Mazhar-ul-Quran - At-Talaaq : 8
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِیْدًا١ۙ وَّ عَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا   ۧ
وَكَاَيِّنْ : اور کتنی ہی مِّنْ قَرْيَةٍ : بستیوں میں سے عَتَتْ : انہوں نے سرکشی کی عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا : اپنے رب کے حکم سے وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسولوں سے فَحَاسَبْنٰهَا : تو حساب لیا ہم نے اس سے حِسَابًا : حساب شَدِيْدًا : سخت وَّعَذَّبْنٰهَا : اور عذاب دیا ہم نے اس کو عَذَابًا نُّكْرًا : عذاب سخت
اور2 کتنے ہی شہر تھے جنہوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی، پھر تو ہم نے ان سے سخت حساب لیا اور ہم نے ان کو بڑا بھاری عذاب دیا۔
نافرمانوں کا انجام۔ (ف 2) اوپر کی آیتوں میں تعمیل طلب چند احکام کا ذکر تھا ان آیتوں میں پچھلی سرکش قوموں کی ہلاکت اور عذاب الٰہی میں پکڑے جانے کا ذکر فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ حال کے لوگوں میں سے بھی جو کوئی احکام الٰہی کی تعمیل نہ کرے گا اس کا بھی وہی انجام ہوگا جو پچھلی سرکش قوموں کا ہوا، اس لیے احکام شریعت کی پوری پابندی رکھو، اگر نافرمانی کرو گے تو یادر ہے کہ کتنی ہی بستیاں اللہ ورسول کی نافرمانی کی پاداش میں تباہ ہوچکی ہیں جس وقت وہ لوگ تکبر کرکے حد سے نکل گئے ہم نے ان کا جائزہ لی اور سختی سے لیا کہ ایک عمل کو بھی معاف نہیں کیا، پھر ان کو ایسی نرالی آفت میں پھنسایا جو آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھی تھی آگے حال کے صاحب عقل لوگوں کو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ انہیں پچھلی قوموں جیسی کم عقلی اور سرکشی سے بچنا اور اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ کم عقل اور عقل مند کون ؟ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کے کاموں میں کوئی آدمی اگرچہ بڑا ہوشیار ہو لیکن جب وہ دنیا کے عجائبات کو دیکھ کر اللہ کے پہچاننے کی عقل دہریوں کی طرح رکھتا ہو تو وہ بڑا کم عقل ہے کیونکہ ایک تھوڑی سی عقل کا آدمی بھی مثلا بستی کے باہر جنگل میں پہلی دفعہ ایک میدان دیکھے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس میدان میں ایک خوش وضع مکان بنا ہوا دیکھے تو وہ بغیر کہے کس معمار کے دیکھنے کے اپنی تھوڑی سی عقل سے ضروریہ نتیجہ نکالے گا کہ ایسے خوش وضع مکان کا بنانے والا کوئی بڑاکاریگر معمار ہے اب جن لوگوں نے دنیا کے ہزارہا عجائبات کو آنکھوں سے دیکھ کر ان عجائبات کے آثار سے بغیر دیکھے اللہ کی ہستی کا اقرار نہیں کیا اور اللہ کو نہیں پہچانا بلاشک ان کی عقل میں فتور ہے اسی طرح جس شخص نے اپنی اور اپنی زیست بھر کی راحت و آرام کی چیزوں پر غور کرکے یہ نتیجہ اپنی عقل سے نہیں نکالا کہ یہ اتنا بڑا انتطام کھیل تماشے کے طور پر نہیں ہے۔ بلکہ جتنا بڑا انتظام ہے اتنا ہی بڑ اس کا کوئی نتیجہ ضرور ہے کیونکہ تجربہ سے دنیا کا کوئی چھوٹا ساکام بھی جب بغیر کسی نتیجہ کے کوئی نہیں کرتا، تو پھر دنیابھر کا پیدا کرنا بغیر کسی نتیجہ کے کیونکر ہوسکتا ہے علاوہ اس کے یہ کم عقل تو ایسے شخص نے کی سو کی، اوپر سے سرکشی بھی کی کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی معرفت آسمانی کتابوں کے ذریعہ سے نیک وبد کی جزاوسزا کو دنیا کی پیدائش کا نتیجہ ایسے شخصوں کو سمجھایاتوسرکشی سے اس فہمائش کو ایسے لوگوں نے نہ مانا اور آخر اپنادین دنیا کا نقصان کیا، معتبر سند سے شداد بن اوس کی حدیث ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا عقل مند وہ شخص ہے جو موت کے بعد کا کچھ سامان کرلیوے، یہ حدیث آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسری ہے آگے فرمایا کہ قرآن کی ان مفصل آیتوں کے نازل فرمانے اور رسول بھیجنے سے مقصود یہ ہے جو شخص اللہ کے احکام کے ماننے اور نیک کام کرنے کا قصد کرے دنیا میں اللہ تعالیٰ اس کو جہالت سے نکال کر اس کے دل میں نور ہدایت پیدا کرے گا اور عقبی میں اس کو جنت عطا فرمائے گا، قداحسن اللہ لہ رزقا، کا یہ مطلب ہے کہ جنت میں عام جنتیوں کو اچھی سے اچھی نعمتیں ملیں گی جو یہاں بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں سورة بنی اسرائیل میں معراج کی صحیح حدیثیں گزرچکی ہیں جن میں سات آسمانوں کے اور عجائبات کا ذکر اسی طرح سورة النبا میں حدیثیں آئیں گی جن کا حاصل یہ ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانسو برس کا راہ کا فاصلہ ہے اور اسی قدر ہر ایک آسمان کی موٹائی ہے یہ سب حدیثیں آیت کے ٹکڑے ، اللہ الذی خلق سبع سموات کی گویا تفسیر ہیں۔ کسی کی جائیداد ، زمین پر ناجائز قبضہ کا عذاب۔ سورۃ النبا میں یہ صحیح حدیث بھی آئے گی کہ جو شخص ایک بالشت بھرزمین بھی کسی کی دبائے گا قیامت کے دن ساتوں زمینوں کے اسی قدر ٹکڑے کا ایک طوق بناکر ایسے شخص کے گلے میں ڈالاجائے گا اس سے معلوم ہوا کہ آسمانوں کی طرح سات زمین بھی تہ بہ تہ ہیں۔ ابن کثیر کے قول کے موافق اصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ نبی ﷺ کے بتلانے سے آسمانوں کے اور آنکھوں کے دیکھنے سے پہلی زمین کے جو کچھ عجائبات لوگوں کو معلوم ہوئے ہیں ان پر غور کرکے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ کی قدرت بہت بڑی ہے کہ جس نے اپنی قدرت سیہ سب کچھ پیدا کیا ہے، اور اس کا علم بڑا وسیع ہے کہ اسنے دنیا کے پیدا کرنے سے ہزارہا برس پہلے دنیا کا سب انتظام اپنے علم ازلی سے معلوم کرلیا ہے جس کے موافق آسمان سے زمین پر روزانہ احکام کے سبب سے دنیا کا ہر طرح کا انتظام چل رہا ہے۔
Top