تقسیم میراث کے وقت آموجود ہوں) اُولُوا الْقُرْبٰی (قرابتدار) جو غیر وارث ہیں۔ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنُ (یتیم و مساکین) اجنبی۔ فَارْزُقُوْہُمْ (پس ان کو بطور خیرات دے دو ) مِّنْہُ (اس میں سے) جو قرابتداروں اور اقارب نے چھوڑا ہے۔ یہ امر استحباب کے لئے ہے۔ یہ حکم باقی ہے۔ منسوخ نہیں ہوا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ابتداء میں یہ لازم تھا پھر آیت میراث سے منسوخ ہوا۔ دستور کی بات : وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا (اور ان کو تم دستور کی بات کہو) یعنی مناسب انداز سے معذرت اور مناسب وعدہ کرو۔ دوسرا قول یہ ہے کہ قول معروف یہ ہے خذوا بارک اللہ لکم یہ لے لو اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے۔ اور یہ جو کچھ دیا گیا ہے یہ بالکل تھوڑا ہے۔ اور ہم نے دے کر احسان نہیں کیا۔
Top