Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 56
وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ١ۚ وَ یُجَادِلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ وَ اتَّخَذُوْۤا اٰیٰتِیْ وَ مَاۤ اُنْذِرُوْا هُزُوًا
وَمَا نُرْسِلُ : اور ہم نہیں بھیجتے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع) اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ : مگر خوشخبری دینے والے وَمُنْذِرِيْنَ : اور ڈر سنانے والے وَيُجَادِلُ : اور جھگڑا کرتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ جنہوں نے کفر کیا (کافر) بِالْبَاطِلِ : ناحق (کی باتوں) سے لِيُدْحِضُوْا : تاکہ وہ پھسلا دیں بِهِ : اس سے الْحَقَّ : حق وَاتَّخَذُوْٓا : اور انہوں نے بنایا اٰيٰتِيْ : میری آیات وَمَآ : اور جو۔ جس اُنْذِرُوْا : وہ ڈرائے گئے هُزُوًا : مذاق
اور ہم رسولوں کو تو صرف خوش خبری سنانے والے اور ڈرانے والے (بنا کر) بھیجا کرتے ہیں،83۔ اور کافر لوگ ناحق جھگڑے نکالتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سے حق کو بچلا دیں اور انہوں نے میری نشانیوں کو اور اس کو جس سے انہیں ڈرایا گیا ہے دل لگی بنا رکھا ہے،84۔
83۔ (اور جتنے دلائل و شواہد اس منصب کے لئے ضروری ہوتے ہیں وہ انہیں دے دیتے ہیں۔ ) آیت سے دو مسئلوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ایک یہ کہ ہر پیغمبر کی حیثیت محض مبشر ومنذر کی ہوتی ہے اس کا کام محض تبشیر وانذار ہے۔ نتائج کی ذمہ داری اس پر ذرا سی بھی نہیں۔ دوسرے یہ کہ پیغمبر سے خواہ مخواہ معجزات وخوارق کی فرمائشیں کرتے رہنا ایک امر لغو ہے۔ 84۔ یعنی تذکیر عذاب کا مقتضا تو یہ تھا کہ ان کے قلوب لرز جاتے لیکن اس کے برعکس سنگدل منکروں نے الٹا اسی کو ہدف تمسخر بنالیا ! کیا حد ہے کہ ان کی ذہنیت کی مسخ شدہ کیفیت کی ! (آیت) ” وما انذروا “۔ یعنی میرے عذاب کو۔ (آیت) ” ویجادل۔۔ الحق “۔ یعنی طرح طرح کی کٹ حجتی کرکے چاہتے ہیں کہ حق کو ڈگمگادیں، یجادل کے باب مفاعلۃ سے ایک فرع یہ نکالی گئی ہے کہ حضرت انبیاء بھی ان سے بحث و مباحثہ کرتے رہتے تھے۔ وھذا یدل علی ان الانبیاء کانوا یجادلونھم لما بینا انالمجادلۃ انما تحصل من الجانبین (کبیر)
Top