Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں ، اور زیادتی نہ کرو ، بیشک اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
جہاد کی قسمیں اسلام کے پہلے چار ارکان کا بیان سابقہ دروس میں آ چکا ہے ، اب یہاں سے جہاں کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ لفظ جہاد ایک عام لفظ ہے اور یہ وسیع تر معانی میں استعمال ہوتا ہے ، اور قتال خاص ہے ، جس سے مراد جنگ ہے ، جہاد ظاہری اور باطنی طاقت کو دشمن کے مقابلے میں بقائے امن اور اقامت دین کے لیے خرچ کرنے کا نام ہے۔ حضور ﷺ نے جہاد کی کئی شکلیں بیان فرمائی ہیں ۔ فرمایا یا جاھد والمشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم یعنی مشرکوں کے خلاف اپنے مال جان اور زبان کے ساتھ جہاد کرو ، یہ صحیح حدیث مسند احمد اور بو دائود شریف میں موجود ہے ، جان و مال کے ساتھ جہاد کی صورت تو واضح ہے کہ کلمہ توحید بلند کرنے کے لیے انسان مال خرچ کر کے دو ر دراز کے سفر کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے ، تیر و تلوار اٹھاتا ہے اور پھر اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کردیتا ہے ، البتہ زبان کے ساتھ جہاد سے مراد اللہ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ اور لوگوں کے شکوک و شبہات کو دور کرنا ہے ، تصنیف و تالیف کی ہے ، دین کی کوئی کتاب لکھی ہے رسالہ ترتیب دیا ہے ، بحث و مناظرہ کہا ہے ، یہ سب چیزیں جہاد باللسان کا حصہ ہیں ۔ حضور ﷺ کا مبارک فرمان ہے یوزن مداد العلماء بدم الشھداء یوم القیامۃ یعنی دینی تصنیف و تالیف کا کام کرنے والے علماء کی سیاہی کا وزن قیامت کے روز شہیدوں کے خون کے ساتھ کیا جائے گا ، یعنی اللہ کے راستے میں خرچ ہونے والی سیاہی شہداء کے خون کے برابر مرتبہ رکھتی ہے۔ یہ اتنا بڑا کام ہے اور شہید کے متعلق حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ یغفرباول القطرۃ یعنی شہید اپنے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے معاف کردیا جاتا ہے۔ بخش دیا جاتا ہے ، اس کے تمام حقوق اللہ معاف ہوجاتے ہیں ، البتہ حقوق العباد کا بار اس کے سر پر باقی رہتا ہے ، کسی کے ساتھ لین دین کیا ہو ، کسی کی ایذا رسانی کی ہو ، دل دکھایا ہو ، اس کا معاملہ فریق ثانی کے ساتھ ہے ، اس لیے ایسے حق کی معافی متعلقہ حقدار کے ذریعہ ہی ممکن ہوست کی ہے۔ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والے کو اور بھی کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں ، وہ قبر کی آزمائش سے مامون ہوجاتا ہے ، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ اس کی سفارش بھی قبول فرماتے ہیں ، اور اس کو بہت اعلیٰ مقام حاصل ہوتا ہے ، یہ جہاد بالسیف ہے جس کی تعریف میں خود اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں فیقتلون ویقتلون یعنی کبھی مومن کافر کو مار ڈالتا ہے اور کبھی خود شہید ہوجاتا ہے۔ جہاد پر اعتراض مسلمانوں کے مسئلہ جہاد پر بعض بےدین قسم کے لوگوں خصوصاً عیسائیوں نے اعتراض کیا ہے کہ لوگوں کو تلوار کے ذریعے مرعوب کر کے دین میں داخل کرنا کہاں کا انصاف ہے ، تا ہم اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ جہاد کا حکم فطرت کے عین مطابق ہے ، بلکہ بعض اوقات یہ لازم ہوجاتا ہے جب دنیا میں فتنہ و فساد کا بازار گرم ہوجائے ، کسی کی جان و مال محفوظ نہ رہے تو پھر ایسے لوگوں کے خلاف جہاد فرض ہوجاتا ہے۔ اگر دنیا کے متمدن لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہونی چاہئے۔ تو پھر انہیں فلسفہ جہاد کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا ، کیونکہ اس کے بغیر ظلم و ستم کی بیخ کنی ممکن ہی نہیں۔ اقدامی اور دفاعی جہاد جہاد دو قسم کا ہے اقدامی یعنی جارحانہ اور دفاعی یعنی مدافعانہ مسلمان کے لیے عام حکم یہی ہے کہ وہ جنگ میں پہل نہ کرے بلکہ اگر دشمن حملہ آور ہوجائے تو اپنا دفاع کرے ، مگر بعض اوقات اقدامی جہاد بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ بعض نفوس شر پسند ہوتے ہیں ، وہ ہمیشہ دوسروں کے مال و جان کے نقصان کی تاک میں رہتے ہیں اور معاشرے کے امن وامان کو تباہ کرتے رہتے ہیں ، بنی نوع انسان کے امن کی خاطر لوگوں کے جان و مال اور عزت و ناموس کی خاطر بعض اوقات جہاد میں جارحانہ انداز بھی اختیار کرنا پڑتا ہے تا کہ اس شر و فساد کا قلع قم کیا جاسکے جس نے معاشرے کے امن وامان کو تہہ وبالا کر رکھا ہے۔ شاہ صاحب (رح) نے حجۃ اللہ البالغہ میں ایسے شخص کی مثال خطرناک پھوڑے سے ہی کی ہے جس طرح انسانی جسم کی حفاظت کے لیے جسم کے گلے سڑے حصے کو کاٹ دینا ہی بہتر ہے یا جس طرح کسی پھوڑے کا آپریشن کردینا مریض کی صحت کے لیے ضروری ہوتا ہے ، اسی طرح پورے معاشرہ کی حفاظت کی خاطر کسی ناپسند یدہ عنصر کے خلاف قتال بھی ضروری ہوجاتا ہے اور ایسے شخص کو معاشرے سے کاٹ پھینکنا ہی معاشرے کے وسیع تر مفاد میں ہوتا ہے ، لہٰذا اسلام نے دونوں قسم کے جہاد کی اجازت دی ہے ، مسلمان دفاعی جنگ بھی لڑ سکتا ہے اور بوقت ضرورت حملے میں پہل بھی کرسکتا ہے۔ قتال کا حکم اسلام کے تیرہ سالہ ابتدائی مکی دور میں اہل ایمان نے کفار کے ہاتھوں بڑی سے بڑی تکلیف برداشت کی ، مگر ہاتھ نہیں اٹھایا ، کیونکہ اللہ کا حکم تھا کفوا ایدیکم اپنے ہاتھ روکے رکھو۔ نماز قائم کرو او جماعتی تنظیم کرو ، پھر جب مدنی دور میں اسلام طاقتور ہوگیا ، تو اللہ تعالیٰ نے جہاد کی اجازت دے دی اذن للذین یقتلون کہ وہ بھی دشمن کے سامنے ڈٹ جائیں ، اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے چناچہ اس کے بعد جہاد بالسیف کے ابتدائی اور اللہ نے واضح حکم دے دیا ۔ وقاتلوا سبیل اللہ الذین یقتلونکم یعنی اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے لڑو ، جو تم سے لڑتے ہیں۔ کفار کی طرف سے پہل ظاہر ہے کہ یہ دفاعی جنگ کا حکم ہے ، ان کی طرف سے پہل ہوگی ، تو ان کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم ہوا اور ابتداء میں ایسا ہی ہوا ، پہل کفار کی طرف سے ہی ہوئی ۔ مشرکین نے تیرہ سال تک اہل ایمان کو مکہ میں ستایا ، پھر ہجرت پر مجبور کیا ۔ بہت سی جانوں کو تلف کیا حتیٰ کہ پیغمبر خدا ﷺ کے قتل کے در پے ہوئے ۔ ہجرت کے بعد بھی کفار نے مسلمانوں کا پیچھا کیا ، جنگ بدر ، جنگ احد اور جنگ احزاب ویرہ اس بات کے واضح شواہد ہیں ۔ الرڈ ہیڈلے پہلی جنگ عظیم کے زمانہ میں لنڈن میں ہوا ہے۔ عیسائی مذہب رکھتا تھا ، بعد میں اسلام کی دولت سے مشرف ہوا ، بنیادی طور پر بیرسٹر تھا ، پھر دین کا علم بھی حاصل کیا ، اس نے کہا تھا کہ غیر مسلم اقوام مسلمانوں کے مسئلہ جہاد کی وجہ سے انہیں بد نام کر رہی ہیں ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جنگ کی ابتداء مسلمان نہیں کرتے بلکہ وہ تو اپنا دفاع کرتے ہیں ، وہ اپنے دعویٰ کو جغرافیائی طور پر ثابت کرتا ہے کہ دیکھو مسلمان کے ساتھ دیکھو مسلمانوں کے ساتھ پہلی تین جنگیں کہاں لڑی گئیں ، پہلی جنگ بدر کے مقام پر ہوئی جو مکہ سے سینکڑوں میل دور ہے ، جب کہ مدینہ سے قریب ہے ، پھر دوسری جنگ احد کے میدان میں ہوئی ، وہ بالکل ہی مدینہ کے مضافات کا واقعہ ہے۔ کفار نے اتنی دور سے مدینہ پر چڑھائی کی اور تیسری بڑی لڑائی جنگ خندق ہے ۔ اس میں بھی کفارتین سو میل کا سفر طے کر کے حملہ آور ہوئے مگر اہل اسلا م نے مدینہ کے اندر رہ کر اپنا دفاع کیا ، لہٰذا مسلمانوں پر یہ الزام لگانا قطعا ً ناروا ہے کہ ان کا دین تلوار کے ذریعے پھیلا۔ زیادتی کی ممانعت فرمایا جو تم سے لڑتے ہیں ، تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے ۔ ولا تعتدوا مگر زیادتی نہ کرو ، زیادتی نہ کرنے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جو کوئی تم سے لڑائی نہیں کرتا ، تم اس سے مٹ لڑو اور بےگناہوں کو قتل نہ کرو ۔ مقصد یہ کہ تم سے تو لڑنے کے لیے میدان جنگ میں نوجوان آئے ہیں ، تم ان کو ما رو مگر ان کے بچوں ، ان کے بوڑھوں اور ان کی عورتوں پر ہاتھ نہ اٹھائو ۔ ایک جنگ کے دوران حضور ﷺ نے دیکھا کہ ایک عورت مری پڑی ہے۔ آپ بہت ناراض ہوئے اور نھی عن قتل النساء والصبیان عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا کہ یہ زیادتی ہ۔ اسی طرح کوئی بہت بوڑھا ہے۔ معذور ہے ، ہتھیار بھی نہیں اٹھا سکتا ، یا اصحاب الصوامع میں سے ہے۔ کہ کٹیا میں بیٹھا رہتا ہے۔ دنیا سے کنارہ کش ہو کر عبادت میں مصروف رہتا ہے ، ایسے شخص پر ہتھیار اٹھانا تعدی کی بات ہے ، ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ خلفائے راشدین نے بھی اپنے اپنے عہد میں حکم دیا اغزوا فی سبیل اللہ اللہ کے راستے میں جہاد کرو ، مگر کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا ، کسی بچے پر ہاتھ نہ اٹھانا ، کسی عورت کو تکلیف نہ پہنچانا اور جو لوگ دنیا سے الگ تھلگ گرجا یا کٹیا میں جا گزیں ہوگئے ہیں ان کو بھی قتل نہ کرنا جو کوئی تمہارے مقابلے پر لڑنے کے لیے آتا ہے اس سے لڑائی کرو ، اور اس کو قتل کرو ، بےگناہ پر زیادتی مت کرو ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے تو یہاں تک وصیت فرمائی تھی کہ کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا ، سوائے اس کے کسی خاص ضرورت کے تحت ہو ، محض غنیم کو نقصان پہنچانے کے لئے ایسا کرنا درست نہیں۔ جہاد کا مقصد مفسرین کرام نے ولا تعتدوا کا ایک اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جہاد صرف دین کی خاطر کرو ، اس کے علاوہ جہاد کا اور کوئی مقصد نہیں ہونا چاہئے ، اگر کوئی شخص شہرت حاصل کرنے کے لیے ، بہادری دکھانے کے لیے یا مال و دولت اکٹھا کرنے کے لیے جہاد میں شریک ہوتا ہے تو یہ زیادتی ہوگی ۔ اسی لیے فرمایا زیادتی نہ کرو ، بلکہ خالص دین کی سر بلندی کے لیے جہاد میں حصہ لو ۔ گویا اسلام کا جہاد اتنا پاکیزہ ہے کہ دین کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے اسکی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ اب اسلام کے جہاد پر اعتراض کرنے والے نام نہاد متمدن لوگوں کا حال ملاحظہ فرمائیں۔ دنیا کی خاطر لڑی جانے والی جنگ میں ہزاروں لاکھوں بےگناہ جانوں کو قتل کردیتے ہیں۔ ہسپتالوں پر بمباری کر کے مریضوں تک کی پرواہ نہیں کرتے ۔ دوسری جنگ عظیم میں چھ کروڑ کے قریب انسان لقمہ اجل بن گئے ۔ پہلی جنگ عظیم میں دو کروڑ کے لگ بھگ جانیں تلف ہوجائیں ۔ اندھا دھند بمباری سے کھیت تباہ ہوگئے ، جانور ہلاک ہوئے ، عورتیں اور بچے بھی اس ہلاکت کا شکار ہوئے ، آخر یہ کون سی تہذیب اور کونسا تمدن ہے۔ ان اللہ لا یحب المعتدین بیشک اللہ تعالیٰ زیادتی کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ جہاد کے اصول اللہ تعالیٰ نے جہاد کے بھی کچھ اصول مقرر فرمائے ہیں ، جن کے تحت ہی جنگ لڑی جاسکتی ہے۔ فرمایا واقتلوھم حیث تقفتموھم یعنی جن لوگوں سے تمہیں جہاد کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ان سے جنگ کرو ، جہاں بھی انہیں پاوء ۔ واخر جو ھم من حیث اخرجوکم اور تم بھی انہیں اس جگہ سے نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا۔ مشرکین نے تمہیں مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا تھا ، اب یہ بھی اسی سلوک کے مستحق ہیں اور یاد رکھو والفتنۃ اشد من القتل فتنہ تو قتل سے بھی زیادہ سخت ہے فتنہ سے مراد کفر و شرک کا غلبہ ، بد نظمی ، ظلم و زیادتی ہے ، اگر یہ لوگ ان وجوہات کی بناء پر ایمان کے راستے میں رکاوٹ بن جائیں تو یہ قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ البتہ ایک اصول یاد رکھو ولا تقتلوھم عند المسجد الحرام انہیں مسجد الحرام کے پاس قتل نہ کرو یہ حرم پاک کے تقدس کا تقاضا ہے۔ حتی یقتلو کم فیہ یہاں تک کہ وہ خود تم سے مسجد حرام میں جنگ کریں ۔ فان قتلوکم اگر وہ تم سے لڑائی کریں۔ فاقتلوھم تو تم بھی ان سے جہاد کرو ، مقصد یہ کہ مسجد حرام کی حرمت و عظمت کا تقاضا ہے کہ تمہاری طرف سے پہل نہ ہو ، اور اگر وہ باز نہ آئیں تو پھر تمہیں بھی دفاع کی اجازت ہے۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا ہے اس خطے کو محترم بنایا ہے ، حتیٰ کہ یہاں کے درخت کاٹنا بھی جائز نہیں ، خود رو گھاس نہیں کاٹی جاسکتی کسی جانور کو ایذا نہیں پہنچائی جاسکتی ، شکار نہیں کیا جاسکتا بلکہ شکار کو چھیڑنا بھی جائز نہیں ۔ یہاں پر لڑائی تو بالکل ہی حرام ہے۔ یہاں تک کہ کوئی دوسرا تم پر حملہ آور ہو ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ فتح مکہ کے دن اللہ تعالیٰ نے دن کے کچھ حصہ کے لیے میرے واسطے حر م میں لڑائی کو حلال قرار دیا تھا اور وہ بھی اس صورت میں کہ مشرک آمادہ جنگ ہوں اس کے بعد قیامت تک کے لیے اس خطرپاک پر لڑائی کو حرام کردیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے من دخلہ کان امنا یعنی جو کوئی حرم میں داخل ہوگیا اسے امن مل گیا ۔ الغرض فرمایا کہ مسجد حرا م کے پاس اگر مشرک لڑائی کی ابتدائی کریں تو تمہیں بھی جواب دینے کی اجازت ہے ، تم بھی انہیں قتل کرو کذلک جزاء الکفرین کفار کا یہی بدلہ ہے۔ فان انتھوا اور اگر وہ لڑائی سے باز آجائیں اور صلح کرلیں ، تو لڑائی کو طول دینے کی ضرورت نہیں اور اگر وہ ایمان قبول کرلیں تو معاملہ بالکل ہی صاف ہوگیا ۔ فان اللہ غفور رحیم اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے ، ان کے تمام سابقہ گناہ معاف ہوجائیں گے۔ فتنہ و فساد کی بیخ کنی اب آگے جہاد کی حکمت بھی بیان فرما دی ہے۔ وقاتلوھم حتی لا تکون فتنہ ان کے ساتھ جنگ کرو حتیٰ کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے۔ جہاد کی اصل غرض وغایت بھی یہ ہے کہ دنیا سے فتنہ و فساد و جنگ وجدل بد امنی اور بد نظمی اور کفر و شرک کا قلع قمع کردیا جائے تا کہ غلبہ اسلام کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو سکے۔ ویکون الدین للہ اور اطاعت صرف اللہ ہی کیلئے باقی رہے یعنی جو کوئی دین اسلام میں داخل ہونا چاہئے اسے کوئی شخص روکنے والا نہ ہو اور وہ بلا خوف و خطر دین ھنیف کو اختیار کرسکے ۔ فرمایا فان انتھوا اگر یہ لوگ اس قسم کی فتنہ انگریز سے باز آجائیں دین کے راستہ میں رکاوٹ نہ بنیں ، زیادتی نہ کریں فلا عدوان الا علی الظلمین تو ان پر کوئی زیادتی نہیں ہے ، البتہ جو ظالم ہوگا ، اس کے خلاف جہاد کیا جائے گا تا کہ دنیا میں عدل و انصاف کو قائم کیا جاسکے اور فتنہ و فساد کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کیا جاسکے ۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد کے احکام بھی بیان فرما دیے فریضہ حج کے بعد اسلام کا یہ ایک اہم رکن ہے۔
Top