Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 47
وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَبِالرَّسُوْلِ : اور رسول پر وَاَطَعْنَا : اور ہم نے حکم مانا ثُمَّ يَتَوَلّٰى : پھر پھر گیا فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْهُمْ : ان میں سے مِّنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد ذٰلِكَ : اس وَمَآ اُولٰٓئِكَ : اور وہ نہیں بِالْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اللہ پر اور رسول پر اور ہم نے اطاعت کی۔ پھر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ روگردانی کرتا ہے۔ اور یہ لوگ (در حقیقت) ایمان والے نہیں ہیں
ربط آیات : پہلے اللہ نے عصمت وعفت کا نظام بیان فرمایا اور اس سلسلے میں حدود اور احکام نازل فرمائے۔ پھر اللہ کی توحید کے بعض عقلی دلائل بیان فرمائے اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ارض وسما کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس بیان کرتی ہے۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ ہم نے انسانوں کو ہدایت کے لئے بڑی واضح آیتیں نازل کی ہیں جب کائنات کی ہر چیز تسبیح وتحمید بیان کرتی ہے تو پھر انسانوں کا تو بطریق اولیٰ فرض ہے کہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والے بن جائیں اور اس کی توحید کو تسلیم کرلیں۔ آپ آج کی آیات میں اللہ نے منافقین کی مذمت بیان فرمائی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتے۔ فرمایا صحیح معنوں میں یہ لوگ ایمان دار نہیں ہیں بلکہ منافق ہیں جن کو اللہ کے رسول کے فیصلے پر اعتماد نہیں۔ یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے دلوں میں بیماری ہے۔ منافقین کا کردار : ارشاد ہوتا ہے ویقولون امنا باللہ وبالرسول یہ منافق قسم کے لوگ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ سورة بقرہ کی ابتداء میں بھی یہ مضمون گزر چکا ہے ومن الناس…………………بمومنین (آیت 8) بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور قیامت پر ایمان لائے مگر درحقیقت وہ ایماندار نہیں ہیں۔ اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ یہ لوگ اللہ اور رسول پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں ظاہر ہے کہ ایمان میں اللہ تعالیٰ کی توحید ، اس کے رسول کی رسالت اور ان کی اطاعت بھی شامل ہے۔ جب تک اللہ اور رسول کی اطاعت نہیں کریگا۔ ایمان کا کچھ فائدہ نہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ اطاعت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں واطعنا ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت قبول کی۔ ان کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کردیں گے ، مگر عملی طور پر یہ ہوتا ہے ثم یتولی فریق منھم من بعد ذلک کہ اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ روگردانی کرجاتا ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ تین باتوں کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایمان باللہ ، ایمان بالرسول اور اطاعت ۔ ظاہر ہے کہ ان چیزوں کے بغیر کوئی شخص ہدایت نہیں پاسکتا اور نہ ہی خدا تعالیٰ کی مرضیات اور نامرضیات جان کر اس کے احکام کی تعمیل کرسکتا ہے ، مگر فرمایا کہ ان تین دعادی کے باوجود یہ لوگ روگردانی کرتے ہیں اور دعویٰ کا عملی ثبوت پیش نہیں کرتے۔ اللہ نے فرمایا ایسے لوگ قطعاً ایماندار نہیں ہوسکتے۔ وما اولئک بالمومنین مومن تو وہ ہوتا ہے جس کے قول وفعل میں تضاد نہ ہو اور جس کے دل میں بھی وہی بات ہو جو اس کی زبان پر ہے۔ فرمایا اگر قول وفعل میں تضاد ہے ، دل میں پختہ یقین نہیں ہے تو ایسا شخص مومن نہیں ہوسکتا۔ فرمایا ان لوگوں کے ایمان سے خالی ہونے کا ثبوت یہ ہے واذادعوا الی اللہ ورسولہ کی جب ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے لحکم بینھم تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کیا جائے اذا فریق منھم معرضون تو ان میں سے ایک گروہ اعراض کرنے والا ہوتا ہے دراصل منافقین کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے ہر معاملے کا فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق ہو۔ وہ سمجھتے تھے کہ بارگاہ نبوی میں ہر مقدمہ کا فیصلہ ٹھیک ٹھیک ہوگا ، لہٰذا جب وہ کسی معاملہ میں اپنا موقف کمزور پاتے تو دربار رسالت میں جانے سے اعراض کرتے۔ حضرت علی ؓ اور ایک ایسے ہی منافق خصلت شخص کے درمیان کسی معاملہ میں تنازعہ پیدا ہوگیا۔ حضرت علی ؓ نے اس شخص کے کہا کہ چلو اس کا فیصلہ حضور ﷺ سے کروالیتے ہیں۔ مگر چونکہ اس کو من مانی کی توقع نہیں تھی اس لئے اس نے یہودیوں کے عالم کعب بن اشرف کے پاس چلنے کی تجویز پیش کی تاکہ وہاں سے اپنی مرضی کا فیصلہ کراسکے۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اسی کردار کے پیش نظر فرمایا ہے وان یکن لھم الحق اگر ان کو یقین ہو کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا یاتوا الیہ مذعنین تو آتے ہیں آپ کی طرف دوڑتے ہوئے۔ اذعان کا معنی یقین کرنا ہوتا ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ اگر انہیں اپنے حق میں فیصلہ ہونے کا یقین ہو تو پھر تو اللہ کے رسول کی طرف دوڑ کر آتے ہیں اور اگر فیصلہ اس کے برخلاف متوقع ہو تو پھر اس عدالت میں آنے سے گریز کرتے ہیں۔ حضرت حسن بصری (رح) کی روایت میں آتا ہے من دعی الی حاکم فلم یجب فھو ظالم جس شخص کو کسی تنازعہ کے فیصلہ کے مسلمان حاکم کے پاس بلایا جائے اور وہ وہاں آنے کے لئے تیار نہ ہو تو ایسا شخص ظالم ہے۔ حضرت سمرہ ؓ کی روایت میں بھی اس قسم کے الفاظ آتے ہیں۔ امام ابوبکر حبصاص (رح) نے ان روایتوں کو اپنی تفسیر (احکام القرآن للبصاص ص 405 ج 3 (فیاض) میں نقل کیا ہے ۔ بہرحال فرمایا کہ اس کردار کے آدمی مومن نہیں بلکہ یہ محض زبانی دعویٰ ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک یہودی نے حضور ﷺ کی عدالت میں یہ دعویٰ دائر کیا ہے کہ اس کے چار درہم ایک صحابی ابی حدرد ؓ کے ذمے واجب الادا ہیں مگر وہ واپس نہیں کرتا۔ اس شخص کو بلایا گیا تو اس نے اقرار کیا کہ اس نے چار دہم کی رقم دینی ہے مگر ابھی وہ استطاعت نہیں رکھتاوہاولین فرصت پر ادائیگی کردے گا۔ حضور ﷺ نے دوسرے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اس شخص کا حق ادا کرو۔ آپ نے دوبارہ سہ بارہ ان الفاظ کو دہرایا مگر کوئی شخص یہ رقم ادا کرنے پر تیار نہ ہوا۔ پھر وہ مقروض صحابی خودہی اٹھا یہودی قرض خواہ کو ساتھ لیا اور بازار چلا گیا۔ اس کی پگڑی تو معمولی تھی البتہ اس کے تہبند کی چادر اچھی حالت میں تھی۔ اس نے پگڑی کو تہ بند کے طور پر باندھ لیا اور قرض کے عوض چادر پیش کردی جسے یہودی نے منظور کرلیا اور اس طرح اس نے یہودی کا حق ادا کردیا۔ یہ تو سچے مسلمان کی بات تھی۔ مگر غلط کار لوگ چاہتے ہیں کہ فیصلہ لازماً انہی کے حق میں ہو ، لہٰذا جب انہیں اپنے حق میں فیصلے کی توقع ہو تو عدالت میں دوڑ کر آتے ہیں ورنہ اعراض کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی عملی منافقت : اسی قسم کی منافقت مسلمانوں میں بھی چل نکلی ہے۔ یہ بھی اپنے مفاد کی طرف تو دوڑ کر جاتے ہیں ، مگر جہاں کوئی ذمہ داری عاید ہوتی ہو وہاں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ قرآن پاک کا حکم یہ ہے کہ نفع ہو یا نقصان ہر صورت میں اللہ کے رسول کے فیصلے پر اراضی ہوجائو کہ اسی میں کامیابی کا راز ہے۔ اگر آج قدرے نقصان بھی ہورہا ہے تو آگے بہت بڑے فائدے کی توقع بھی ہے انسانیت کی تعمیر اور اس کے مفاد کے لئے رسول اللہ ﷺ کے فیصلے سے بہتر کوئی فیصلہ نہیں۔ اگر بوجوہ اس دنیا میں اس کا فائدہ نہ بھی ہو تو آخرت میں تو بہرحال فائدہ ہی فائدہ ہوگا ، لہٰذا اللہ کے رسول کے فیصلے کو دل وجان سے قبول کرلینا چاہیے۔ سورة الاحزاب میں ہے وما کان……… …………………امرھم (آیت 36) جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ کردیں تو پھر کسی مومن مرد یا مومن عورت کو اس میں چون وچرا کا حق نہیں ہے۔ اسے فوراً تسلیم کرلینا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ فیصلے میں فائدہ بھی ہوسکتا ہے اور نقصان بھی۔ فرمایا دونوں صورتوں میں بلا چون وچرا تسلیم کرلینا چاہیے اور اس میں کوئی حیل وحجت نہیں ہونی چاہیے۔ بعض لوگ دین اور مذہب کو اس شرط پر قبول کرتے ہیں کہ اگر اس میں ذاتی منفعت ہوگی تو اس پر قائم رہیں گے ورنہ روگردانی کرجائیں گے۔ یہ منافقانہ کردار ہے۔ دیکھ لیں کسی کونسل یا اسمبلی کا ممبر بننے کے لئے لوگ کتنی تگ ودو کرتے ہیں کیونکہ اس میں انہیں مفاد نظر آتا ہے ، ادھر دوڑ دوڑ کر جاتے ہیں مگر اسلام کی بات کی طرف رخ ہی نہیں کرتے۔ اصل بیماری یہی ہے کہ لوگ مفاد کو دیکھتے ہیں کہ کہاں سے حاصل ہوتا ہے اور پھر ادھر کا ہی رخ کرتے ہیں اسلام برحق ہے اور اس کی قبولیت میں پس وپیش نہیں ہونا چاہیے۔ خواہ وقتی طور پر نقصان بھی نظرآتا ہو۔ منافقت دل کا روگ ہے : آگے اللہ نے منافق صفت لوگوں کا تجزیہ کیا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر کیوں راضی نہیں ہوتے۔ اللہ نے اس ضمن میں تین وجوہات کا ذکر فرمایا ہے افی قلوبھم مرض کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے ؟ اللہ نے نفاق کو بیماری کے ساتھ تشبیہ دی ہے یہ ایسا روگ ہے۔ جس کا تعلق دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر دل میں کفر ہے یا اعتقادی یا عملی نفاق ہے تو ایسا شخص منافقت جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہے۔ فرمایا ، کیا یہ بات ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں روگ ہے ارم ارتابوا یا انہوں نے شک کیا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، نبی کی رسالت یا وقوع قیامت اور حساب کتاب کی منزل کے متعلق شک کرتے ہیں۔ یا نبی کے فیصلے پر تردد ہے۔ کہ پتہ نہیں کہ ٹھیک ہوگا یا نہیں۔ اگر ایسا شک کرکے گا تو آدمی اعتقادی منافق اور کافر بن جائے گا۔ نبی کی نبوت اور رسالت میں شک کرنا بھی کفر ہے کیونکہ اللہ کا نبی تو سچا ہے اور اس کا ہر حکم واجب التعمیل ہے۔ ناانصافی کا تصور : فرمایا تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے ام یخافون ان یحیف اللہ علیھم ورسولہ ، یا ان کو اس بات کا خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر کوئی زیادتی کرے گا (العیاذ باللہ) حیف کا معنی زیادتی یا بےانصافی ہوتا ہے ایسا آدمی بھی قطعاً ایماندار نہیں ہوسکتا۔ اللہ کے رسول کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ہوتا ہے اور اس میں کسی پر ذرا برابر بھی زیادتی نہیں ہوتی ، فرمایا جو لوگ اس قسم کا نظریہ رکھتے ہیں بل اولئک ھم الظلمون بلکہ یہی لوگ ظالم ہیں۔ بہرحال اللہ نے تین قسم کے لوگوں کو یہاں پر ظالم کا لقب دیا ہے۔ (1) جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے (2) جو کسی محکم بات میں شک کرتے ہیں اور (2) جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کسی زیادتی کا گمان کرتے ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ ایک رات انہوں نے حضور ﷺ کو بستر پر نہ پایا تو دل میں خیال آیا کہ شاید آپ کسی دوسری بیوی کے گھر تشریف لے گئے ہیں۔ پھر بعد میں انکشاف ہوا کہ آپ گھر میں ہی ہیں اور نماز پڑھ رہے ہیں۔ ایک دوسرے موقعہ پر حضور ﷺ نے دیکھا کہ حضرت عائشہ ؓ سو رہی ہیں۔ آپ چپکے سے اٹھے اور جنت البقیع چلے گئے کیونکہ اللہ نے جبرئیل (علیہ السلام) کی معرفت پیغام بھیجا تھا کہ اہل بقیع کے لئے جاکر دعا کریں ، جب حضرت عائشہ ؓ بیدار ہوئیں تو آپ کو نہ پایا اور آپ پریشان ہوگئیں کہ شاید آپ کسی دوسری بیوی کے ہاں چلے گئے ہیں۔ جب حضور ﷺ بقیع سے واپس آئے تو سارا معاملہ صاف ہوا۔ اس موقع پر حضور ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ تم گمان کرتی ہو ان یحیف اللہ علیک ورسولہ کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر زیادتی کرے گا ؟ نہیں ، ایسا نہیں ہوسکتا۔ آج جس بیوی کا حق ہے ، میں اسی کے پاس رہوں گا۔ غرضیکہ آپ نے بےانصافی کے لئے یہی حیف کا لفظ استعمال کیا جو اس آیت میں آیا ہے۔ بہرحال شریعت کا فیصلہ خواہ کسی کی ذات کے خلاف ہو یا اس کے رسم و رواج کے خلاف جاتا ہو ، اسے قبول کرلینا چاہیے کہ انسانیت کی فلاح اسی میں ہے اس میں شک کرنا منافقوں اور ظالموں کا کام ہے۔ اب اگلی آیت میں مومنین کے کردار کا ذکر آئے گا۔
Top