Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 187
اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمْ١ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ١ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ١۪ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ١ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِی الْمَسٰجِدِ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
اُحِلَّ : جائز کردیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے لَيْلَةَ : رات الصِّيَامِ : روزہ الرَّفَثُ : بےپردہ ہونا اِلٰى : طرف (سے) نِسَآئِكُمْ : اپنی عورتوں سے بےپردہ ہونا ھُنَّ : وہ لِبَاسٌ : لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاَنْتُمْ : اور تم لِبَاسٌ : لباس لَّهُنَّ : ان کے لیے عَلِمَ : جان لیا اللّٰهُ : اللہ اَنَّكُمْ : کہ تم كُنْتُمْ : تم تھے تَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے اَنْفُسَكُمْ : اپنے تئیں فَتَابَ : سو معاف کردیا عَلَيْكُمْ : تم کو وَعَفَا : اور در گزر کی عَنْكُمْ : تم سے فَالْئٰنَ : پس اب بَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَابْتَغُوْا : اور طلب کرو مَا كَتَبَ : جو لکھ دیا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو حَتّٰى : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : واضح ہوجائے لَكُمُ : تمہارے لیے الْخَيْطُ : دھاری الْاَبْيَضُ : سفید مِنَ : سے لْخَيْطِ : دھاری الْاَسْوَدِ : سیاہ مِنَ : سے الْفَجْرِ : فجر ثُمَّ : پھر اَتِمُّوا : تم پورا کرو الصِّيَامَ : روزہ اِلَى : تک الَّيْلِ : رات وَلَا : اور نہ تُبَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم عٰكِفُوْنَ : اعتکاف کرنیوالے فِي الْمَسٰجِدِ : مسجدوں میں تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ : حدیں اللّٰهِ : اللہ فَلَا : پس نہ تَقْرَبُوْھَا : اس کے قریب جاؤ كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ اٰيٰتِهٖ : اپنے حکم لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجائیں
حلال کردیا گیا تمہارے لیے روزہ کی رات میں اپنی عورتوں سے بےحجاب ہونا۔ وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کالباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم خیانت کرتے تھے اپنی جانوں سے سو معاف کیا تم کو اور درگزر کی تم سے۔ پس اب اپنی عورتوں سے مباشرت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور کھائو اور پیو تاآنکہ صاف نظر آئے تم کو صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے پھر رات تک روزہ پورا کرو اور اپنی عورتوں سے مباشرت نہ کرو جب تک تم مسجدوں میں اعتکاف کرویہ اللہ کی حدود ہیں پس ان کے قریب مت جائوا سی طرح بیان فرماتا ہے اللہ لوگوں کے لیے اپنی آیتیں تاکہ وہ بچتے رہیں
اُحِلَّ لَـکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَائِکُمْ ط ھُنَّ لِبَاسٌ لَّـکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ط عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْـکُمْ ج فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَاکَتَبَ اللّٰہُ لَـکُمْ ص وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَـکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ص ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰـکِفُوْنَ لا فِی الْمَسٰجِدِ ط تِلْـکَ حُدُوْدُاللّٰہِ فَـلاَ تَقْرَبُوْھَا ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰـتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ ۔ (حلال کردیا گیا تمہارے لیے روزہ کی رات میں اپنی عورتوں سے بےحجاب ہونا۔ وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کالباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم خیانت کرتے تھے اپنی جانوں سے سو معاف کیا تم کو اور درگزر کی تم سے۔ پس اب اپنی عورتوں سے مباشرت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور کھائو اور پیو تاآنکہ صاف نظر آئے تم کو صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے پھر رات تک روزہ پورا کرو اور اپنی عورتوں سے مباشرت نہ کرو جب تک تم مسجدوں میں اعتکاف کرویہ اللہ کی حدود ہیں پس ان کے قریب مت جاؤ ا سی طرح بیان فرماتا ہے اللہ لوگوں کے لیے اپنی آیتیں تاکہ وہ بچتے رہیں) (البقرۃ : 187) روزے کے احکام وآداب سے متعلق جو سوالات مسلمانوں کے ذہنوں میں پیدا ہوئے ممکن ہے ان میں سے کوئی سوال آنحضرت سے پوچھا بھی گیا ہو۔ صحابہ کا عام معمول کم سے کم سوال کرنے کا تھا۔ وہ قرآن کو آنحضرت کی تعلیمات کی روشنی میں اس طرح سراپا گوش ہوکرسنتے اور اس طرح دل و جان سے سمجھنے کی کوشش کرتے کہ عموماً ان کو سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ پورے قرآن پاک میں صحابہ کے کل چودہ (14) سوالوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ البتہ ! یہ ضرورہوا ہے کہ اگر کوئی سوال کیا گیا ہے تو پروردگار نے صرف اسی کا جواب ارشاد نہیں فرمایا بلکہ جب اس کا ابر کرم برسا ہے تو ہر خشک وتر کو سیراب کرگیا ہے۔ ان سوالات کے بھی جواب دے دئیے گئے جو دلوں میں پیدا ہوئے یا ہوسکتے تھے۔ یہاں بھی ایسے ہی سوالوں کے جوابات دئیے جارہے ہیں۔ آیت کے پس منظر سے متعلق تین باتیں الرَّفَثُ ” شہوانی باتوں “ کو کہتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد الی کے صلے نے اسے مباشرت کے معنوں میں تبدیل کردیا ہے۔ اس بارے میں تین باتیں پس منظر کے طور پر مفسرین کی جانب سے کہی گئی ہیں۔ جو بظاہر تھوڑاسا اختلاف رکھتی ہیں لیکن انجام کے اعتبار سے ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ 1 پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ اُحِلَّ لَکُمْ کا معنی ہے ” تمہارے لیے حلال کردیا گیا “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز اس آیت کے ذریعے حلال کی گئی ہے وہ اس سے پہلے حرام تھی۔ احادیث سے اس پر استدلال کیا گیا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت برأ ابن عازب سے روایت کیا گیا ہے کہ ابتدا میں جب رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو افطار کے بعد کھانے پینے اور عورتوں سے تعلق پیدا کرنے کی صرف اس وقت تک اجازت تھی جب تک آدمی سو نہ جائے۔ سوجانے کے بعد یہ سب چیزیں حرام ہوجاتی تھیں۔ چناچہ اس کی وجہ سے بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ قیس بن صرمہ انصاری دن بھر مزدوری کرکے افطار کے وقت پہنچے تو گھر میں افطار کے لیے کچھ نہ تھا۔ بیوی نے کہا کہ میں کہیں سے کچھ انتظام کرکے لاتی ہوں جب وہ واپس آئیں تو دن بھر کی تکان کی وجہ سے حضرت قیس سو چکے تھے۔ بےدار ہوئے تو کھانا حرام ہوچکا تھا اب سحری تو کھا نہیں سکتے تھے افطاری مل نہ سکی اگلے دن کا روزہ اسی طرح رکھا دوپہر کو شدت پیاس اور کمزوری کی وجہ سے بیہوش ہوگئے۔ (ابن کثیر) اسی طرح بعض صحابہ سونے کے بعد نفس کی اکساہٹ کے باعث اپنی بیبیوں سے اختلاط کربیٹھے اور پھر یہ سوچ کر پریشان ہوئے کہ ہم نے ایک ایسا کام کیا جس کی اجازت نہ تھی۔ چناچہ اسی سلسلے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ 2 بعض دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی جانب سے سونے کے بعد ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی۔ لیکن مسلمانوں نے یہود کو دیکھتے ہوئے کہ وہ افطار کے بعد دوسرے روزے کی نیت کرلیتے ہیں خودیہ سمجھ لیا کہ سونے کے بعد کھانا پینا اور بیوی سے اختلاط حرام ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے بیویوں کے ساتھ ان کے اختلاط کو حرام فعل کا ارتکاب قرار نہیں دیا بلکہ یہ فرمایا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کررہے تھے۔ خیانت واضح حکم کی نافرمانی کو نہیں کہتے بلکہ غیر واضح معاملہ میں کسی مشتبہ پہلو کا اختیار کرنا اپنے نفس کے ساتھ خیانت کرنا ہے۔ انھوں نے چونکہ اسے اپنے لیے غلط فہمی سے حرام قرار دے دیا تھا ان سے فرمایا جارہا ہے کہ تمہارے لیے اسے حلال کردیا گیا ہے۔ 3 تیسرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ اگر کسی معاملے میں اللہ کی طرف سے واضح رہنمائی نازل نہیں ہوتی تھی تو حضور عام طور پر تورات کے احکام کی پابندی کرتے تھے۔ اور میرا گمان یہ ہے کہ سورة الانعام میں متعدد انبیائے کرام کے ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے : اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدَا ھُمُ اقْـتَدِہٖ ” یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی آپ ان کی پیروی کیجیے۔ “ چناچہ نزول وحی سے پہلے آپ اسی حکم پر عمل کرتے ہوئے تورات کے بعض احکام کی پیروی کرتے تھے۔ پھر جب وحی الٰہی کے ذریعے نیا حکم نازل ہوجاتاتو اس کا مطلب یہ تھا کہ پروردگار نے تورات کے پرانے حکم کی جگہ نیا حکم دے دیا ہے۔ اس طرح سے پرانا حکم منسوخ ہوگیا اور اگر اسے ہی باقی رکھنا ہوتا تو وہی حکم نئی شکل میں قرآن کریم میں نازل ہوجاتا تھا یا حدیث کی شکل میں آپ پر نازل کردیا جاتا تھا۔ یہاں بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہود چونکہ افطار کے ساتھ ہی دوسرے روزے کا آغاز کردیتے تھے مسلمانوں نے ان کی پیروی کی اور آنحضرت ﷺ نے نزول ِ وحی تک اسے باقی رکھا۔ پیش نظر آیت کریمہ نے اس ممانعت کو منسوخ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے تمہارے لیے رمضان کی راتوں میں کھاناپینا، بیوی سے تعلق قائم کرنا جائز قرار دے دیا ہے۔ چناچہ طلوع سحر تک تمہیں آزادی ہے کہ ان حلال اور طیب چیزوں سے فائدہ اٹھائو۔ رات کو دن کی طرح پابندی کیوں نہیں لگائی گئی طلوعِ فجر سے لے کرغروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور میاں بیوی کے تعلق پر اس لیے پابندی لگائی گئی ہے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو اور تم میں اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا ہو۔ لیکن ایک ٹریننگ کو ٹریننگ ہی رہنا چاہیے اسے سزا نہیں بنادینا چاہیے اور طبیعتوں کے لیے اسے اس حد تک ناقابلِ قبول نہیں بنادینا چاہیے کہ طبیعتیں اس سے بغاوت پر آمادہ ہوجائیں کیونکہ انسانی فطرت جن چیزوں کا تقاضا کرتی ہے کسی خاص مقصد کے لیے ایک حد تک ان پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ لیکن ایسی پابندی جو فطرت سے جنگ لڑنے کے مترادف ہو وہ کبھی اچھے نتائج پیدا نہیں کرتی چناچہ جسم کے لیے غذا کی طلب ایک فطری تقاضا ہے، اسے حدود میں رکھنے کے لیے دن بھر کی محنت کافی ہے۔ اسی طرح میاں بیوی کا جنسی مطالبہ بھی ایک فطری مطالبہ ہے اس کے لیے بھی دن بھر کی پابندی کافی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر رات کو ان فطری تقاضوں پر پابندی لگادینا فطرت کو توڑ دینے کی ایک کوشش ہے جو خالق فطرت کبھی پسند نہیں کرتے۔ کھانے پینے کے معاملے میں تو اس معاملے کو سمجھنا بہت آسان ہے لیکن میاں بیوی کے معاملے میں بعض تشدد پسند طبیعتوں کو سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے۔ اس لیے اس کا ذکر بطور خاص فرمایا۔ ھُنَّ لِـبَاسٌ لَّـکُمْ وَاَنْتُمْ لِـبَاسٌ لَّھُنَّ ” وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو “ لباس کا مفہوم یہ تشبیہ میاں بیوی کے ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی گہرے تعلق کی طرف اشارہ ہے۔ اس سے بتلانا یہ مقصود ہے کہ میاں بیوی ایسے فطری تقاضوں میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں کہ کسی صورت بھی ایک دوسرے سے الگ الگ نہیں رکھے جاسکتے۔ ان کے اس تعلق پر اسی حد تک پابندی لگائی جاسکتی ہے جس حد تک فطرت اجازت دے اور اس کے لیے دن کا روزہ کافی ہے اور وہی تربیتِ نفس کے لیے کفایت کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر پابندی فطرت کی حدود میں مداخلت سے کم نہیں۔ اس تشبیہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے وہ یہ ہے کہ لباس ہر آدمی کے جسم کے لیے ساتر ہے اس سے اس کے عیوب برہنگی کو پردہ پوشی نصیب ہوتی ہے۔ اگر کسی شخص میں لباس کا فطری تقاضا کمزور پڑجائے تو آہستہ آہستہ وہ کتے بلیوں کی سطح پر آجاتا ہے کیونکہ انسان کے اندر اظہار کی خواہش اس کی جبلت میں داخل ہے اور جنسی ضرورت اور جنسی کشش اس کی طبیعت کا لازمی حصہ ہیں۔ جب لباس کی فطری خواہش کمزورپڑتی ہے تو اظہار کی قوت اپنا زور لگاتی ہے اور جنسی طلب اپنے لیے غلط راستے نکالتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اخلاق کا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔ نگاہیں آوارہ ہوجاتی ہیں، دل سفلی جذبات کے مسکن بن جاتے ہیں اور شیطانی قوتیں اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کو ہوا دیتی چلی جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح میاں بیوی کا تعلق بھی لباس کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے ذریعے ہر جبلت اور ہر قوت کو اصلی جگہ رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اللہ نے انسان میں جو ایک حیا کی قوت رکھی ہے وہ خود ایک باطنی لباس ہے۔ ظاہری لباس جب اس کا ساتھ دیتا ہے تو دونوں مل کر اخلاق کا تانا بانا تیار کرتے ہیں اور اسی سے میاں بیوی کا نازک تعلق پروان چڑھتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لباس انسان کے لیے صرف ساتر ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ سردی اور گرمی کی شدت سے بھی انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔ اور موسمی لحاظ سے باہر سے ہونے والا ہر حملہ پہلے لباس ہی پر ہوتا ہے اور وہی اس کو جسم تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ قرآن کریم نے زرہ بکتر کو بھی لباس ہی قرار دیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ کہ جس طرح زرہ بکتر آدمی کی حفاظت کرتے ہیں اسی طرح میاں اور بیوی زرہ اور بکتر کی طرح شیطان کے حملوں سے ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں۔ اللہ والے ہمیشہ اپنے مریدوں کو اپنی بیویوں کو ساتھ رکھنے کا حکم دیتے تھے تاکہ باہر سے ہر طرح کے بداخلاقی کے حملوں سے محفوظ رہیں اور جہاں تک عورت کا تعلق ہے وہ چاہے کچھ بھی بن جائے اس کی عزت و حرمت کا محافظ مرد کے سوا کوئی نہیں۔ اس طرح لباس سے تشبیہ دے کر ان تمام باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّـکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ آیت کے اس حصے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تم نے اپنے طور پر یہ سمجھ لیا تھا کہ سونے کے بعد ازدواجی تعلقات ناجائز ہوجاتے ہیں۔ اس کے باوجود تم میں سے بعض لوگوں نے نفس کی اکساہٹ پر ازدواجی تعلقات قائم کیے اس طرح سے تم نے اپنے نفسوں سے خیانت کی۔ اب پروردگار نے رات کو کھاناپینا اور ازدواجی تعلقات تمہارے لیے حلال کردئیے ہیں اس سے پہلے تمہاری طرف سے جذبات کے اسیر ہو کر اگر ایسی غلطی ہوچکی ہے اللہ اسے خوب جانتے ہیں کہ تمہیں اس کا شدید رنج ہے اور تم اس پر ندامت محسوس کرتے ہو۔ اس لیے اللہ نے مہربانی فرمائی کہ تمہاری اس غلطی سے درگزر فرمائی بلکہ اسے معاف بھی فرمادیا۔ اب تمہیں اس بات کی اجازت ہے کہ تم اگر چاہو تو اپنی بیویوں سے مل سکتے ہو۔ اس کے بعد ازدواجی زندگی کے اصل مقصد کو واضح فرمایا : ازدواجی زندگی کا اصل مقصد وَابْتَغُوْا مَاکَتَبَ اللّٰہُ لَـکُمْ ” اور اللہ نے جو تمہارے لیے مقدر کررکھا ہے اس کے طالب بنو “۔ یہ ایک بہت بڑی اصلاح ہے انسان ہر دور میں یہ سمجھتا رہا اور آج بھی یہی سمجھتا ہے کہ نکاح کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے لطف ولذت کا حصول۔ جوانی جنسی آوارگی کے مواقع چاہتی ہے، انسان اپنی قوت کو اسی عیش و عشرت میں ڈبو دینا چاہتا ہے۔ ہر دور کے سماج یا مذہب نے نکاح کی پابندی لگا کر اس کے اس جذبے کو ایک راستے پر لگایا۔ لیکن مقصد نکاح کو متعین نہ کرنے کے باعث اس میں وہ پاکیزگی پیدا نہ ہوسکی جو ایک پاکیزہ معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ قرآن کریم نے انسان کی اس ضرورت کو تسلیم کیا اور چار بیویوں تک کی اجازت دی۔ لیکن اسے ضرورت تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ مقصد بنانے سے روکا۔ کہ تمہارا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا اس لیے نہیں ہے کہ تمہیں ایک عشرت کدہ میسر آگیا ہے کیونکہ اگر اس تصور کو قبول کرلیاجائے تو پھر نئے سے نئے لطف ولذت کے لیے کندھے بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ذمہ دار لوگوں کی بجائے بھنوراصفت لوگ پیدا ہوں گے جو ہر پھول کا مزہ چکھنا چاہیں گے اس لیے قرآن کریم نے اس ضرورت کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ یہ فرمایا کہ تمہارے ازدواجی تعلق کا مقصد یہ ہے کہ تم اولاد پیدا کرو۔ لیکن یہ یاد رکھواولاد کا پیدا ہونا تمام تر تقدیرِ الٰہی پر منحصر ہے۔ اس کا ہر طرح کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ میاں بیوی کا تعلق اس کا ذریعہ ہے لیکن اس ذریعہ کو مثمر کرنا اور بارآور کرنا یہ سراسر اللہ کی قدرت میں ہے۔ اس کے بعدروزے کے آغاز اور انتہا کی حدود مقرر فرمائی اور اس کے لیے ایک ایسا پیمانہ مقرر کیا جس کو ہر آدمی ہر دور میں سمجھ سکتا ہے۔ سمندروں میں سفر کرنے والے، صحرا میں رہنے والے، دیہات کے ان پڑھ لوگ، سب جانتے ہیں کہ پوکس طرح پھٹتی ہے۔ طلوع فجر کس طرح ہوتی ہے، مشرق کے افق پر پھیلی ہوئی سیاہی سے ایک سفید دھاری پھوٹتی ہے جو بلند ہوتی جاتی ہے۔ اسی کو پو پھٹنا کہتے ہیں، اسی کو طلوع فجر سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسی کو یہاں رات کے سیاہ دھاگے سے صبح کے سفید دھاگے کے واضح ہوجانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آنحضرت کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی صدیوں تک مسلمان اسی فطری اور طبعی طریقے سے سحری کا تعین کرتے تھے۔ تو اس میں یقینا دوچار منٹ کی گنجائش رہتی تھی کیونکہ ایک دھاری پھوٹنے اور اس کے بلند ہونے میں وقت لگتا ہے لیکن جدید آلات کی مدد نے اب وقت کے تعین میں آسانی پیدا کردی ہے اور اسی ٹھیک وقت پر عموماً اذانیں کہی جاتی ہیں۔ اس لیے اب یہ کہنا مشکل ہے کہ اب بھی چند منٹ کی گنجائش ہوتی ہے بہتر ہے اب احتیاط سے کام لیاجائے اور اذان کے ساتھ ہی کھاناپینا چھوڑ دیاجائے۔ وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ لا فِی الْمَسٰجِدِ ” اور بیویوں سے مباشرت نہ کرو جب تک تم مساجد میں اعتکاف میں ہو “ اعتکاف کی حقیقت عَکَفَکا اصل معنی ” اپنے آپ کو کسی چیز سے روک لینے یا کسی چیز پر جما دینے “ کے ہیں۔ لیکن قرآن وسنت کی اصطلاح میں خاص شرائط کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنے اور قیام کرنے کا نام ” اعتکاف “ ہے۔ فِیْ الْمَسٰجِدکے لفظ سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اعتکاف صرف مسجدوں میں ہوسکتا ہے۔ البتہ ! عورتیں اپنے گھروں میں ایک مخصوص جگہ میں اعتکاف کرسکتی ہیں۔ رمضان کے روزوں کا چونکہ اصل مقصد اللہ سے لولگانا اور اس کا قرب حاصل کرنا ہے۔ اس کے لیے جہاں دن بھر حاجاتِ دنیوی سے لاتعلق رہنا اور رات کو عبادت اور قرآن خوانی میں مصروف رہنا ضروری ہوا، اسی طرح اس کیفیت کی تکمیل کے لیے اعتکاف کو بھی آنحضرت نے اپنی سنت بنایاتا کہ لوگ دس روز تک تنہائی میں اللہ کی یاد میں ڈوب کر اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں، اپنی کمزوریوں کو تلاش کریں پھرا للہ سے اس کے ازالے کی توفیق مانگیں، دس دن اسی کے آستانے پر اس طرح ڈھیر رہیں کہ اللہ کی یاد اور اس کی عبادت اور اس کی مناجاتیں اور اسی سے دعائوں کے سوا کسی اور بات سے دلچسپی نہ رہے۔ اس سے دل و دماغ کی تطہیر کے ساتھ ساتھ ایک خاص ذوق اور ایک مزاج وجود میں آتا ہے جس سے دنیا کے رشتے ماند پڑجاتے ہیں اور اللہ کا رشتہ مضبوط ہوجاتا ہے اور آدمی کے نہاں خانے میں خیر وشر کی تمیز کا ایک ایسا شعورابھرتا ہے جس سے وہ صراط مستقیم پر چلنا آسان محسوس کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ہر سال دس روز کے لیے مسجد میں اعتکاف فرمایا اور مسلمانوں کے لیے اسے سنت کفایہ بنادیا۔ اب ہر آبادی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنی اپنی مساجد میں چند افراد کو اعتکاف میں بٹھائیں تاکہ اللہ کا گھر ہر وقت اس کے ذکر سے معمور رہے اور ان کی روحانی کیفیت باقی نمازیوں پر بھی اثر انداز ہو اور ان کے واسطے سے پوری آبادی دینی بیداری کے احساس سے بہرہ ور ہوجائے۔ اعتکاف کے مسائل اعتکاف چونکہ شب وروز کی عبادت ہے اس کے لیے اس کی پابندیاں روزے کی نسبت کچھ زیادہ ہیں۔ روزے دار کی طرح دن میں ایک معتکف کو بھی روزے سے رہنا پڑتا ہے لیکن رات کو کھانے پینے کی تو آزادی ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس کے پورا کیے بغیر چارہ نہیں۔ لیکن معتکف کے لیے بیوی سے کسی طرح کا تعلق پیدا کرنا جائز نہیں۔ یہ تعلق اعتکاف کی روح کے بھی خلاف ہے اور مسجد کے ادب کے بھی خلاف۔ اعتکاف میں چونکہ آدمی اللہ ہی کے آستانے پر آپڑتا ہے اس لیے بغیر کسی شرعی ضرورت کے مسجد سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر سحری اور افطاری کی ضرورت مسجد کے اندر پورا ہونے کی کوئی صورت پیدا ہوجائے تو پھر تو باہر نکلنا بالکل جائز نہیں۔ لیکن اگر مسجد کے اندر اس کا کوئی انتظام نہ ہو تو پھر کسی قریب ترین جگہ سے کھانے کے لیے جانے کی اجازت ہے۔ لیکن کسی اور مصروفیت میں وقت لگانے کی بالکل اجازت نہیں۔ اسی طرح اعتکاف کی حالت میں نہانے پر کوئی پابندی نہیں نہانا شرعی ضرورت سے ہو تو باہر نکل کر بھی نہایا جاسکتا ہے۔ لیکن محض طبیعت کی تازگی کے لیے نہانا یا عادت پورا کرنے کے لیے تو اس کے جواز کی ایک ہی صورت ہے کہ مسجد کے اندر نہانے کا اس طرح اہتمام کیا جائے کہ اس کا پانی مسجد کے اندر نہ گرنے پائے۔ مسجد کے فرش کے اوپر ایک مصنوعی فرش لگایا جائے اور پانی اس کا باہر نکال دیا جائے۔ اس صورت میں نہایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر ایسا انتظام نہ ہو تو پھر اعتکاف کے دنوں میں نہانے سے صبر کرنا چاہیے۔ ویسے بھی اعتکاف کے مقاصد میں سے یہ بھی ایک مقصد ہے کہ آدمی اپنی عادات کی غلامی سے نکلے نہانا بہت اچھی بات ہے لیکن اسے عادت بنالینا کہ اس کے بغیر چند دن نہ گزرسکیں یہ بجائے خود توجہ طلب بات ہے۔ اسی طرح اعتکاف میں یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی اپنی دوسری ضرورتوں پر بھی کسی قدرقدغن عائد کرے۔ سونا، کھانا، بولنا، ملنا، انسانی ضرورتیں بھی ہیں اور انسانی معاشرت کے تقاضے بھی۔ روزہ اور اعتکاف ان میں اصلاح اور تہذیب کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ان ضرورتوں کو اس سطح پر لایا جائے جس سے یہ انسانیت کے جلاپانے میں ممد و معاون ثابت ہوں۔ روزے میں جس طرح کم کھانے کی عادت ڈالی جاتی ہے اسی طرح اعتکاف میں کم سونے، کم بولنے، اور کم ملاقاتیں کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اسی لیے اس کا مرکز مسجد رکھا ہے تاکہ لوگ اللہ کے گھر میں زیادہ احتیاط سے اس عبادت میں مصروف رہیں۔ فقہا نے لکھا ہے کہ اعتکاف صرف اس مسجد میں ہوسکتا ہے جس میں پنج وقتہ جماعت ہوتی ہو۔ جس میں جماعت کا اہتمام نہ ہو محض لوگ انفرادی نماز پڑھتے ہوں اسے مسجد کہنا ہی مشکل ہے اس لیے وہاں اعتکاف نہیں ہوتا۔ البتہ ! وہاں اگر جمعہ نہ ہوتاہو تو جمعہ کے لیے جامع مسجد جانے کی اجازت ہے۔ اعتکاف کے مزید مسائل کے سلسلے میں علما سے رجوع کرنا چاہیے۔ آیت کے آخر میں فرمایا تِلْکَ حُدُوْدُاللّٰہِ فَلاَ تَقْرَبُوْھَا ” یہ اللہ کی حدود ہیں ان کے قریب نہ جاؤ “۔ حدود سے مراد وہ تمام پابندیاں ہیں جو روزے اور اعتکاف کی حالت میں ایک روزہ دار اور معتکف پر عائد ہوتی ہیں۔ یہاں صرف یہ حکم نہیں دیا کہ ان پابندیوں کی خلاف ورزی نہ کرو بلکہ یہ حکم دیا کہ ان کے قریب بھی نہ جاؤ کیونکہ جو شخص صرف ضابطے کی خانہ پری کرنا چاہتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اپنے آپ کو الائونس دیتا جائے اور جب تک فقہی قوانین اس کا راستہ بالکل نہ بند کردیں وہ آگے بڑھنے سے دریغ نہیں کرتا۔ وہ ہر جائز چیز سے آخری حد تک استفادہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی طبیعتیں بالعموم اللہ کے خوف اور تقویٰ سے بےگانہ ہوجاتی ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ گناہ کی حدود میں داخل ہونے سے بھی انھیں باک نہیں رہتا۔ اس لیے نفسیاتی اور تربیتی نقطہ نگاہ سے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ آدمی آخری حد کا انتظار نہ کرے بلکہ معصیت کی حدود سے دور ہی اپنے رہوارِ نفس کی باگ کھینچ لے۔ اسی بات کو آنحضرت ﷺ نے ایک مثال دے کر سمجھایا آپ نے فرمایا ہر بادشاہ کی ایک شاہی چراگاہ ہوتی ہے جس میں پبلک کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ اس چراگاہ کے گرد ایک باڑھ لگادی جاتی ہے اور لوگوں کو متنبہ کردیا جاتا ہے کہ اس باڑھ کے قریب نہ آنا۔ اگر تم اپنے جانوروں کو اس باڑھ کے قریب چرائو گے تو ممکن ہے کسی وقت تمہارے جانور کود کرچراگاہ کے اندر داخل ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ کی حرام کردہ چیزیں اللہ کی چراگاہ ہیں۔ ان کے گرد مشتبہ چیزوں کی باڑھ لگائی گئی ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا نفس اس چراگاہ کے اندر نہ جانے پائے تو اسے اس باڑھ کے قریب نہ آنے دو تاکہ وہ اللہ کی حدود کو پامال نہ کردے۔ اسی حکمت کے باعث آنحضرت ﷺ نے بعض احتیاطوں کا حکم دیا ہے۔ مثلاً روزہ کی حالت میں کلی کرنے کی تو اجازت دی لیکن اس میں مبالغہ کرنا مکروہ ٹھہرایا تاکہ پانی حلق کے اندر جانے کا خطرہ نہ ہو۔ منہ کے اندر کسی دوا کا استعمال مکروہ قرار دیا۔ بیوی سے بوس وکنار کرنے سے روکا تاکہ ضبط نفس کی حدود ٹوٹنے کا اندیشہ پیدا نہ ہو۔ اسی طرح سحری کھانے میں طلوع فجر سے دوچار منٹ پہلے ہاتھ کھینچ لینا اور افطار میں دو تین منٹ تاخیر کرلیناپسندیدہ ٹھہرایا گیا۔ وَلاَ تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَـکُمْ بَیْنَـکُمْ بِالْـبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِھَـآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ ع (اور نہ کھائو مال ایک دوسرے کا آپس میں ناحق اور نہ پہنچائو ان کو حاکموں تک کہ کھاجاؤ کوئی حصہ لوگوں کے مال میں سے ظلم کرکے اور تم جانتے ہو) (البقرۃ : 188) روزوں کی فرضیت کا اصل مقصدانسان کے اندر سے حرص، طمع، بخل، لالچ اور اس طرح کے دوسری صفات قبیحہ کو نکالنایا ان پر قابو پانے کی تربیت دینا ہے۔ اسی سے انسان کے اندر وہ تقویٰ پیدا ہوتا ہے جو اسے اللہ سے ڈرنا سکھاتا ہے، بندوں کے معاملات میں عدل پسند اور محتاط بناتا ہے اور حلال و حرام کی تمیز اس کے اندرپیدا کردیتا ہے۔ اسلام کے نظام معاش کی اساس حلال و حرام کی پابندی پر ہے پیشِ نظر آیت کریمہ میں یہ کہا جارہا ہے کہ روزے سے تمہارے اندر جو صفات پیدا کی گئی ہیں اس کا اصل امتحان اس وقت ہوگا جب تم رمضان کے بعد اپنی عملی زندگی میں ہر طرح کے معاملات میں شریک ہو کر اپنا فرض انجام دینے کی کوشش کروگے۔ تب اندازہ ہوگا کہ تم نے تمام قبیح صفات پر کہاں تک قابو پایا ہے ؟ تم نے کہاں تک حلال و حرام کی پابندی کا خود کو خوگر بنایا ہے ؟ اگر تم اس امتحان میں پورا اترنا چاہتے ہو تو دیکھنا باہمی ایک دوسرے کے مال کو حرام طریقے سے مت کھانا اور نہ اپنے مال کو حکام رسی کا ذریعہ بنانا اور نہ اسے رشوت کے طور پر خرچ کرکے دوسروں کے حقوق تلف کرنے کی کوشش کرنا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں محض اجمالی ہدایت نہیں دی بلکہ ایک مکمل شریعت عطا فرمائی جس میں حلال و حرام کی پوری تفصیلات موجود ہیں۔ ” وہ ایک ایسا معقول فطری اور جامع قانون ہے جو ہر قوم وملت اور ہر ملک ووطن میں چل سکتا ہے اور امن عامہ کا ضامن ہوسکتا ہے کیونکہ اس قانونِ الٰہی میں قابل اشتراک چیزوں کو مشترک اور وقف عام رکھا گیا ہے۔ جس میں تمام انسان مساوی حق رکھتے ہیں جیسے ہوا، پانی، خود روگھاس، آگ کی حرارت اور غیر مملوک جنگلات اور غیر آباد پہاڑی جنگلات کی پیداوار وغیرہ کہ ان میں سب انسانوں کا مشترک حق ہے، کسی کو ان پر مالکانہ قبضہ جائز نہیں اور جن چیزوں کے اشتراک میں انسانی معاشرت میں خلل پیدا ہوتا ہے یا نزاع وجدال کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں ان میں انفرادی ملکیت کا قانون جاری فرمایا گیا کسی زمین یا اس کی پیداوار پر ابتدائی ملکیت کا قانون جدا ہے اور پھر انتقالِ ملکیت کا جدا اس قانون کی ہر دفعہ میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ کوئی انسان ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہے، بشرطیکہ وہ اپنی جدوجہد ان کی تحصیل میں خرچ کرے اور کوئی انسان دوسروں کے حقوق غصب کرکے یا دوسروں کو نقصان پہنچا کر سرمایہ کو محدود افراد میں مقید نہ کردے، انتقالِ ملکیت خواہ بعدالموت وراثت کے قانونِ الٰہی کے مطابق ہو یا پھر بیع وشراء وغیرہ کے ذریعہ فریقین کی رضا مندی سے ہو، مزدوری ہو یا کسی مال کا معاوضہ دونوں میں اس کو ضروری قرار دیا گیا ہے کہ معاملہ میں کوئی دھوکہ، فریب، یا تلبیس نہ ہو اور کوئی ایسا ابہام اور اجمال نہ رہے جس کی وجہ سے باہمی منازعات کی نوبت آئے۔ نیز اس کی بھی رعایت رکھی گئی ہے کہ فریقین جو رضامندی دے رہے ہیں وہ حقیقی رضامندی ہو کسی انسان پر دبائو ڈال کر کوئی رضامندی نہ لی گئی ہو، شریعتِ اسلام میں جتنے معاملات باطل یا فاسد اور گناہ کہلاتے ہیں ان سب کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان میں وجوہِ مذکور میں سے کسی وجہ سے خلل ہوتا ہے۔ کہیں دھوکہ فریب ہوتا ہے، کہیں نامعلوم چیز یا نامعلوم عمل کا معاوضہ ہوتا ہے، کہیں کسی کا حق غصب ہوتا ہے، کہیں کسی کو نقصان پہنچاکر اپنا نفع کمایا جاتا ہے، کہیں حقوق عامہ میں ناجائز تصرف ہوتا ہے۔ سود، قمار وغیرہ کو حرام قرار دینے کی اہم وجہ یہ ہے کہ وہ حقوق عامہ کے لیے مضر ہیں، ان کے نتیجہ میں چند افراد پلتے بڑھتے ہیں اور پوری ملت مفلس ہوتی ہے۔ ایسے معاملات فریقین کی رضامندی سے بھی اس لیے حلال نہیں کہ وہ پوری ملت کے خلاف ایک جرم ہے۔ آیت مذکورہ ان تمام ناجائز صورتوں پر حاوی ہے۔ ارشاد ہے : وَلَاتَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَـکُمْ بَیْنَـکُمْ بِالْـبَاطِلِ ” نہ کھائو ایک دوسرے کا مال ناجائز طریق پر “۔ اس میں ایک بات تو یہ قابل غور ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں اَمْوَالَکُمْآیا ہے۔ جس کے اصل معنی ہیں ” اپنے اموال “۔ جس میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا کہ تم جو کسی دوسرے کے مال میں ناجائز تصرف کرتے ہو تو یہ غور کرو کہ دوسرے شخص کو بھی اپنے مال سے ایسی ہی محبت اور تعلق ہوگا جیسا تمہیں اپنے مال سے ہے۔ اگر وہ تمہارے مال میں ایسا ناجائز تصرف کرتا تو تمہیں جو دکھ پہنچتا اس کا اس وقت بھی ایسا ہی احساس کرو کہ گویا وہ تمہارا مال ہے۔ اس کے علاوہ اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ جب ایک شخص دوسرے کے مال میں کوئی ناجائز تصرف کرتا ہے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ اگر یہ رسم چل پڑی تو دوسرے اس کے مال میں ایسا ہی تصرف کریں گے۔ اس حیثیت سے کسی شخص کے مال میں ناجائز تصرف درحقیقت اپنے مال میں ناجائز تصرف کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔ غور کیجیے ! اشیائے ضرورت میں ملاوٹ کی رسم چل جائے، کوئی گھی میں تیل یا چربی ملاکرزائد پیسے حاصل کرے تو اس کو جب دودھ خریدنے کی ضرورت پڑے گی، دودھ والا اس میں پانی ملاکر دے گا۔ مسالہ کی ضرورت ہوگی اس میں ملاوٹ ہوگی، دوا کی ضرورت ہوگی اس میں بھی یہی منظر سامنے آئے گا۔ تو جتنے پیسے ایک شخص نے ملاوٹ کرکے زائد حاصل کیے، دوسرا آدمی وہ پیسے اس کی جیب سے نکال لیتا ہے۔ اسی طرح دوسرے کے پیسے تیسرا نکال لیتا ہے۔ بیوقوف اپنی جگہ پیسوں کی زیادتی شمار کرکے خوش ہوتا ہے مگر انجام نہیں دیکھتا کہ اس کے پاس کیا رہا تو جو کوئی دوسرے کے مال کو غلط طریقے سے حاصل کرتا ہے، درحقیقت وہ اپنے مال کے ناجائز تصرف کا دروازہ کھولتا ہے۔ دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ اس ارشادِ خداوندی کے الفاظ عام ہیں کہ باطل اور ناجائز طریق سے کسی کا مال نہ کھائو، اس میں کسی کا مال غصب کرلینا بھی داخل ہے، چوری اور ڈاکہ بھی، جن میں دوسرے پر ظلم کرکے جبراً مال چھین لیا جاتا ہے اور سود، قمار، رشوت اور تمام بیوع فاسدہ اور معاملاتِ فاسدہ بھی جواز روئے شرع جائز نہیں۔ اگرچہ فریقین کی رضامندی بھی متحقق ہو۔ جھوٹ بول کر یا جھوٹی قسم کھا کر کوئی مال حاصل کرلینا یا ایسی کمائی جس کو شریعتِ اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے اگرچہ اپنی جان کی محنت ہی سے حاصل کی گئی ہو وہ سب حرام اور باطل ہیں اور قرآن کے الفاظ میں اگرچہ کھانے کی ممانعت مذکور ہے لیکن مراد اس جگہ صرف کھانا ہی نہیں بلکہ مطلقاً استعمال کرنا ہے، خواہ کھاپی کر یا پہن کر یا دوسرے طریقہ کے استعمال سے۔ مگر محاورات میں ان سب قسم کے استعمالوں کو کھالینا ہی بولا جاتا ہے کہ فلاں آدمی فلاں مال کھا گیا اگرچہ وہ مال کھانے پینے کے لائق نہ ہو۔ “ (معارف القرآن) وَتُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (اور اپنے مال کو حکام رسی کا ذریعہ نہ بنائو تاکہ اس طرح دوسروں کے مال کا کچھ حصہ حق تلفی کرکے ہڑپ کرسکودرآں حالیکہ تم اس حق تلفی کو جانتے ہو) رشوت معاشرے کے لیے تباہ کن ہے آیتِ کریمہ کے اس حصے سے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، وہ یہ کہ تُدْلُوْاکا مصدر ادلائٌ ہے۔ اس کے معنی ” کنویں میں ڈول ڈالنے “ کے ہیں۔ اسی وجہ سے اس کے اندر رسائی اور قربت حاصل کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جس طرح رسی کے ذریعے ڈول پانی تک پہنچتا ہے، اسی طرح مال کے ذریعے لوگ حکام تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور پھر انھیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اس آیت کریمہ میں تمام حرام ذرائع سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح رشوت کے ذریعے بھی کسی کا مال ہڑپ کرنے اور کسی کے حق پر قبضہ کرنے سے بھی روکا گیا ہے بلکہ اس کو الگ ذکر کرکے شائد یہ بتانامقصود ہے کہ رشوت کے ذریعے دوسروں کے حقوق پر قبضہ کرنا یا ناجائز مفادات حاصل کرنا بجائے خود نہایت خطرناک عمل ہے جس سے معاشرے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْن کہہ کر اشارہ کیا ہے کہ رشوت کے تباہ کن نتائج اور اس کی خطرناکی کا اندازہ خود تمہیں بھی ہے کیونکہ دنیا کا کوئی سماج، کوئی معاشرہ اور اس کا کوئی معروف ایسا نہیں ہے جس میں رشوت کی مذمت نہ کی گئی ہو۔ عقل بھی اس کے گناہ ہونے پر یکسو ہے کیونکہ رشوت ایسا خطرناک مرض ہے جس سے کئی خطرناک امراض پیدا ہوتے ہیں مثلاً جس معاشرے میں رشوت کا کاروبار چل نکلتا ہے اس معاشرے کے لوگ حق وناحق کا فرق بھول جاتے ہیں۔ ایسے معاشرے کا ہر دولت مند آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے جائز و ناجائز کی کوئی تقسیم نہیں میں ہراس حق کو اپنا حق سمجھتا ہوں جس کو پیسے کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کا فوری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حقوق بکائو مال بن جاتے ہیں۔ رشوت کی دوسری بڑی برائی یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دارمدار قانون کی بالادستی اور حکام کے ذریعے قانون کے تحفظ پر ہے۔ لیکن جب رشوت کا کاروبار چل نکلتا ہے تو حکام قانون کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ اب ان سے کام لینے کا ذریعہ قانون نہیں ہوتا بلکہ رشوت ہوتی ہے اور جیسے جیسے یہ خون حکام اور عمال کے منہ کو لگتا جاتا ہے ویسے ویسے جائز حق کا حاصل ہونا مشکل ہوتا جاتا ہے۔ اگر ایک طرف جائز اور ناجائز کا فرق ختم ہوجاتا ہے تو دوسری طرف یہ دودھاری تلوار کی طرح معاشرے کو زخمی کرکے رکھ دیتا ہے کہ ایک دفعہ اگر رشوت دینے والا کسی دوسرے کے حق پر قبضہ کرتا ہے تو دوسری دفعہ دوسرا آدمی رشوت کا موقع پاکر اس کے حق پر قبضہ جمالیتا ہے کیونکہ حکام جب رشوت ہی کی زبان سمجھتے ہیں تو انھیں جو بھی رشوت دے گا وہ اس کے لیے اور اس کے حق میں کام کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ رشوت کے مفاسد کی کوئی انتہا نہیں اس لیے آنحضرت ﷺ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں کو جہنمی فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے : الراشی والمرتشی کلاھما فی النار ” رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنم میں جائیں گے “۔ آپ نے اس کا راستہ روکنے کے لیے حکام کو تحائف لینے پر بھی پابندی لگادی۔ حدیث شریف میں آتا ہے : ایک شخص کو آپ نے زکوٰۃ کی وصولی کے لیے عامل بنا کر بھیجا۔ وہ جب زکوٰۃ وصول کرکے واپس آیاتو اس نے مال زکوٰۃ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کچھ ایسی چیزیں بھی پیش کیں جس کے بارے میں اس کا کہنا یہ تھا کہ یہ مجھے لوگوں نے تحفے کے طور پر دی ہیں اس لیے یہ میرا حق ہے۔ آپ نے برہم ہو کر خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا کہ ایک شخص کو میں عامل زکوٰۃ بنا کر بھیجتا ہوں اور وہ واپس آکر کہتا ہے کہ یہ مال زکوٰۃ ہے اور یہ وہ تحائف ہیں جو مجھے دیے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا اگر اس شخص کو اگر میں عامل نہ بناتا اور یہ اپنی ماں کے گھٹنے کے ساتھ لگا بیٹھا رہتاتو کیا پھر بھی اس کو یہ تحائف ملتے ؟ مطلب یہ ہے کہ جو تحائف کسی کو حاکم ہونے کی وجہ سے ملتے ہیں وہ دراصل بالواسطہ رشوت ہوتے ہیں صرف نام بدل دیا جاتا ہے۔ اس لیے آنحضرت نے ایسے تحائف کو بھی رشوت ہی کی طرح حرام ٹھہرایا۔ مختصر یہ کہ اسلام نے حلال پر پابندی اور حرام سے بچنے کی بےحد تاکید فرمائی ہے۔ قرآن وسنت ایسے تاکیدی احکام سے معمور ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کوئی بندہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوتا جب تک اس کا قلب اور زبان مسلم نہ ہوجائے اور جب تک اس کے پڑوسی اس کی ایذائوں سے محفوظ نہ ہوجائیں اور جب تک کوئی بندہ مال حرام کھاتا ہے پھر اس کو صدقہ کرتا ہے تو وہ قبول نہیں ہوتا اور اگر اس میں سے خرچ کرتا ہے تو برکت نہیں ہوتی اور اگر اس کو اپنے وارثوں کے لیے چھوڑ جاتا ہے تو وہ جہنم کی طرف جانے کے لیے اس کا توشہ ہوتا ہے، بیشک اللہ تعالیٰ بری چیز سے برے عمل کو نہیں دھوتے۔ ہاں ! اچھے عمل سے برے عمل کو دھو دیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک مرتبہ خطبہ دیا جس میں فرمایا : اے جماعتِ مہاجرین ! پانچ خصلتیں ہیں جن کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ تمہارے اندر پیدا ہوجائیں۔ ایک یہ ہے کہ جب کسی قوم میں بےحیائی پھیلتی ہے تو ان پر طاعون اور وبائیں اور ایسے نئے نئے امراض مسلط کردیے جاتے ہیں جو ان کے آبائواجداد نے سنے بھی نہ تھے اور دوسرے یہ کہ جب کسی قوم میں ناپ تول کے اندر کمی کرنے کا مرض پیدا ہوجائے تو ان پر قحط اور گرانی اور مشقت اور محنت اور حکام کے مظالم مسلط کردیے جاتے ہیں اور تیسرے یہ کہ جب کوئی قوم زکوٰۃ ادا نہ کرے تو بارش بند کردی جاتی ہے اور چوتھے یہ کہ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑ ڈالے تو اللہ تعالیٰ ان پر اجنبی دشمن مسلط فرما دیتے ہیں جو ان کے مال بغیر کسی حق کے چھین لیتا ہے اور پانچویں یہ کہ جب کسی قوم کے اربابِ اقتدار کتاب اللہ کے قانون پر فیصلہ نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام ان کے دل کو نہ لگیں تو اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں منافرت اور لڑائی جھگڑے ڈال دیتے ہیں۔ (ابنِ ماجہ، بیہقی)
Top