Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 194
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ : حرمت والا مہینہ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ : بدلہ حرمت والا مہینہ وَ : اور الْحُرُمٰتُ : حرمتیں قِصَاصٌ : قصاص فَمَنِ : پس جس اعْتَدٰى : زیادتی کی عَلَيْكُمْ : تم پر فَاعْتَدُوْا : تو تم زیادتی کرو عَلَيْهِ : اس پر بِمِثْلِ : جیسی مَا : جو اعْتَدٰى : اس نے زیادتی کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ المتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں
ماہِ حرام، ماہِ حرام کا بدلہ ہے اور اسی طرح دوسری مختلف چیزوں کا بھی قصاص ہے تو جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس کی زیادتی کے جواب میں اسی کے برابر اس کو جواب دو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ یقین رکھو کہ اللہ حدود الٰہی کا احترام کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اَلشَّھْرُالْحَرَامِ بِالشَّھْرِالْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ط فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَااعْتَدیٰ عَلَیْکُمْ ص وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ۔ (ماہِ حرام، ماہِ حرام کا بدلہ ہے اور اسی طرح دوسری مختلف چیزوں کا بھی قصاص ہے تو جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس کی زیادتی کے جواب میں اسی کے برابر اس کو جواب دو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ یقین رکھو کہ اللہ حدود الٰہی کا احترام کرنے والوں کے ساتھ ہے) (194) اشھرِحرم کی حیثیت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے عربوں میں یہ عقیدہ چلا آرہا تھا کہ ذی القعد اور ذی الحجہ اور محرم کے تین مہینے حج کے لیے خاص تھے اور رجب کا مہینہ عمرے کے لیے خاص کیا گیا تھا۔ انھیں چار مہینوں کو اشھر حرم یعنی حرمت والے مہینے یا حرام مہینے کہا جاتا ہے۔ عرب ان مہینوں کا اس حد تک احترام کرتے تھے کہ ان مہینوں میں ان کی وہ تلواریں جو ہمیشہ دوسروں کا خون بہانے کے لیے بےنیام رہتی تھیں نیام میں چلی جاتی تھیں۔ اس احترام اور پابندی کا فائدہ یہ تھا کہ وہ ان مہینوں میں حج اور عمرہ بھی نہایت اطمینان کے ساتھ کرسکتے تھے اور اس کے علاوہ ان چار مہینوں میں پورے عرب میں تجارت زورو شور سے ہوتی تھی۔ خود مکہ معظمہ حج کے دنوں میں تجارت کا مرکز بن جاتا تھا۔ ان مہینوں کا احترام چونکہ عربوں کے رگ وریشے میں سمایا ہوا تھا اس لیے وہ کبھی اس کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ البتہ ! جب کبھی ان کو لڑائی کی شدید ضرورت پیش آتی یا لڑائی کے حالات پیدا ہوجاتے یا وہ کسی کا انتقام لینے یا غارت گری کرنے کے لیے بےچین ہوتے تو کسی حرام مہینے میں یہ جنگ کر گزرتے اور جس کسی پر بھی چھاپہ مارنا ہوتا اس سے بھی دریغ نہ کرتے اور کسی سے انتقام لینا ہوتا تو انتقام لے لیتے۔ لیکن اس مہینے کی جگہ کسی دوسرے مہینے کو حرام کرکے اپنے تئیں اس حرمت کا بدلہ پورا کردیتے تھے۔ اندازہ فرمائیے ! اشھرحرمکا احترام ان کا ایمان بن چکا تھا۔ لیکن ان کی نفسانی یا قبیلے کی ضرورتیں جب کبھی اس عقیدے سے مزاحم ہوتیں تو وہ اپنی خواہشات یاقبیلے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اس حرمت کو پامال کرنے سے دریغ نہ کرتے لیکن اپنے نفس کی تسکین کے لیے اس کی جگہ کسی دوسرے مہینے کو حرمت والا مہینہ قرار دے دیتے۔ اس کا نام انھوں نے ” نسی “ رکھا تھا۔ ان کی اس حرکت کے باعث مسلمانوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر کفار اپنے نسی کے حیلے کو کام میں لاکر کسی حرام مہینے میں جنگی کارروائی کربیٹھیں تو اس صورت میں کیا کیا جائے ؟ چناچہ اس آیت کریمہ میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ حرام مہینوں کا احترام اور حرمتوں کی پاسداری یکطرفہ نہیں ہوتی اگر ایک فریق تلوار لے کرچڑھ دوڑے اور دوسرا احترام کے تقاضوں کو پورا کرتا رہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اس لیے یہاں فرمایا گیا کہ اشھرحرم اور حدود حرم کا احترام مسلّم ہے بشرطیکہ کفار بھی ان کا احترام ملحوظ رکھیں اور ان میں دوسروں کو ظلم وستم کا ہدف نہ بنائیں۔ لیکن جب ان کی تلواریں ان مہینوں اور اس بلد امین میں بےنیام ہونے سے دریغ نہ کریں تو اس کے قصاص میں وہ بھی امن واحترام کے حقوق سے محروم کیے جائیں گے۔ اس لیے تم اس بات کی پرواہ نہ کرو کہ اگر کسی محترم مہینے میں لڑ نا پڑا یا حدود حرم میں جنگ ہوگئی تو پھر کیا ہوگا ؟ جو بھی ہوگا اس کا وبال لڑائی میں پہل کرنے والوں پر ہوگا۔ البتہ ! یہ ضروری ہے کہ تم کسی حال میں بھی حدود سے آگے مت بڑھو تم ان کے حملوں کا جواب تو پوری قوت سے دو لیکن تقویٰ کی حدود کا ملحوظ رکھنا از بس ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمیشہ ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ہر طرح کے حالات میں تقویٰ کی حدود کا لحاظ رکھتے ہیں اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اعتداء کا مفہوم فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَااعْتَدیٰ عَلَیْکُم : ” تو جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس کی زیادتی کے جواب میں اسی کے برابر اس کو جواب دو “۔ اس جملے میں صنعت تجانس استعمال کی گئی ہے۔ یعنی سابق لفظ کی ہم آہنگی کی وجہ سے اس کا ہم جنس لفظ استعمال کیا جاتا ہے لیکن وہ مفہوم میں اس سے مختلف ہوتا ہے۔ مثلا قرآن پاک میں ہے : جزاء سیئۃٍ سیئۃٌ بمثلھا ” برائی کا بدلہ اسی کے مانند برائی ہے۔ “ ظاہر ہے کہ برائی کا بدلہ برائی نہیں ہوتا بلکہ انصاف اور عدل ہوتا ہے، لیکن یہاں صرف ہم آہنگی کی وجہ سے یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح پیش نظر آیت میں بھی زیادتی کے جواب میں جو اقدام کیا جاتا ہے اس کو ” اعْتَدَاء “ سے تعبیر فرمایا ہے حالانکہ یہ اعتداء یازیادتی نہیں بلکہ زیادتی کا جواب ہے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ تم حدود حرم اور اشھرحرم کا پوری طرح احترام ملحوظ رکھو۔ لیکن اگر مشرکین اس کی پرواہ نہ کریں تو پھر ان کی ہر زیادتی کا جواب ہرحال میں دیئے جانے کی اجازت ہے۔ اس میں کسی طرح کا تأمل نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ ! تمہارا ہر قدم انصاف کے مطابق اٹھنا چاہیے، تمہارا ہر فیصلہ عدل کے ترازو میں ٹھیک تلنے کے لائق ہونا چاہیے کیونکہ تمہاری بنیاد تقویٰ پر ہے اور تقویٰ اللہ سے ڈرنے اور ادائے حقوق کی پاسداری کا نام ہے۔
Top