Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 166
لٰكِنِ اللّٰهُ یَشْهَدُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ یَشْهَدُوْنَ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
لٰكِنِ : لیکن اللّٰهُ : اللہ يَشْهَدُ : گواہی دیتا ہے بِمَآ : اس پر جو اَنْزَلَ : اس نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف اَنْزَلَهٗ : وہ نازل ہوا بِعِلْمِهٖ : اپنے علم کے ساتھ وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے يَشْهَدُوْنَ : گواہی دیتے ہیں وَكَفٰي : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
لیکن خدا نے جو (کتاب) تم پر نازل کی ہے اس کی نسبت خدا گواہی دیتا ہے کہ اس نے اپنے علم سے نازل کی ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں۔ اور گواہ تو خدا ہی کافی ہے
لکن اللہ یشہد بما انزل الیک لیکن اللہ تو اس کتاب کے ذریعہ سے جو آپ پر نازل کی ہے (آپ کی نبوت کی) شہادت دے رہا ہے۔ یعنی قرآن جو اپنی عبارت اور معنی کے لحاظ سے مکمل معجزہ ہے وہ آپ ﷺ کی نبوت کو ثابت کر رہا ہے۔ انزلہ بعلمہ اللہ نے یہ کتاب اپنے خاص علم کے ساتھ اتاری ہے (یعنی یہ کتاب اللہ کے علم خاص کی حامل ہے) علم خاص سے مراد ہے گزشتہ اور آئندہ کے غائب امور کا علم۔ قرآن کی عبارت کا علم جس کی مختصر ترین سورت کی طرح بھی کوئی عبارت نہیں پیش کی جاسکتی۔ اس امر کو جاننا کہ نبوت کا اہل کون ہے اور کس پر کتاب نازل کی جائے۔ اور اس بات کو جاننا کہ لوگوں کو اپنی معاش و معاد کی درستگی کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے۔ بعلمہترکیب کے اعتبار سے یا حالت فاعل کو بیان کر رہا ہے یا حالت مفعول کو یا مفعول مطلق ہے۔ اور پورا جملہ انزلہ بعلمہسابق جملہ کی گویا تفسیر ہے۔ والملئکۃ یشہدون اور ملائکہ (بھی) شہادت دیتے ہیں کہ آپ کی مدد کے لئے جہاد کے موقع پر علی الاعلان آتے ہیں جیسے بدر کی لڑائی میں ہوا۔ وکفی باللہ شہیدا اور اللہ کی شہادت کافی ہے یعنی آپ کی نبوت کے جو دلائل اللہ نے قائم کردیئے ہیں ان کی موجودگی میں کسی دوسرے کی شہادت طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ یا یہ مراد ہے کہ مؤمنوں اور کافروں کو بدلہ دینا قیامت کے دن اللہ ہی کے ہاتھ میں ہوگا لہٰذا اسی کی شہادت کافی ہے منصف حاکم کو اگر واقعہ کا علم ہو اور وہ خود شاہد ہو تو پھر کسی دوسرے کی شہادت کی ضرورت نہیں رہتی۔
Top