Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 165
رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
رُسُلًا : رسول (جمع) مُّبَشِّرِيْنَ : خوشخبری سنانے والے وَمُنْذِرِيْنَ : اور ڈرانے والے لِئَلَّا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ حُجَّةٌ : حجت بَعْدَ الرُّسُلِ : رسولوں کے بعد وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
(یہ تمام رسول ، خوشخبری دینے والے اور متنبہ کرنے والے تھے کہ ان کے آنے کے بعد لوگوں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے جو وہ اللہ کے حضور پیش کرسکیں اور اللہ سب پر غالب اور حکمت رکھنے والا ہے
انبیاء کرام کا ہر امت میں آنا اس لئے ضروری تھا کہ لوگوں کا کوئی عذر باقی نہ رہے 256: جیسا کہ پیچھے آپ پڑھ چکے کہ دنیا کی ہر قوم میں اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی نبی و رسول بھیجا ‘ کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ کسی کو یہ عذر باقی نہ رہے کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا اس لئے ضرروی تھا کہ ان کے پاس کوئی نہ کوئی ڈرانے والا ضرور آتا رہے۔ ان گنت قومیں اور ان گنت نبی و رسول اور یہ سلسلہ ابوالبشر آدم (علیہ السلام) سے چلا جو اس وقت پوری انسانیت کے لئے ہادی و راہنما بنائے گئے تھے اور پھر انسانوں کا سلسلسہ جوں جوں پھیلتا چلا گیا وہ مختلف علاقوں اور قوموں میں تقسیم ہوتے گئے اور ہر قوم کے لئے ایک رسول ونبی کا ہونا لازم قرار پایا لیکن پوری انسانیت کے لئے کوئی ایک نبی و رسول نہ بنایا گیا بلکہ ہر قوم و جماعت کے لئے الگ الگ نبی و رسول مبعوث کئے گئے اور ایک ہی قوم کے پاس کئی کئی نبی و رسول بھی تشریف لائے۔ قرآن کریم نے اس کا اتنی بار ذکر کیا کہ اگر شمار کیا جائے تو مشکل ہی سے شمار ہوگا۔ اس لئے کہ ہر ہادی و راہنما نے اللہ کا پیغام پہنچا یا تو یہ بات لازماً کہی کہ میں وہی پیغام لے کر آیا ہوں جو میرے سے پہلے والے لائی تھے لیکن چونکہ تم نے اس کو بھلا دیا اس لئے مجھے بھیجا گیا کہ میں تم کو یاد دلائوں ۔ چناچہ ارشاد ہوا کہ : ” اے اولاد آدم ! جب کبھی ایسا ہو کہ میرے پیغمبرتم میں پیدا ہوں اور میری آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں تو جو کوئی برائیوں سے بچے گا اور اپنے آپ کو سنوارلے گا اس کے لئے کسی طرح کا اندیشہ نہ ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی۔ “ (الاعراف 7:34 ‘ 35) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” پھر میرے طرف سے تمہارے پاس کوئی پیام ہدایت آیا تو جو کوئی میری ہدایت پر چلے گا وہ نہ تو راہ سے بےراہ ہوگا اور نہ ہی دکھ میں پڑے گا جو کوئی میری یاد سے روگرداں ہوگا اس کی زندگی ضیق میں گزرے گی اور قیامت کے روز بھی میں اسے اندھا ہی اٹھائوں گا۔ “ (طہ 20:22 ‘ 124) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور اللہ کے یہ شان نہیں کہ وہ ایک گرو کو ہدایت دے کر پھر گمراہ کر دے تاوقتیکہ ان پر وہ ساری باتیں واضح نہ کر دے جن سے انہیں بچنا چاہئے۔ بلاشبہ اللہ کے علم سے کوئی بات باہر نہیں ہے۔ “ (التوبہ 9:115) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور جب اس شہر کے باشندوں میں سے ایک گروہ نے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو نصیحت کیوں کرتے ہو جنہیں یا تو اللہ ہلاک کردے گا یا نہایت سخت عذاب میں مبتلا کردے گا ؟ انہوں نے جواب دیا اس لئے نصیحت کرنے ہیں کہ تمہارے پروردگار کے حضور معذرت کرسکیں کہ ہم نے تو اپنا فرض ادا کردیا اور اس لئے بھی کہ شاید یہ لوگ باز ہی آجائیں۔ “ ( الاعراف 7:164) ایک جگہ ارشاد ہوا : ” اے اہل کتاب ! ایسی حالت میں کہ رسولوں کا ظہور ایک مدت سے بند تھا ہمارا رسول محمد رسول اللہ ﷺ تمہارے پاس آیا وہ تم پر واضح کر رہا تھا تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہماری طرف کوئی رسول نہیں بھیجا گیا نہ بشارت دینے والا نہ ڈرانے والا اور اب بشارت دینے والا اور متنبہ کرنے والا تمہارے پاس آگیا اور اللہ ہر بات پر قادر ہے۔ “ (المائدہ 5:19) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” یہ لوگ بڑی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آگیا ہوتا تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راہ راست پر ہوتے مگر جب خبردار کرنے والا ان کے پاس آگیا تو اس کی آمد نے ان کے اندر حق سے فرار کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا یہ زمین پر اور زیادہ تکبر کرنے لگے اور بڑی بری چالیں چلنے لگے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔ “ (فاطر 35:41 ‘ 43) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے عرب کے بسنے والو ! ہم نے یہ کتاب اس لئے نازل کی کہ تم یہ نہ کہو کہ خدا نے صرف دو جماعتوں یعنی یہودیوں اور عیسائیوں پر کتاب پر نازل کی جو ہم سے پہلے تھے اور ہمیں ان کے پڑھنے پڑھانے کی خبر نہ تھی یا کہو اگر ہم پر بھی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان جماعتوں سے زیادہ ہدایت والے ہوتے سو دیکھو تمہارے پاس بھی تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل ہدایت اور رحمت آگئی پھر بتلائو اس سے بڑھ کر ظالم انسان کون ہے جو اللہ کی نشانیاں جھٹلائے اور ان سے گردن موڑے ؟ یاد رکھو جو شخص بھی ہماری آیتوں سے گردن موڑے ہم اس کی پاداش میں عنقریب سخت عذاب دینے والے ہیں۔ “ (الانعام 6:157) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کرچکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اترا گئے سو دیکھ لو وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے آخر کا رہم وارث ہو کر رہے اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھا جب کہ ان کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دیتا جو ان کو ہماری آیات سناتا اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجاتے۔ “ (القصص 28:55 ‘ 56) ایک جگہ ارشاد فریاما : ” اور اے پیغمبر اسلام ! لوگوں کو اس دن کی آمد سے خبردار کردے جبکہ ان پر عذاب نمودار ہوجائے گا ‘ اس دن ظلم کرنے والے کہیں گے ‘ اے پروردگار ! تھوڑی سی مدت کے لئے ہمیں مہلت دے دے تیری پکار کا جواب دیں گے اور پیغمبروں کی پیروی کریں گے لیکن انہیں جواب ملے گا کیا تم وہی نہیں ہو کہ اب سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ ہمیں کسی طرح کا زوال نہ ہوگا ؟ “ (ابراہیم 14:44) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے پانے کئے کرتوتوں کی بدولت کوئی مصیبت جب ان پر اترآئے تو وہ کہیں اے پروردگار تو نے کیوں نہ ہماری طرف کوئی رسول بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور اہل ایمان میں سے ہوتے۔ “ ( القصص 28:47)
Top