Al-Qurtubi - An-Nisaa : 20
وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ١ۙ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْئًا١ؕ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا
وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمُ : تم چاہو اسْتِبْدَالَ : بدل لینا زَوْجٍ : ایک بی بی مَّكَانَ : جگہ (بدلے) زَوْجٍ : دوسری بی بی وَّاٰتَيْتُمْ : اور تم نے دیا ہے اِحْدٰىھُنَّ : ان میں سے ایک کو قِنْطَارًا : خزانہ فَلَا تَاْخُذُوْا : تو نہ (واپس) لو مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ اَتَاْخُذُوْنَهٗ : کیا تم وہ لیتے ہو بُھْتَانًا : بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح (کھلا)
اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو اور پہلی عورت کو بہت سا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لو گے ؟
آیت نمبر : 20 تا 21۔ ان آیات میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) گزشتہ آیات میں اس جدائی کا حکم گزر چکا جس کا سبب عورت ہے اس صورت میں خاوند کے لیے اپنا مہر واپس لینا جائز تھا اب اس جدائی کا ذکر ہو رہا ہے جس کا سبب خاوند ہے، یہاں فرمایا کہ جب مرد، عورت کو بغیر بدخلقی اور سوء معاشرت کے اسے طلاق دینے کا ارادہ کرے تو اس سے مال طلب نہ کرے۔ مسئلہ نمبر : (2) علماء کا اختلاف ہے کہ جب میاں، بیوی آپس میں جدائی کا ارادہ کرتے ہوں اور دونوں کی طرف سے نافرمانی اور سوء معاشرت کا مظاہرہ ہو، تو امام مالک (رح) نے فرمایا : خاوند کے لیے اس سے مال لینا جائز ہے جب جدائی کا سبب عورت بھی ہو، مرد کے سبب ہونے کا اعتبار نہ ہوگا۔ ایک جماعت علماء کا قول ہے کہ اس کے لیے مال لینا جائز نہیں مگر یہ کہ عورت ہی خود نافرمانی کرتی ہو اور جدائی چاہتی ہو۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واتیتم احدھن قنطارا “۔ اس آیت میں مہر زیادہ رکھنے کی دلیل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ مثال نہیں دیتا مگر مباح چیز کے ساتھ، حضرت عمر ؓ نے خطاب فرمایا اور کہا : خبردار عورتوں کے مہر میں غلو نہ کرو اگر مہر کی زیادتی دنیا میں باعث عزت ہوتی یا اللہ تعالیٰ کے نزدیک باعث تقوی ہوتی تو رسول اللہ ﷺ تم سب سے زیادہ اس کے مستحق ہوتے آپ ﷺ نے کبھی اپنی کسی بیوی اور کسی بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں رکھا (1) (سنن ابی داؤد، کتاب النکاح، باب الصداق، حدیث نمبر 1801، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، مسند امام احمد حدیث نمبر 340) ایک عورت کھڑی ہوئی اور کہا : اے عمر اللہ تعالیٰ ہمیں عطا فرماتا ہے اور تو ہمیں محروم کرتا ہے کیا اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا : (آیت) ” واتیتم احدھن قنطارا فلاتاخذوا منہ شیائ “۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اس عورت نے ٹھیک کہا : عمر نے غلطی کی۔ ایک روایت میں ہے حضرت عمر ؓ نے سر جھکا دیا پھر فرمایا : اے عمر ! تجھ سے تمام لوگ زیادہ فقیہ ہیں، ایک روایت ہے : عورت نے ٹھیک کہا، مرد نے غلطی کی اور انکار کو ترک فرما دیا، اس حدیث کو ابو حاتم البستی (رح) نے اپنی مسند میں ابو العجفاء سلمی سے روایت کیا ہے فرمایا : حضرت عمر ؓ نے خطبہ دیا آگے بارہ اوقیہ تک روایت ذکر کی، عورت کے کھڑے ہونے کا ذکر نہیں کیا، ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ابو العجفاء سے روایت کیا ہے اور بارہ اوقیہ کے بعد یہ ذکر کیا ہے کہ مرد کو عورت کا مہر بوجھل کرتا ہے حتی کہ اس کے دل میں اس عورت کے لیے عداوت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ کہتا ہے : ” قد کلفت الیک علق القربۃ او عرق القرہ۔ “ مجھے تیری طرف سے مشکیزہ کے پانی کی تکلیف دی گئی ہے، میں پیدائشی عربی تھا میں علق القربۃ او عرق القربۃ “ کے متعلق نہیں جانتا تھا کہ یہ کیا ہے۔ جوہری نے کہا : علق القربۃ، عرق القربۃ میں ایک لغت ہے، دوسرے علماء نے کہا : علق القربۃ سے مراد مشکیزہ کی وہ رسی ہے جس کے ساتھ مشکیزہ کو لٹکایا جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے : کلفت الیک حتی عصام القربۃ “۔ مجھے تیری مشقت میں ڈالا گیا ہے حتی کہ مشکیزہ کی رسی بھی میرے ذمہ ہے اور اس کا پانی بھی میری ذمہ داری ہے۔ کہتا ہے : حشمت الیک حتی سافرت واحتجت الی عرق القربۃ۔ اس جملہ میں عرق القربۃ سے مراد مشکیزہ کا پانی ہے اور یہی لفظ پانی کے بہاؤ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : لوگ پانی سفر میں ساتھ لے جاتے تھے اور اسے اونٹ پر لٹکا دیتے تھے اور اسے بانٹتے تھے تو سواری پر وہ شاق ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ العرق اور العلق دونوں کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ اصمعی نے کہا : عرق القربۃ ایسا کلمہ ہے جس کا معنی شدت ہے اور فرمایا : میں نہیں جانتا کہ اس کی اصل کیا ہے۔ اصمعی نے کہا : میں نے ابن ابی طرفہ سے سنا، میں نے جن لوگوں کو دیکھا ہے ان میں سے یہ زیادہ فصیح ہے وہ فرماتے ہیں : میں نے اپنے شیوخ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ” لقیت من فلان عرقۃ القربۃ “۔ یعنی میں نے فلاں سے تکلیف پائی اور اس نے ابن الاحمر کا یہ شعر پڑھا : لیست بمشتمۃ تعد وعفوھا عرق السقاء علی القعود اللاغب : ابو عبیدہ نے کہا : شاعر کی مراد یہ ہے کہ وہ ایک کلمہ سنتا ہے جو اسے غضب ناک کرتا ہے وہ گالی بھی نہیں ہے کہ ایسے کہنے والے کا مؤاخذہ کیا جائے، حالانکہ مجھے اس حد تک پہنچایا گیا ہے جیسا کہ عرق القربۃ “۔ شاعر نے عرق السقا کہا، کیونکہ شعری وزن درست نہیں رہتا تھا، پھر کہا علق القعود والاغب “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے سفروں میں لوگ پیٹھ پر مشکیزہ لٹکاتے تھے، یہ معلی اور فراء کے حکایت کردہ معنی کے مشابہ ہے۔ اس نے کہا : لوگ جنگلوں میں سفر کرتے تھے اور پانی ساتھ لے جاتے تھے اور اسے اونٹ پر لٹکا دیتے تھے اور اسے تقسیم کرتے تھے، یہ سواری پر مشقت اور تھکاوٹ کا باعث ہوتا تھا فراء نے یہ علق کی تفسیر کی ہے، ایک قوم نے کہا : یہ آیت زیادہ مہر رکھنے کے جواز کو مہیا نہیں کرتی کیونکہ قنطار کے ساتھ تمثیل یہ مبالغہ کی جہت سے ہے گویا یوں فرمایا : ” واتیتم ھذا القدر العظیم الذی لایؤتیہ احد “۔ یعنی تم اتنی مقدار میں دو کہ کسی نے اتنی مقدار میں نہ دیا ہو یہ نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد کی طرح ہے : من بنی للہ مسجدا ولو کمفحص قطاۃ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ “۔ (جس نے اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنائی اگرچہ وہ کو نج کے گھونسلے کی طرح ہو تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے گھر بنا دے گا) اور یہ معلوم شدہ بات ہے کہ کو نج کے گھونسلے کی مقدار مسجد نہیں ہوتی اور نبی مکرم ﷺ نے ابو حدرد کو فرمایا تھا جب کہ وہ مہر کے سلسلہ میں مدد طلب کرتے ہوئے آپ کے پاس آئے تھے آپ ﷺ نے اس سے مہر کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ دو سو، رسول اللہ ﷺ ناراض ہوئے اور فرمایا : گویا تم سونا چاندی پتھریلی زمین یا پہاڑ سے کاٹتے ہو، بعض لوگوں نے مہر زیادہ رکھنے سے منع فرمایا : یہ لازم نہیں ہے اور نبی مکرم ﷺ کا اس نکاح کرنے والے پر انکار مہر زیادہ رکھنے کی وجہ سے نہ تھا انکار اس وجہ سے تھا کہ وہ اس حالت میں فقیر تھا اور مدد طلب کرنے اور سوال کرنے کا محتاج تھا اور یہ بالاتفاق مکروہ ہے، حضرت عمر ؓ نے ام کلثوم بنت علی ؓ کو جو حضرت فاطمہ ؓ کے بطن سے تھیں، چالیس ہزار درہم مہر دیا تھا، ابو داؤد نے عقبۃ بن عامر سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے ایک شخص سے کہا : کیا تو خوش ہے کہ میں تیرا نکاح فلاں عورت سے کر دوں ؟ اس شخص نے کہا : ہاں۔ پھر آپ ﷺ نے عورت سے کہا : کیا تجھے پسند ہے کہ میں فلاں سے تیرا نکاح کردوں ؟ اس عورت نے کہا : ہاں تو آپ ﷺ نے اس کا نکاح کردیا۔ شخص نے اس عورت سے حقوق زوجیت ادا کیے اور اس کے لیے مہر مقرر نہ کیا، اور نہ اسے کچھ دیا (1) (سنن ابی داؤد، کتاب النکاح باب فیمن تزوج ولم یسم صداقا۔۔۔ حدیث نمبر 1808، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ حدیبیہ میں موجود لوگوں میں سے تھا اس کو خیبر سے حصہ ملا تھا جب وہ شخص فوت ہونے لگا تو اس نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فلاں عورت سے میرا نکاح کیا تھا اور میں نے اس کا مہر مقرر نہیں کیا تھا اور نہ میں نے اسے کوئی اور چیز دی تھی، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے بطور مہر خیبر کا حصہ دیا، اس عورت نے وہ حصہ لے لیا اور اسے ایک لاکھ میں فروخت کیا، علماء کا اجماع ہے کہ مہر کی زیادتی کی کوئی حد نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واتیتم احدھن قنطارا “۔ اور کم از کم مہر کی مقدار میں علماء کا اختلاف ہے، اس کی وضاحت انشاء اللہ (آیت) ” ان تبتغوا باموالکم “۔ کے تحت آئے گی، سورة آل عمران میں ” قنطارا “۔ کی تحدید کا قول گزر چکا ہے۔ ابن محیصن نے (آیت) ” واتیتم احدھن “۔ کے الف وصل کے ساتھ پڑھا ہے یہ ایک لغت ہے۔ اسی سے شاعر کا قول ہے : تسمع من تحت العجاج لھا ازملا : اور ایک اور کا قول ہے :۔ ان لم اقاتل فالبسونی برقعا “۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فلا تاخذوا منہ شیئا “۔ بکر بن عبداللہ المزنی نے کہا : خلع کرنے والی عورت سے خاوند کچھ واپس نہ لے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فلا تاخذوا “۔ اور اس کو سورة بقرہ کی آیت کے لیے ناسخ بنایا ہے، ابن زید وغیرہ نے کہا : یہ سورة بقرہ کی آیت (آیت) ” ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا “۔ (بقرہ : 229) سے منسوخ ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ آیات محکمہ ہیں ان میں کوئی ناسخ ہے اور نہ کوئی منسوخ ہے، بلکہ ایک دوسرے پر مبنی ہیں، طبری نے کہا : یہ آیت محکمۃ ہے بکرکے قول کا کوئی معنی نہیں۔ اگر عورت خود دینے کا ارادہ کرے تو نبی مکرم ﷺ نے ثابت کے لیے جائز قرار دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی سے وہ لے لے جو اس نے اسے دیا تھا۔ (آیت) ” بھتانا “۔ مصدر ہے حال واقع ہو رہا ہے، ” اثما “ اس کا عطف ” بھتانا “۔ پر ہے۔ ” مبینا، اثما کی نعت ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وکیف تاخذونہ “۔ خلوت اختیار کرنے کے بعد مال لینے سے منع کی علت ہے، بعض علماء نے فرمایا : الافضاء کا مطلب ہے مرد کا ایک لحاف میں عورت کے ساتھ ہونا خواہ اس نے حقوق زوجیت ادا کیے ہوں یا نہ کیے ہوں، یہ ہر وی نے حکایت کیا ہے، اور کلبی کا بھی یہی قول ہے، فراء نے کہا : الافضاء کا معنی مرد اور عورت کا خلوت اختیار کرنا اور جماع کرنا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ مجاہد (رح) اور سدی (رح) وغیرہ نے کہا : اس آیت میں افضاء سے مراد جماع ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کریم ہے وہ کنایہ فرماتا ہے۔ اور لغت میں الافضاء کی اصل مخالطت ہے ملی جلی چیز کو فضا کہا جاتا ہے، شاعر نے کہا :۔ فقلت لھا یا عمتی لک ناقتی وتمر فضا فی عیبتی وزبیب : کہا جاتا ہے : القوم فوضی فضا “۔ یعنی لوگ ملے جلے ہیں، ان کا کوئی امیر نہیں ہے۔ افضی کا معنی خلوت اختیار کی ہے اگرچہ جماع نہ کیا ہو تو، کیا خلوت کی وجہ سے مہر ثابت ہوجائے گا یہ نہیں ؟ ہمارے علماء کے اس کے متعلق مختلف چار اقوال ہیں، (1) مہر صرف خلوت سے ثابت ہوجاتا ہے۔ (2) وطی سے مہر ثابت ہوتا ہے۔ (3) جس گھر میں عورت بھیجی گئی ہے اس میں خلوت سے ثابت ہوتا ہے۔ (4) مرد اور عورت کے گھروں کے درمیان جدائی سے ثابت ہوتا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ مطلقا خلوت سے ثابت ہوجاتا ہے، امام ابوحنیفہ (رح) اور اس کے اصحاب کا یہی قول ہے۔ یہ فرماتے ہیں : جب خلوت صحیحہ ہوجائے تو پورا مہر اور عدت واجب ہوجاتی ہے، خواہ مرد نے عورت سے دخول کیا ہو یا دخول نہ کیا ہو۔ کیونکہ دارقطنی نے ثوبان سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے عورت کا دوپٹہ کھولا اور اس کی طرف دیکھا تو مرہ واجب ہے۔ (1) (سنن دارقطنی، 3824) حضرت عمر ؓ نے کہا جب دروازہ بند کیا، پردہ لٹکا دیا اور شرمگاہ کو دیکھا تو مہر واجب ہوگیا۔ (2) امام مالک (رح) نے فرمایا : جب وہ عورت کے ساتھ ایک طویل عرصہ ٹھہرا رہا مثلا ایک سال وغیرہ، اور وہ دونوں متفق ہوں کہ جماع نہیں ہوا اور عورت پورا مہر طلب کرے تو اس کے لیے یہ ہوگا۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا : اس عورت پر عدت نہ ہوگی اور اسے نصف مہر ملے گا، سورة بقرہ میں یہ مسئلہ گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واخذن منکم میثاقا غلیظا “۔ اس کے متعلق تین اقوال ہیں، بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : ” عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کی امانت کے ذریعے حاصل کیا ہے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے ساتھ ان کی فروج کو حلال کیا ہے “۔ یہ عکرمہ اور ربیع کا قول ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ارشاد مراد ہے۔ (آیت) ” فامساک بمعروف او تسریح باحسان “۔ (بقرہ : 229) یہ حسن، ابن سیرین، قتادہ ضحاک اور سدی رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نکاح کا عقد ہے، مرد کہتا ہے : میں نے نکاح کیا اور میں نکاح کی عقد کا مالک ہوا، یہ مجاہد (رح) اور ابن زید (رح) کا قول ہے، ایک قوم نے کہا ہے کہ میثاق غلیظ سے مراد بچہ ہے۔ واللہ اعلم۔
Top