Al-Qurtubi - Al-Kahf : 39
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَآءَ اللّٰهُ١ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ١ۚ اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّ وَلَدًاۚ
وَلَوْلَآ : اور کیوں نہ اِذْ : جب دَخَلْتَ : تو داخل ہوا جَنَّتَكَ : اپنا باغ قُلْتَ : تونے کہا مَا شَآءَ اللّٰهُ : جو چاہے اللہ لَا قُوَّةَ : نہیں قوت اِلَّا : مگر بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنْ تَرَنِ : اگر تو مجھے دیکھتا ہے اَنَا : مجھے اَقَلَّ : کم تر مِنْكَ : اپنے سے مَالًا : مال میں وَّوَلَدًا : اور اولاد میں
اور (بھلا) جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تھے تو تم نے ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ کیوں نہ کہا ؟ اگر تم مجھے مال و اولاد میں اپنے سے کمتر دیکھتے ہو
آیت نمبر 39 تا 41 قولہ تعالیٰ : ولولا اذ دخلت جنتک قلت ما شآء اللہ لا قوۃ الا باللہ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : ولو لا اذ دخلت جنتک قلت ما شآء اللہ لا قوۃ الا باللہ یعنی تو دل کے ساتھ (باغ میں داخل ہوتے وقت یہ الفاظ کہتا : ما شآء اللہ لا قوۃ الا باللہ) ، اور یہ مومن کی جانب سے کافر کو جھڑک بھی ہے اور نصیحت بھی اور اس کے اس قول کا رد بھی ہے کہ جب اس نے کہا : ما اظن ان تبید ھذہ ابدا (میں یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ باغ کبھی برباد بھی ہوگا) اور ” ما “ محل رفع میں ہے۔ تقدیر کلام ہے : ھذہ الجنۃ فی ما شاء اللہ (یہ باغ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ چاہے) اور زجاج اور فراء نے کہا ہے : الأمر ما شاء اللہ، یا ھو ما شاء اللہ، یعنی امر اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا جواب مضمر ہے، یعنی ما شاء اللہ کان، وما لا یشاء لایکون۔ (یعنی جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہ ہوجاتا ہے اور وہ جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا) ۔ لا قوۃ الا باللہ یعنی تیرے پاس جو مال بھی جمع ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قوت سے ہے نہ کہ تیری قدرت اور تیری قوت سے، اور اگر وہ چاہے تو اس سے برکت کھینچ لے تو پھر یہ جمع نہ ہو۔ مسئلہ نمبر 2: اشہب نے بیان کیا ہے کہ امام مالک (رح) نے کہا : ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت یہ کہے۔۔۔ اور ابن وہب نے کہا ہے : مجھے حفص بن میسرہ نے کہا ہے : میں نے وہب بن منبہ کے دروازہ پر یہ لکھا ہوا دیکھا ماشآء اللہ لاقوۃ الا باللہ اور حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت ہے کہ آپ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو فرمایا : ” کیا میں تیری ایک ایسے کلمہ پر راہنمائی نہ کروں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے ،۔۔۔ یا فرمایا : جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے “۔ میں نے عرض کی : کیوں نہیں ہاں یا رسول اللہ ! ﷺ ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : لاحول ولا قوۃ الا باللہ جب کوئی آدمی یہ کہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے میرے بندے نے اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرلی ہے اور وہ تابعدار ہوگیا ہے “۔ اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابو موسیٰ ؓ کی حدیث سے ذکر کیا ہے۔ اور اس میں ہے کہ فرمایا : ” اے ابا موسیٰ ! یا اے عبد اللہ بن قیس ! کیا میں تیری راہنمائی ایسے کلمہ پر نہ کروں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ وہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔۔۔ “ میں نے عرص کی : وہ کیا ہے یا رسول اللہ ! ﷺ ؟ تو آپ نے فرمایا : لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ اور آپ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا : ” کیا میں تیری راہنمائی ایسے کلمہ پر نہ کروں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے یا جنت کے خزانوں میں سے ایک ہے “۔ میں نے عرض کی : کیوں نہیں (ضرور بتائیے) تو آپ ﷺ نے فرمایا : لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم اور روایت ہے کہ جو کوئی اپنے گھر میں داخل ہوا یا اس سے باہر نکلا اور اس نے یہ کہا : بسم اللہ ما شاء اللہ لا قوۃ الا باللہ تو شاطین اس سے اس کے سامنے سے بھاگ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس پر برکتیں نازل فرماتا ہے۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان فرمایا : جب آدمی اپنے گھر سے باہر نکلے تو کہے باسم اللہ تو فرشتہ کہتا ہے تیری راہنمائی کردی گئی، اور جب کہے ما شاء اللہ، تو فرشتہ کہتا ہے تجھے بےنیاز کردیا گیا، اور وہ کہے : ولا قوۃ الا باللہ تو فرشتہ کہا ہے : تو بچا لیا گیا، اسے ترمذی نے حضرت انس بن مالک ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کہا جب وہ اپنے گھر سے باہر نکلا۔ بسم اللہ توکلت علی اللہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ تو اسے کہا جاتا ہے : تجھے بےنیاز کردیا گیا اور تجھے بچا لیا گیا اور اس سے شیطان دور ہوجاتا ہے۔ یہ حدیث غریب ہے میں اسے اس سند کے سوا نہیں جانتا۔ اسے ابو داؤد نے بھی ذکر کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے۔ پس اس کے لئے فرمایا : ” تیری راہنمائی کردی گئی، تجھے بےنیاز کردیا گیا اور تجھے بچا لیا گیا “۔ اور ابن ماجہ نے اسے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے ذکر کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جب آدمی اپنے گھر کے دروازے سے یا اپنے دار (حویلی) کے دروازے سے باہر نکلتا ہے تو اس کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہیں جو اس کے ساتھ مقرر ہیں پس جب وہ کہے باسم اللہ وہ دونوں کہتے ہیں تیری راہنمائی کردی گئی اور جب وہ کہے : لاحول ولا قوۃ الا باللہ تو وہ کہتے ہیں تجھے بچا لیا گیا اور جب وہ کہے : توکلت علی اللہ تو وہ کہتے ہیں تجھے بےنیاز کردیا گیا فرمایا پس اس کے دو ساتھی اس سے ملاقات کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں : تم اس آدمی سے کیا ارادہ رکھتے ہو حالانکہ اسے ہدایت دے دی گئی ہے اور اسے بچا لیا گیا ہے اور اس کو بےنیازکر دیا گیا “۔ اور حاکم ابو عبد اللہ نے علوم الحدیث میں کہ ا ہے، محمد بن اسحاق بن خزیمہ سے حضور نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد کے بارے پوچھا گیا : ” جنت اور دوزخ نے باہم جھگڑا کیا تو اس یعنی جنت نے کہا مجھ میں ضعفاء داخل ہوں گے “ تو یہ ضعیف کون ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : وہ ہے جو اپنے آپ کو دن میں بیس مرتبہ یا پچیس مرتبہ لاحول ولا قوۃ کے ساتھ بری کراتا ہے۔ اور حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : جو کسی شے کو دیکھے اور وہ اسے بھلی اور خوبصورت لگے تو وہ کہے ما شآء اللہ لا قوۃ الا باللہ تو اسے نظر نقصان نہیں پہنچائے گی “۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : کوئی نہیں ہے جس نے ماشاء اللہ کیا تو پھر کوئی شے بھی اسے پہنچی مگر وہ اس کے ساتھ راضی ہوگا۔ اور روایت ہے کہ جس نے چار (قول) کہے وہ چار سے محفوظ رہے گا : جس نے یہ کہا وہ نظر بد دے محفوظ ہوگیا۔ اور جس نے کہا حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔ (آل عمران) وہ شیطان کے مکر سے محفوظ ہوگیا، اور جس نے کہا وافوض امری الی اللہ (غافر : 44) وہ لوگوں کے مکر سے محفوظ رہے گا اور جس نے کہا : لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظمین۔ (الانبیاء) تو وہ غم سے محفوظ رہے گا قولہ تعالیٰ : ان ترن انا اقل منک ما لا وولدا، ان شرطیہ ہے ترن اسی کے سبب مجزوم ہے اور جواب شرط فعسی ربی ہے اور انا بطور فاصل ہے اس کا اعراب میں کوئی محل نہیں۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ محل نصب میں ہو اور نون اور یا کی تاکید کے لئے ہیں۔ اور عیسیٰ بن عمر نے : ان ترن انا اقل منک مرفع کے ساتھ پڑھا ہے ؛ وہ انا کو مبتدا بنا رہے ہیں اور اقل اسکی خبر ہے اور پھر مکمل جملہ دوسرے مفعول کے محل میں ہے، اور مفعول اول نون اور یا ہیں، مگر یہ کہ یا کو حذف کردیا گیا ہے کیونکہ کسرہ اس پر دلالت کرتا ہے، اور اس کو ثابت رکھنا جید اور بیلغ ہے اور یہی اصل ہے کیونکہ یہ فی الحقیقت اسم ہے۔ اور فعسی بمعنی لعل ہے۔ ای فلعل ربی۔ ان یؤتین۔۔۔ جنتک شاید میرا رب مجھے تیرے اس باغ سے کوئی بہتر چیز آخرت میں عطا فرما دے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں (اس سے بہتر عطا فرما دے) ۔ ویرسل علیھا اور وہ تیرے باغ پر بھیج دے حسبانا آسمان سے عذاب، اس کا واحد حسبانۃ ہے ؛ یہ اخفش، قتبی اور ابو عبیدہ نے کہا ہے۔ اور ابن اعرابی نے کہا ہے : الحسبانۃ کا معنی بادل ہے، اور الحسبانۃ کا معنی تکیہ ہے اور الحسبانۃ کا معنی صاعقہ (بجلی کی کڑک) ہے۔ اور جوہری نے کہا ہے : الحسبان (ضمہ کے ساتھ ہو) تو اس کا معنی عذاب ہے۔ اور ابو زیاد الکلابی نے کہا ہے : أصاب الارض حسبان یعنی زمین پر مکڑی غالب آگئی۔ اور الحسبان کا معنی حساب بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : الشمس والقمر بحسبان۔ (رحمن) اور یہاں حسبان کی یہی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ زجاج نے کہا ہے : الحسبان، الحساب سے ہے، یعنی وہ اس پر حساب کا عذاب بھیج دے، اور یہ اس کا حساب ہے جو کچھ تیرے ہاتھوں نے کمایا (اعمال کئے) ، پس یہ حذف مضاف کے باب سے ہے۔ اور الحسبان سے مراد چھوٹے تیر بھی ہیں جو ایک ہی بار میں پھینکے جاتے ہیں اور یہ اکاسرہ کے تیروں میں سے تھے۔ اور المرامی من السماء سے مرادعذاب ہے۔ فتصبح صعید ازلقا یعنی ایسی سفید زمین ہوجائے جس میں نہ کوئی سبزہ اگتا ہے اور نہ اس پر قدم ثابت رہتا ہے، اور یہ سب سے زیادہ نقصان دہ زمین ہوجائے اس کے بعد کہ یہ ایک باغ تھا اور نفع بخش زمین تھی ؛ اور زلقا، صعید کے وصف کی تاکید کیلئے ہے، یعنی اس کی چکناہٹ کی وجہ سے اس سے پاؤں پھسلتے ہوں۔ کہا جاتا ہے : مکان زلق یعنی پھسلنی جگہ، اور یہ اصل میں مصدر ہے تیرے اس قول کا زلقت رجلہ تزلق زلقا، وازلقھا غیرہ (کسی غیر نے اسے پھسلا دیا) اور الزلق کا معنی عجز الدابۃ (جانور کا پچھلا حصہ) بھی ہے۔ رؤبہ نے کہا ہے : کأنھا حقباء بلقاء الزلق اور المزلقۃ والمزلقۃ : مراد وہ جگہ ہے جس پر پاؤں ثابت نہ رہتے ہوں (یعنی نہ جمتے ہوں بلکہ پھسل جاتے ہوں) اور اسی طرح الزلاقۃ بھی ہے۔ اور الزلق کا معنی الحلق (مونڈنا) ہے، ذلق رأسہ یزلقہ زلقا اس نے اس کا سرمونڈ دیا ؛ یہ جوہری نے کہا ہے۔ اور الزلق کا معنی المحلوق (مونڈا ہوا) ہے، جیسا کہ النقص اور النقص ہے۔ اور مراد یہ نہیں ہے کہ مونڈی ہوئی ہوجائے گی، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس میں کوئی سبزہ باقی نہیں رہے گا جیسا کہ سر جب اسے مونڈ دیا جائے تو اس پر کوئی بال باقی نہیں رہتا، یہ قشیری نے کہا ہے : او یصبح مآءھا غورا یعنی یہ غائرا ذاھبا کے معنی میں ہے۔ یا اس کا پانی بہت نیچے چلا جائے، تو یہ پانی نہ دینے والی زمین ہوجائے گی اس کے بعد کہ یہ پانی دینے والی زمین تھی۔ اور الغور مصدر ہے اسے اسم کی جگہ رکھا گیا ہے جیسے کہا جاتا ہے : رجل صوم وفطر وعدل ورضا وفضل وزور ونساء نوح (یہ تمام مصدر اسم کی جگہ مذکور ہیں) اس میں مذکر و مونث اور تثنیہ و جمع سب برابر ہوتے ہیں۔ عمرو بن کلثوم نے کہا ہے : تظل جیادہ نوحا علیہ مقلدۃ أعن تھا صفونا اور ایک دوسرے نے کہا ہے : ھریقی من دموعھما سجاما ضباع و جاوبی نوحا قیاما یعنی اسمیں نوحا بمعنی نائحات ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : أویصبح ماؤھا ذاغور (اس کا پانی نیچے اترنے والا ہوجائے) پس اس سے مضاف محذوف ہے، جیسا کہ اس ارشاد میں ہے وسئل القریۃ (یوسف : 82) یہ نحاس نے ذکر کیا ہے۔ اور کسائی نے کہا ہے : ماء غور۔ وقد غار الماء یغور غورا وغرورا، یعنی پانی زمین میں نیچے چلا گیا، اور واؤ کے مضموم ہونے کی وجہ سے ہمزہ بھی جائز ہے۔ اور غارت عینہ تغور غورا وغرورا، یعنی اس کی آنکھیں سر میں دھنس گئیں۔ اور غارت تغار بھی اس میں لغت ہے۔ اور کسی شاعر کا قول ہے : أغارت عینہ ام لم تغارا (اس کی آنکھ دھنسے یا نہ دھنسے) اور غارت الشمس تغور غیارا، یعنی سورج غروب ہوگیا۔ ابو ذؤیب نے کہا ہے : ھل الدھر إلا لیلۃ ونھارھا وإلا طلوع الشمس ثم غیارھا فلن تستطیع لہ طلبا یعنی تو ہر گز نیچے اترے ہوئے پانی کو واپس لانے کی استطاعت نہیں رکھے گا اور کسی حیلہ کے ساتھ اس پر قادر نہیں ہوگا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : پس تو ہرگز اس کے بدلے کسی اور کی طلب کی استطاعت نہیں رکھے گا۔ اور اس بات پر اس کے بھائی کا مناظرہ اور اس کا ڈرانا ختم ہوگیا۔
Top