Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 226
لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ١ۚ فَاِنْ فَآءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو يُؤْلُوْنَ : قسم کھاتے ہیں مِنْ : سے نِّسَآئِهِمْ : عورتیں اپنی تَرَبُّصُ : انتظار اَرْبَعَةِ : چار اَشْهُرٍ : مہینے فَاِنْ : پھر اگر فَآءُوْ : رجوع کرلیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
جو لوگ اپنی عورتوں کے پاس جانے سے قسم کھالیں ان کو چار مہینے تک انتظار کرنا چاہیئے۔ اگر (اس عرصے میں قسم سے) رجوع کرلیں تو خدا بخشنے والا مہربان ہے
لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ ( جو لوگ اپنی بیویوں ( کے پاس جانے) سے قسم کھا بیٹھتے ہیں) یعنی یہ حلف کرلیتے ہیں کہ ہم ان سے مجامعت نہ کریں گے۔ اٰلَیْتُہ کے معنی قسم کے ہیں اور اس کا تعدیہ علیٰ سے ہوتا ہے لیکن جب یہ دوری کے معنی کو متضمن ہوتا ہے تو اس کا تعدیہ مِن سے کردیا جاتا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں ایلاء اہل جاہلیت کی طلاق تھی۔ سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ ایلاء اہل جاہلیت کا ستانا تھا جب کسی کو اپنی بیوی سے محبت نہ ہوتی تھی اور نہ وہ یہ چاہتا تھا کہ دوسرا اس سے نکاح کرے تو وہ یہ قسم کھا لیتا تھا کہ میں کبھی اس کے نزدیک نہ جاؤں گا اس کو اس طرح چھوڑے رکھتا تھا کہ وہ نہ بیوہ ہوتی تھی نہ خاوند والی رہتی تھی شروع اسلام میں سب لوگ اس کے پابند تھے پھر اسلام میں اس کی مدت معین ہوگئی۔ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ ( انہیں چار مہینے انتظار کرنا (لازم) ہے) یہ سارا مبتدا ہے اور اس سے پہلے اس کی خبر ہے یا یہ ظرف کا فاعل ہے تربص کے معنی انتظار اور توقف کرنے کے ہیں ظرف کی طرف اس کی نسبت مجازاً کردی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس مدت میں ایلاء کرنے والے کو ٹھہرنے کا حق ہے اس میں طلاق نہیں پڑتی یا اس میں طلاق کا مطالبہ نہیں کیا جاتا یہ اختلاف آگے آئے گا۔ فَاِنْ فَاۗءُوْ ( پس اگر رجوع کرلیں) یعنی چار مہینے گذرنے کے بعد وطی کے ساتھ اپنی قسم سے عورتوں کی طرف رجوع کرلیں یہ معنی امام شافعی امام مالک اور امام احمد کے قول کے مطابق با عتبار ظاہر آیت کے میں کیونکہتعقیب کے لیے ہے اس کے علاوہ یہ وجہ بھی ہے کہ آدمی اس طرح مولی ( ایلاء کرنے والا) نہیں ہوتا کہ چار مہینے ( تک نہ جانے) پر قسم کھالے جیسا کہ اس سے کم میں بھی مولیٰ نہیں ہوتا بلکہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب اس سے زیادہ پر قسم کھائے کیونکہ رجوع ایلا کی مدت میں ہونا ضروری ہے دوسرے یہ کہ چار مہینے گذر جانے سے طلاق نہیں پڑتی اور ابن مسعود کی قرأت اس طرح ہے : فان فاؤا فیھن یعنی ان ( چار مہینے) میں (اگر رجوع کرلیں) اسی قرأت کی وجہ سے امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ اگر کسی نے چار مہینے کی قسم کھائی تو وہ مولیٰ ہوجائے گا اور ان چار مہینے میں ہی رجوع کرنا درست ہے پس اس اختلاف کا دارو مدار اس پر ہے کہ قرأت شاذہ پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں اور ائمہ کا قول یہ ہے کہ جائز نہیں ہے کیونکہ نہ وہ حدیث ہے اور نہ قرآن ہے۔ اگر قرآن کی آیت ہوتی تو متواتر ہوتی اور امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ اس پر عمل کرنا واجب ہے کیونکہ اس سے خالی نہیں کہ یا تو وہ قرآن ( کی آیت) ہے اور یا قرآن کی تفسیر میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے اور یہ دونوں حجت ہیں اگر کوئی کہے کہ یہ ہم نے مانا کہ قرأت شاذہ حجت ہے لیکن جب اس کے اور قرأت متواترہ کے درمیان تعارض ہوجائے تو اس وقت اس کا ساقط ہونا ضروری ہے ہم کہتے ہیں ساقط ہونا اس صورت میں ضروری ہے کہ دونوں جمع نہ ہو سکیں اور یہاں تو جمع ہوسکتی ہیں کیونکہجیسا کہ تعقیب کے لیے آتی ہے اسی طرح کبھی کسی مجمل وغیرہ کی تفصیل کے لیے بھی آتی ہے جو مجمل اس سے پہلے ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول میں ہے : و نادٰی نوح ربہٗ فقال رب ان ابنی من اھلی اور جیسے اس آیت میں : یسئلک اہل الکتاب ان تنزل علیہم کتاباً من السمآء فقد سألوا موسیٰ اکبر من ذالک فقالوا ارنا اللہ جھرۃ اور یہاں جب یہ بیان کیا گیا کہ ایسے مردوں کو بلا وطی کے چار مہینے انتظار کرنا چاہئے تو یہ ایسا موقع ہے جو تفصیل کو چاہتا ہے اس لیے فان فاؤافرما کر سمیع علیم تک اس کی تفصیل کی اس کے علاوہ اگرکو زمانہ میں تعقیب کے لیے مان لیں تو یہ احتمال ہوتا ہے کہ شاید یہ باعتبار ایلاء کے ہو یعنی پس اگر وہ ایلا کے بعد رجوع کرلیں اور متواترہ قرأت مطلقاً رجوع کرنے پر دلالت کرتی ہے خواہ وہ ان چار مہینے میں ہو یا ان کے بعد ہو اور قرأت شاذہ مقید ہے کہ رجوع ان ہی چار مہینے میں ہو پس مطلق کو مقید پر حمل کرلیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ہے کہ ابن مسعود کی قرأت مشہور ہے۔ (شاذہ نہیں ہے) اس سے کتاب (ا اللہ) کی تخصیص اور مطلق کو مقید پر حمل کرلینا جائز ہے۔ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ( تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے) حسن۔ ابراہیم۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ جس وقت مولی ( ایلاء کرنے والا) رجوع کرے تو اس کے ذمہ کفارہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور رحمت کا وعدہ کیا ہے اور جمہور کے نزدیک اس کے ذمہ کفارہ واجب ہے کیونکہ مغفرت کا وعدہ کرنا اس کفارہ کی نفی نہیں کرتا جو سورة مائدہ کی آیت سے ثابت ہوچکا ہے اور آنحضرت (علیہ السلام) کے اس قول سے بھی کہ : من حلف علٰی یمین فری غیرھا خیرا منھا فلیکفر و لیات بما ھو خیر۔
Top