Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 10
اِذْ اَوَى الْفِتْیَةُ اِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ هَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا
اِذْ : جب اَوَى : پناہ لی الْفِتْيَةُ : جوان (جمع) اِلَى : طرف۔ میں الْكَهْفِ : غار فَقَالُوْا : تو انہوں نے کہا رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے رَحْمَةً : رحمت وَّهَيِّئْ : اور مہیا کر لَنَا : ہمارے لیے مِنْ اَمْرِنَا : ہمارے کام میں رَشَدًا : درستی
(وہ وقت قابل ذکر ہے) جب ان نوجوانوں نے غار میں جا کر پناہ لی،10۔ پھر بولے اے ہمارے پروردگار ہمیں اپنے پاس سے رحمت (وفضل) عطا کر اور ہمارے لئے (اس) کام میں درستی کا سامان کردے،11۔
10۔ یہ لوگ کون اور کس زمانہ کے تھے ؟ قرآن مجید کو بحث وسروکار چونکہ صرف بصیرتوں وعبرتوں اور اخلاقی اسباق ونتائج سے رہتی ہے اس لیے وہ تاریخی وجغرافی تفصیلات کو اکثر نظر انداز کردیتا ہے اور اس باب میں احادیث صحیح بھی تفصیل سے خاموش ہیں۔ مفسرین قدیم وجدید کی اکثریت نے اسے مسیحی دور کی حکایت قرار دیا ہے۔ رومی شہنشاہ ڈی سیس یا دقیانوس (متوفی۔ 251 ء) اپنے مذہب بت پرستی میں غلورکھتا تھا۔ مسیحی مذہب نیانیا اسی کے زمانہ میں سلطنت روم میں پھیل رہا تھا۔ اس نے عیسائی موحدین پر سختی شروع کی، اس سے تنگ آکر چند شریف نوجوان شہر سے نکل کھڑے ہوئے اور قریب کے ایک پہاڑی غار میں جا کر پناہ لی، وہاں ان پر ایک غیر طبعی، بلکہ خارق عادت نیند مسلط ہوگئی اور وہ کچھ اوپر تین سو سال تک سوتے رہے اور جب ایک اعجازی انداز سے جاگے تو خود رومی حکومت کا مذہب اسی درمیان میں شرک سے مسیحیت میں تبدیل ہوچکا تھا۔ لیکن حافظ ابن کثیر نے اپنا خیال غالب یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ قصہ ظہور مسیح (علیہ السلام) سے قبل دور یہودیت کا ہے۔ ورنہ یہود اتنا اس کے کھوج میں نہ رہتے اور اس قدر اعتناد والتفات اس کی جانب نہ کرتے، وقد ذکرانھم کانوا علی دین المسیح عیسیٰ ابن مریم فاللہ اعلم۔ والظاھر انھم کانوا قبل ملۃ النصرانیۃ بالکلیۃ فانھم لوکانوا علی دین النصرانیۃ لما اعتنی احبار الیھود بحفظ خبرھم (ابن کثیر) ہمارے زمانہ کے بھی بعض مصنفین نے حکایات اسرائیل سے یہ اخذ کیا ہے کہ یہ قصہ 161 ق ؁ م کا ہے۔ جب ملک شام کے ظالم بادشاہ (انطیوکیس) چہارم نے بیت المقدس کو مسمار کرکے اس کی جگہ زلمیس دیوتا کے مندر کی بنا ڈالی تھی اور مکابی خاندان کے پانچ یا سات بہادر نوجوان پہاڑ کے غار میں پناہ گزین ہو کر راہ حق میں شیہد ہوگئے تھے حق یہ ہے کہ جس قصہ کو حق تعالیٰ نے خود ہی مجمل رکھا ہو اور رسول ﷺ نے بھی اس کی تفصیل پر اعتنا کرنا ضروری نہ سمجھا ہو۔ اس کی تعیین جزم ووثوق کے ساتھ کرنا ہے بھی مشکل۔ اور پھر احکام دین میں سے کسی کا دارومدار اس تفصیل وتعیین پر ہے بھی نہیں۔ فقہاء نے آیت یہ نکالا ہے کہ خوف فتنہ کے وقت انسان پر لازم ہے کہ اپنا دین سلامت لے کر اس مقام سے چلا جائے اور کلمہ کفر کے تلفظ سے تقیۃ بھی احتراز رکھے۔ فیھا الدلالۃ علی ان علی الانسان ان یھرب بدینہ اذا خاف الفتنۃ فیہ وان علیہ ان لا یتعرض لاظہار کلمۃ الکفر وان کان علی وجہہ التقیۃ (جصاص) 11۔ یعنی ہمیں مقصد میں بھی کامیاب کر، اور ہمارے لیے ذرائع اور سامان بھی اپنی مرضیات کے مطابق مہیا کردے، فقہا کردے فقہاء نے یہاں سے یہ استنباط کیا ہے کہ جب انسان اپنے دین کے لیے خوف فتنہ سے ترک وطن کرے تو اسی طرح کی دعا حق تعالیٰ سے کرے کہ حق تعالیٰ نے اس دعا کو موقع مدح واستحسان میں پیش کیا ہے۔ یدل علی انہ اذا اراد الھرب بدینہ خوف الفتنۃ ان یدعوا بالدعاء الذی حکاہ اللہ عنھم لان اللہ قد رضی ذلک من فعلھم واجاب دعاء ھم وحکاہ لنا علی جھۃ الاستحسان (جصاص)
Top