Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 34
وَّ كَانَ لَهٗ ثَمَرٌ١ۚ فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا
وَّكَانَ : اور تھا لَهٗ : اس کے لیے ثَمَرٌ : پھل فَقَالَ : تو وہ بولا لِصَاحِبِهٖ : اپنے ساتھی سے وَهُوَ : اور وہ يُحَاوِرُهٗٓ : اس سے باتیں کرتے ہوئے اَنَا اَكْثَرُ : زیادہ تر مِنْكَ : تجھ سے مَالًا : مال میں وَّاَعَزُّ : اور زیادہ باعزت نَفَرًا : آدمیوں کے لحاظ سے
اور اس شخص کے اور بھی اموال تھے تو (ایک روز) اس نے اپنے ساتھی سے بحث کرتے ہوئے کہا کہ میں مال میں بھی تم سے زیادہ ہوں اور تعداد کے اعتبار سے بھی تم سے زیادہ طاقتور ہوں۔
وَّکَانَ لَـہٗ ثَمَرٌ ج فَـقَالَ لِصَاحِبِہٖ وَھُوَیُحَاوِرُہٗٓ اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالاً وَّ اَعَزُّ نَفَرًا۔ (الکہف : 34) (اور اس شخص کے اور بھی اموال تھے تو (ایک روز) اس نے اپنے ساتھی سے بحث کرتے ہوئے کہا کہ میں مال میں بھی تم سے زیادہ ہوں اور تعداد کے اعتبار سے بھی تم سے زیادہ طاقتور ہوں۔ ) ثمر کا مفہوم وَّکَانَ لَـہٗ ثَمَرٌ … اس کا ایک ترجمہ یہ کیا گیا ہے اور اس کے پھلوں کا موسم ہوا تو۔ اور دوسرا ترجمہ وہ ہے جو ہم نے کیا ہے۔ یہ دونوں ترجمے یقینا صحیح ہیں۔ البتہ آیت کا دوسرا جملہ اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالاً دوسرے ترجمے کو تقویت دے رہا ہے کہ اسے اپنے باغ کی سرسبزی اور شادابی پر تو بجاطور پر ناز تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس کا اظہار کیے بغیر بھی نہ رہ سکا کہ میرے پاس صرف یہی دولت نہیں بلکہ سونا چاندی کے ڈھیر بھی موجود ہیں۔ ان نعمتوں کی فراوانی کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوتا۔ شکر کے اظہار کے لیے اس کے احکام پر عمل کرتا اور زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کے بندوں کی ضرورتوں پر خرچ کرتا اور اس بات کا یقین رکھتا کہ یہ جو کچھ میرے پاس ہے یہ سب میرے اللہ تعالیٰ کی عطا ہے ورنہ کتنے لوگ ہیں جو مجھ سے زیادہ محنت کرتے اور تدبیر لڑاتے ہیں، لیکن وہ کبھی بھی رزق کی فراوانی سے بہرہ ور نہیں ہوتے، لیکن اس کے برعکس اس نے جو طرز عمل اختیار کیا وہ یہ تھا کہ جب اس کے ہمسائے نے جو ایک مردمومن تھا اس کے الجھے ہوئے خیالات اور بگڑے ہوئے اخلاق اور تکلیف دہ طرز عمل کو دیکھ کر اسے نصیحت کرنے کی کوشش کی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو کچھ تمہیں ملا ہے اس پر اس کا شکر بجا لائو، تو اس نے اسے اپنی توہین سمجھا اور اس مردمومن کی غربت پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ تم کون ہوتے ہو مجھے نصیحت کرنے والے، میں ہر لحاظ سے تم سے بہتر ہوں۔ میں مال و دولت کی کثرت سے بہرہ ور ہوں جبکہ تم نان شبینہ کے محتاج ہو۔ اور میرے پاس حامیوں کا جتھا ہے اور نوکر چاکر بھی کثرت سے ہیں اور تمہیں کوئی منہ لگانے کو تیار نہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جس طرح زندگی گزار رہا ہوں اور جس طرح کے تصورات رکھتا ہوں وہ یقینا تیرے عقائد اور تیرے طرز عمل سے بہتر ہیں، کیونکہ اگر میں غلط ہوتا تو مجھے یہ دولت کی فراوانی میسر نہ ہوتی اور تم اگر اپنے خیالات و عمل میں درست ہوتے تو اس طرح جوتے نہ چٹخاتے پھرتے۔ درحقیقت ہر وہ شخص جو دنیا اور دولت دنیا کے حصول ہی کو حاصل زندگی سمجھتا ہے وہ اسی دلیل سے اپنے آپ کو برحق ثابت کرتا ہے۔ خیالات کا یہی فساد ہے جس نے قریش کو بھی ہدایت سے دور رکھا اور اکثر دنیا کے پرستار اسی دلیل کے سہارے اپنی گمراہیوں کا جواز پیدا کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ دولت کی کمی بیشی ہدایت کا معیار نہیں بلکہ اس کا معیار صرف اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اللہ تعالیٰ کا رسول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہی دونوں واسطوں سے ہمیشہ انسانوں کو اپنی رہنمائی سے نوازا ہے اور ان کے تصورات کی اصلاح کی ہے۔ چناچہ ہر وہ تصور اور وہ خیال جو ان دونوں معیارات سے ہٹا ہوا ہو یعنی جس کے پیچھے وحی الٰہی کی سند نہ ہو وہ یقینا گمراہی ہے لیکن طبقہ امراء کا ہمیشہ یہ حال رہا ہے کہ وہ اپنی امارت کو اپنے برسرہدایت ہونے اور دوسروں کی غربت کو ان کے گمراہ ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں۔ محولہ بالا شخص بھی ایسی ہی گمراہیوں کا شکار تھا اس لیے اس مرد مومن سے بات کرتے ہوئے اس نے اپنے مال و دولت کی کثرت اور افرادی قوت کی زیادتی پر نہ صرف فخر کیا بلکہ اپنے برسرحق ہونے کی دلیل بھی بنایا۔
Top