Mazhar-ul-Quran - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے مومنو ! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے کہ فرض ہوئے تھے ان لوگوں پر (یعنی اہل کتاب پر) جو تم سے پہلے تھے تاکہ تمہیں پرہیز گاری ملے
شان نزول : ارکان دین میں روزہ دوسرا رکن ہے۔ دوسرا رکن اس سبب سے اس کو کہتے ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ مکہ میں تھے اور آپ کو معراج ہوئی تھی جس کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں آوے گا، تو نماز اسی رات فرض ہوچکی تھی جس کی تفصیل صحیحین کی حدیث میں ہے کہ پچاس نمازیں فرض ہوئیں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صلاح (تجویز) سے آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی خواہش کی اور آخر کو دن رات میں پانچ وقت کی نماز ہی باقی رہیں۔ اب روزہ اس آیت ہجرت کے دوسرے سال سے فرض ہوا۔ ابتدائے اسلام میں اختیار دیا گیا تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے ہر روزہ کے عوض میں دونوں وقت ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے۔ پھر اس حکم سے کہ پھر جو پاوے تم میں سے یہ مہینہ تو روزے رکھے فدیہ کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری دفعہ مریض اور مسافر کا ذکر فرما کر صراحت فرمادی کہ مریض اور مسافر کی قضا کا حکم منسوخ نہیں بلکہ باقی ہے۔ روزہ کی فضیلت میں بہت حدیثیں آئی ہیں صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایتیں ہیں، جن کا حاصل یہ ہے کہ اور نیکیوں کا ثواب دس درجہ سے سات سو تک لکھنے کا فرشتوں کو حکم ہے مگر روزہ کے ثواب کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہ دیا ہے کہ روزہ کا ثواب میں خود اپنی ذات سے قیامت کے دن دوں گا۔ رمضان کی برزگی میں اب بھی بہت حدیثیں وارد ہیں یہاں تک کہ ساری آسمانی کتابیں اللہ تعالیٰ نے بوجہ برزگی اسی مہینہ میں نازل فرمائی ہیں۔
Top